hafazati teko par media or session

حفاظتی ٹیکوں پر میڈیا اوریئنٹیشن سیشن

تحریر : قمرالزمان بٹ

آنے والی نسلوں کی صحت اور مستقبل محفوظ بنانے کے لئے محکمہ صحت کی طرف سے جہاں ملک بھر میں عوام کو ان کی دہلیز پر اور گھروں کے قریب بلامعاوضہ طبی خدمات کی فراہمی کا سلسلہ ایک عرصے سے جاری ہے وہاں بارہ موذی اور لاعلاج امراض سے بچاﺅ کے لئے نصف صدی سے ویکسی نیشن بھی کی جا رہی ہے جن میں بیماریوں کے خلاف انسانی جسم میں قوت مدافعت پیدا کرنے کے لئے انسدادی قطرے پلانے کے علاوہ حفاظتی انجکشن بھی شامل ہیں ۔ ویکسی نیشن کے حوالے سے محکمہ صحت کا ملک گیر پروگرام ای پی آئی یعنی توسیعی امیونائزیشن پروگرام بڑی کامیابی سے جاری ہے ۔

ای پی آئی کے تحت اس وقت پنجاب میں پانچ ہزار ویکسی نیٹرز خدمات انجام دے رہے ہیں اور دو سال سے کم عمر نوے فیصد بچوں کی مکمل ویکسی نیشن ہو چکی ہے اور انہیں حفاظتی ٹیکے لگائے جا چکے ہیں ۔ اب باقی رہ جانے والے دس فیصد بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگانے کے لئے جلد ہی آﺅٹ ریچ پروگرام شروع کیا جا رہا ہے ۔ اس آﺅٹ ریچ پروگرام کی آگہی کے حوالے سے فیصل آباد کے مقامی ہوٹل میں میڈیا پرسنز کے لئے اورینٹیشن سیشن پرائمری اینڈ سکینڈری ہیلتھ کیئر ڈیپارٹمنٹ پنجاب ، ڈبلیو ایچ او ، گاوی ، یونیسف اور توسیعی امیونائزیشن پروگرام کے اشتراک سے منعقد کیا گیا ۔ اورینٹیشن سیشن میں یونیسف کے کنسلٹنٹ عقیل سرفراز ، ایڈیشنل ڈائریکٹر ہیلتھ ایجوکیشن پنجاب علی رضا مختار ، سی ای او ہیلتھ ڈاکٹر اسفند یار اور ڈی ایچ او ڈاکٹر عظمت عباس جبکہ صحافی حضرات میں سے حامد یاسین ، ذکراللہ حسنی ، انجم ندیم ، ندیم جاوید ، حیدر عباس ، نعیم ٹیپو ، بلال احمد ، وقاص شیراز ، اشفاق مغل ، شفقت رسول ، طارق شکیل ، رباب چیمہ ، صوبیہ مظہر اور راقم الحروف نے شرکت کی ۔

اس موقع پر بریفنگ دیتے ہوئے مقررین نے کہا کہ دنیا میں اس پروگرام کی شروعات سال 1974 میں کی گئی جبکہ پاکستان میں اس کا آغاز 1978 میں ہوا تھا ۔ ای پی آئی کا بنیادی مقصد خناق ، تشنج اور پولیو جیسی بیماریوں سے ہونے والی اموات کو حفاظتی ٹیکوں کے ذریعے کم کرنا تھا ۔ سال 1990 تک تمام بچوں اور حاملہ خواتین کو حفاظتی ٹیکے لگائے جا چکے تھے ۔ رواں سال دنیا میں ای پی آئی کے پچاس سال پورے ہونے پر زندگیوں کے تحفظ کے پچاس سال کے عنوان سے تقریبات منائی جا رہی ہیں ۔

عصر حاضر میں ای پی آئی کے تحت بارہ موذی امراض کے خاتمے اور عوام کو ان سے محفوظ رکھنے کے لئے ویکسی نیشن کا سلسلہ کامیابی سے جاری ہے ۔ ان امراض میں پولیو ، خسرہ ، ٹائیفائیڈ ، چیچک ، خناق ، تشنج ، ہیپاٹائٹس ، نمونیا ، کالی کھانسی ، گردن توڑ بخار ، کالا یرقان اور اسہال شامل ہیں ۔ ان امراض سے بچاﺅ کے لئے بچوں کو یہ حفاظتی ٹیکے لگوانا ہر پاکستانی کا قومی فریضہ اور ذمہ داری ہے ۔ اس حوالے سے عوام میں آگہی اور شعور پیدا کرنے کے لئے مختلف سوشل پروگرامز کا انعقاد بھی کیا جا رہا ہے ۔ صوبہ پنجاب کی مختلف کچی آبادیوں میں جہاں سٹریٹ تھیٹرز میں مقامی فنکاروں کے ذریعے سبق آموز ڈرامے پیش کر کے ان امراض سے بچاﺅ کے لئے ویکسی نیشن کی افادیت اجاگر کی جاتی ہے وہاں پورے صوبے میں سیمینارز ، تربیتی پروگرامز ، اورینٹیشن سیشنز ، ویکسی نیٹرز ٹریننگ ، آگہی واک کا اہتمام کیا جاتا ہے اور بروشرز بھی تقسیم کئے جاتے ہیں جبکہ سوشل میڈیا کے ذریعے بھی اس مہم کی تشہیر کی جاتی ہے ۔

مقررین نے کہا کہ ہر شہری اپنے بچوں کو یہ حفاظتی ٹیکے لگوا کر ان کا مستقبل محفوظ بنائے ۔ ای پی آئی کے تحت اس وقت پنجاب میں پانچ ہزار ویکسی نیٹرز خدمات انجام دے رہے ہیں اور دو سال سے کم عمر نوے فیصد بچوں کی مکمل ویکسی نیشن ہو چکی ہے اور انہیں حفاظتی ٹیکے لگائے جا چکے ہیں ۔ آﺅٹ ریچ پروگرام کے تحت اکتالیس لاکھ بچوں کی ویکسی نیشن کا ٹارگٹ مقرر کیا گیا ہے ۔ فیصل آباد اور لاہور کی کچی آبادیوں میں پہنچ کر ہدف کے حصول کے لئے خصوصی مہم بھی چلائی جائے گی جبکہ پرائیویٹ پبلک پارٹنر شپ کے تحت ڈاکٹرز کے کلینکس میں ای پی آئی سنٹرز بنائے جائیں گے تاکہ عوام کو ان کے گھر کے قریب یہ مفت سہولت مہیا ہو سکے اور وہ اپنے معصوم بچوں کو حفاظتی ٹیکوں کا کورس مکمل کروا سکیں ۔حفاظتی ٹیکوں کے کورس سے رہ جانے والے بچوں کی ویکسی نیشن یقینی بنانے کے لئے ای پی آئی کی 273 سائٹس میں سے 185 سائٹس کو پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت چلایا جائے گا ۔ اس کے علاوہ ایک مربوط نظام متعارف کروایا جا رہا ہے جس کے تحت تمام ای پی آئی سنٹرز کی لوکیشن گوگل پرتلاش کی جا سکے گی اور عوام اپنے قریب ترین سنٹر پر جا کر بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگوا سکیں گے ۔

مقررین نے بتایا کہ صرف ٹائیفائیڈ کا علاج اینٹی بائیوٹک ادویات سے ممکن ہے جبکہ باقی گیارہ بیماریوں سے تحفظ کے لئے ویکسی نیشن لازم ہے ۔ پاکستان میں بچوں میں اموات کی بڑی وجہ نمونیا کا جان لیوا مرض ہے ۔ وطن عزیز میں انیس فیصد بچوں کی موت کی وجہ نمونیا کا مرض ہے ۔ ماہرین صحت نے بتایا کہ پاکستان 1974 میں چیچک قرار دیا جا چکا ہے لیکن اس کے باوجود احتیاط کے طور پر بچوں کو حفاظتی ٹیکوں کے پروگرام کے تحت اس مرض کی ویکسی نیشن بھی کی جا رہی ہے تاکہ اس کا وائرس دوبارہ اپنی جگہ نہ بنا سکے ۔ مربوط اور تسلسل کے ساتھ ہونے والی ویکسی نیشن ہی کا نتیجہ ہے کہ گزشتہ تین سال سے پنجاب میں پولیو کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا ۔ اگر کہیں سیوریج کے پانی میں اس کا سیمپل ملا ہے تو وہ ہمسایہ ملک سے آبی رستے سے آتا ہے ۔

یونیسف کے کنسلٹنٹ عقیل سرفراز نے بریفنگ میں بتایا کہ صرف پنجاب میں بچوں کو سات بار حفاظتی ٹیکے لگائے جاتے ہیں جبکہ باقی صوبوں میں چھ بار انجکشن لگتے ہیں ۔ ایک سروے کے مطابق پنجاب میں صرف 0.9 فیصد بچے حفاظتی ٹیکے لگنے سے رہ گئے ہیں جن کی تعداد تیس ہزار بنتی ہے ۔ اسلام آباد میں تین فیصد ، سندھ میں سات فیصد ، خیبر پختونخوا میں دس فیصد اور بلوچستان میں سب سے زیادہ 39 فیصد بچے زیرو ڈوز ہیں یعنی ان کی ویکسی نیشن نہیں ہو سکی ۔اسی طرح اعدادوشمار کے مطابق فیصل آباد میںدو سال تک عمر کے 87 فیصد بچوں کا حفاظتی ٹیکوں کا کورس مکمل ہو چکا ہے جبکہ لاہور میں 85 اور کراچی میں 68 فیصد بچوں کی ویکسی نیشن مکمل کی جا چکی ہے ۔

ای پی آئی اورینٹیشن سیشن کے دوران عقیل سرفراز نے انکشاف کیا کہ حکومت پنجاب ان بارہ امراض کے علاوہ ایک اورموذی مرض بچیوں کے رحم (بچہ دانی )کے کینسر سے تحفظ کے لئے رواں سال نئی ویکسین شروع کرنے جا رہی ہے ۔ یہ ویکسین نو سے پندرہ سال تک کی سکول جانے والی طالبات کو لگائی جائے گی ۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان میں ہر سال رحم کا کینسر تین لاکھ خواتین کی جان لیتا ہے اور اس وقت چار لاکھ چالیس ہزار خواتین اس جان لیوا مرض کا شکار ہیں ۔ خواتین روایتی شرم و جھجک کے باعث اپنے اس مرض کے بارے میں کسی سے بات نہیں کرتیں جس کے باعث یہ مرض پھیلتا جا رہا ہے ۔

سوال و جواب کی نشست میں بتایا گیا کہ توسیعی پروگرام برائے حفاظتی ٹیکہ جات کے تحت بچوں کو سات بار حفاظتی ٹیکے لگانے کے شیڈول کے مطابق پہلی دفعہ پیدائش کے وقت ، دوسری بار چھ ہفتے بعد ، تیسری بار دس ہفتے بعد ،چوتھی دفعہ چودہ ہفتے بعد ، پانچویں دفعہ نو ماہ بعد ، چھٹی بار پندرہ ماہ بعد اور ساتویں دفعہ اٹھارہ ماہ یعنی ڈیڑھ سال بعد بارہ امراض کے بچاﺅ کے ٹیکے لگائے جاتے ہیں تاکہ وہ تمام زندگی ان جان لیوا بیماریوں سے محفوظ رہ سکیں ۔محکمہ صحت کے نمائندوں نے میڈیا نمائندگان سے اپیل کی کہ وہ اپنے اپنے فورمز سے حفاظتی ٹیکوں کی افادیت اور اہمیت کے حوالے سے رپورٹنگ کریں تاکہ ہر شہری اپنے بچوں کی صحت کے اس مفت پروگرام سے استفادہ کر سکے اور آنے والے کل میں خدانخواستہ کسی بیماری کا شکار ہونے والے بچے کو دیکھ کر اسے پچھتاوا نہ ہو ۔( قمرالزمان بٹ)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں