تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو،حیدرآباد میں حاجی کی ربڑی بہت ہی مشہور ہے، اتنی مشہور ہے کہ اب حیدرآباد میں ہر دوسری دکان والا’’حاجی ‘‘ ہوگیا ہے۔۔اتنے سارے حاجیوں میں اصل حاجی کون سا ہے اس کا علم حیدرآباد سے باہر والوںکوہرگز نہیں ہوسکتا ۔۔اسی طرح ایک اور حاجی حیدرآباد کے علاوہ بھی بہت مشہور تھا۔۔ جب اس کی ریٹائرمنٹ ہوئی تو کسی نے بہت ہی خوب صورت جملہ کہا کہ۔۔ چھ سال تک حاجی کی ربڑی کھائی اب حافظ کا سوہن حلوہ کھائیں۔۔کچھ عرصہ قبل تک گھڑی کا بہت شور مچاہوا تھا جو ’’چھڑی‘‘ پر جاکر لگتا ہے ختم ہوگیا۔۔
حیدرآباد کے پکا قلعہ شاہی بازار میں قیام پاکستان کے ایک سال بعد قائم ہونے والی حاجی ربڑی کی دکان کے مالک محمد نوید شیخ صاحب ہیں، ان کا خاندان بھارتی شہر ریواڑی میں رہتا تھا جہاں ان کے پردادا حاجی بشیرالدین نے یہ ربڑی بنانا شروع کی۔ تقسیم ہند کے بعد ان کا خاندان سندھ کے شہر حیدرآباد آگیا، جہاں 1948 میں پردادا نے یہ دکان قائم کی۔اپنے دادا اور والد کے بعد محمد نوید شیخ یہ دکان چلانے والی چوتھی پیڑھی سے ہیں۔ان کے مطابق حاجی ربڑی کی دکان پر بکنے والی ربڑی بنانے کے لیے روزانہ تقریباً 40 سے 50 من دودھ آتا ہے۔ حاجی ربڑی کی ایک دکان پکا قلعہ شاہی بازار حیدرآباد جب کہ دوسری برانچ کراچی فیڈرل بی ایریا میں واقع ہے۔
اسی طرح ملتان شہر کا روایتی سوہن حلوہ پاکستان بھر مقبول ہے اور سوغات کے طور پر جانا جاتا ہے۔ شہر میں کئی دکانیں یہ حلوہ تیار کرتیں ہیں جن میں سے حافظ کا سوہن حلوہ خاصا مقبول ہے اور کئی دکانیں اس نام سے یہ حلوہ فروخت کر رہی ہیں۔اگر آم گرمیوں کا تحفہ ہے تو سوہن حلوہ سردیوں کی سوغات سمجھی جاتی ہے۔مقامی روایت کے مطابق یہ خاص قسم کا حلوہ جسے اب سب ملتانی سوہن حلوہ کہتے ہیں پہلی بار ’’سوہن ‘‘نے تیار کیا تھا۔ سوہن ملتان کا ایک ہندو حلوائی تھا اور انواع و اقسام کی مٹھائیاں تیار کرتا تھا۔ ایک دن مٹھائی کے لیے منگوایا جانے والا دودھ پھٹ گیا اور بجائے دودھ کو ضائع کرنے کے سوہن نے تجرباتی طور پر دودھ کو کڑاہی میں ڈال کر آگ پر رکھ دیا۔ جوں جوں دودھ گاڑھا ہوتا گیا سوہن اس میں چمچ ہلاتا گیا۔ دودھ کو مزید گاڑھا کرنے کے لیے سوہن نے اس میں گندم کے آٹے کی کچھ مقدار بھی شامل کر دی۔جب سوہن نے اپنی نئی مٹھائی کو چکھا تواس منفرد مٹھائی کا ذائقہ اسے بہت لذیذ لگا۔ لیکن سوہن کو یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ نئی مٹھائی اس قدر لذیذ بھی ہو سکتی ہے۔ اس نے راہ چلتے لوگوں میں نئی مٹھائی بانٹنی شروع کر دی۔ سوہن نے اتفاقاً بن جانے والی یہ مٹھائی اس وقت باقاعدہ طور پر بنانا شروع کر دی جب لوگ آکر اس سے وہی حلوہ دوبارہ کھلانے کا تقاضا کرنے لگے۔ سوہن کا حلوہ چند دنوں میں شہر بھر میں مشہور ہو گیا اور حاکم شہر دیوان’’ ساون مل‘‘ کے دربار میں حاضر ہو کر سوہن نے یہ نئی سوغات پیش کی تو شہر کے گورنر کی پسندیدگی کے بعد اس مٹھائی کی طلب کہیں اور زیادہ ہو گئی۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ دیوان ساون مل جو کہ اٹھارہ سو اکیس میں راجہ رنجیت سنگھ کی طرف سے ملتان کا گورنر بنا کے بھیجا گیا، سوہن حلوے کا ’’موجد‘‘ ہے۔ تاہم اس مؤقف کے حامل لوگوں سے اختلاف کرنے والوں کا کہنا ہے کہ سوہن حلوہ صدیوں پرانی سوغات ہے۔ دیوان، جو کہ انواع و اقسام کے کھانوں کا شوقین تھا، کے محل میں سوہن حلوہ تیار تو بڑی مقدار میں ہوتا تھا لیکن پہلی بار سوہن حلوے کی تیاری دیوان ساون مل کے محل میں نہیں ہوئی تھی۔موجودہ سوہن حلوے پر بات کی جائے تو ملتانی سوہن حلوہ 1930 کے اوائل میں بننا شروع ہوا،اور سب سے پہلے شخص جن کو سوہن حلوہ بنانے کی وجہ سے شہرت ملی وہ’’ حافظ احمد دین ‘‘تھے۔ حافظ احمد دین صاحب قرآن کریم پڑھاتے تھے اور اپنے شاگردوں کے لیے سوہن حلوہ بناتے تھے۔ آہستہ آہستہ یہ سلسلہ آگے بڑھتا گیا اور وہ سوہن حلوہ دوسرے لوگوں کے لیے بھی بنانے لگے۔ اور پھر یہ انکا روز گار بن گیا۔وقت کے ساتھ سوہن حلوہ ملتان سے منسوب ہوتا گیا اور پھر اس کو بنانے، بیچنے اور دیگر ممالک میں برآمد کرنے میں جدت آتی گئی۔ 1945 میں حافظ کا سوہن حلوہ ایک منفرد برانڈ بن گیا اور اس کاروبار کو نئی جہتیں اس وقت ملی جب حافظ حبیب الرحمن نے اپنے سسر سے 1963 میں سوہن حلوہ کا کاروبار لیا اور اسے پورے ملک اور بیرونِ ملک میں متعارف کروایا گیا۔ سوہن حلوہ اپنی لذت اور شہرت کی منزلیں طے کر تا رہا 1993 اور 1997 میں دو دفعہ امریکن کوالٹی ایوارڈ ملا۔ اب حافظ کا سوہن حلوہ بنانے والوں کی چوتھی نسل اس کاروبار کو سنبھال چکی ہے۔
یعنی اگر حاجی کی ربڑی اور سوہن حلوے کی بات کی جائے تو دونوں کو متعارف کرانے والوں کی چوتھی نسل یہ کام کررہی ہے۔۔ لیکن قیام پاکستان کو پچھتر برس ہوچکے۔۔اس دوران جتنی بھی نسلوں نے ہوش سنبھالا سب کو اس حقیقت کا اچھی طرح سے علم ہوگیا کہ ، یہاں کسی بھی وزیراعظم نے اپنی مدت پوری نہیں کی۔۔اب اسے بدقسمتی کہیں یا کوئی اور نام دے لیں۔۔لیکن حقیقت یہی ہے کہ یہاں گھڑی سے زیادہ چھڑی چلتی ہے، ویسے بھی مشہور کہاوت ہے کہ ۔۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔۔ اس لئے مملکت خداداد کو ایسی بھینس سمجھ لیا جائے جو صرف لاٹھی والوں کی ہی ہے۔۔ویسے بھی پاکستان واحد ملک ہے جس میں لوگ اس وجہ سے ناراض ہوتے ہیں کہ ۔۔ ساڈے نال مشورہ نئیں کیتا۔۔۔ جب مشورہ مانگوتو کہتے ہیں۔۔ تیری مرضی اے جیویں مرضی کرلے۔۔یہ بات بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ شوہر چاہے کتنا ہی اعلیٰ تعلیم یافتہ، ڈگری ہولڈر یا کسی اعلیٰ عہدے پر فائز کیوں نہ ہو۔۔جب بیوی نے کہہ دیا کہ آپ نہیں سمجھ سکتے تو آپ نہیں سمجھ سکتے، مزید بحث بیکار ہے بس بات ختم۔۔۔یہی حال لاٹھی والوں کا ہے، جب انہوں نے ایک بار کہہ دیا کہ ۔۔آپ سمجھ نہیں سکتے تو پھر مزید بحث بیکار ہے،بس بات ختم۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔تعلقات نہیں حالات ٹھیک کریں، تعلقات خود ہی ٹھیک ہوجائیں گے۔۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔