تحریر: عطاالحق قاسمی۔۔
یہ بہت پرانی بات ہے
پی ٹی وی کے لاہور سینٹر سے میرا ایک ڈرامہ سیریل ’’اپنےپرائے‘‘ آن ایئر گیا جس کے پروڈیوسر ایوب خاور تھے اسی ہفتے انور مقصود کا ڈرامہ سیریل ’’آنگن ٹیڑھا ‘‘کراچی سینٹر سے شروع ہوا یہ دونوں کامیڈی ڈرامے تھے۔ اس وقت کے پی ٹی وی کے ایم ڈی اور اردو کے ممتاز شاعر ضیا ءجالندھری نے ان ڈراموں کی پہلی قسط دیکھی تو وہ فلائی کرکے پہلے لاہور پہنچے اور ڈرامے کے ایک کردار پر اعتراض کیا جو اپنے ہکلے پن کی وجہ سے تایا کو ’’تتایا‘‘ کہتا تھا ،کہا گیا کہ یہ کردار ڈرامے میں دوبارہ دکھائی نہ دے۔ ٹی وی انتظامیہ نے کہا حضور کوئی بات نہیں آپ کو آئندہ قسطوں میں اس قسم کی کوئی خرابی نظر نہیں آئے گی اس کے بعد انہوں نے پہلے سے ریکارڈ شدہ تین قسطوں کی کاٹ چھانٹ کرکے اس کی ایک قسط بنائی اور باقی قسطوں کی ریکارڈنگ کے دوران پروگرام مینجر کو ایوب خاور کےسر پر بٹھا دیا گیا جس کے نتیجے میں باقی ماندہ ڈرامہ خرابیوں کے علاوہ خوبیوں سے بھی پاک ہوگیا اس کے بعد ضیاء صاحب کراچی گئے۔ انہوں نے انور مقصود کے ڈرامے میں مرحوم سلیم ناصر کے کردار پر اعتراض کیا جس میں ہیجڑے پن کی جھلک تھی کراچی کی ٹی وی انتظامیہ نے جو ہمیشہ اپنے لائنز اور پروڈیوسرز کے حقوق کا دفاع کرتی ہے ایم ڈی سے کہا کہ جناب ڈرامے کی چھ قسطیں ریکارڈ ہو چکی ہیں انہیں تو ہم نہیں چھیڑ سکتے البتہ اس کے بعد آپ کو شکایت کا موقع نہیں ملےگا اس کے بعد ضیاء صاحب کو اپنی مصروفیات کی وجہ سے واقعی شکایت کا موقع نہیں ملا ورنہ اس کردار کے ’’مینر ازم ‘‘ کو جوں کا توں رکھا گیا اور پورا ڈرامہ سلیم ناصر (مرحوم)کی لاجواب اداکاری اور انور مقصود کے باکمال ڈائیلاگز کے ساتھ آن ایئر گیا !
یہ واقعہ مجھے یوں یاد آیا کہ ان دنوں پی ٹی وی کے اکثر ڈراموں میں ایک نہ ایک ہیجڑا ضرور نظر آتا ہے جو اپنی زنانہ حرکتوں اور اپنے زنخا پن سے ناظرین کو ہنسانے کی کوشش کرتا ہے میں نے ایک ٹی وی پروڈیوسر سے پوچھا ان دنوں ڈراموں میں ہیجڑے کیوں زیادہ ہو گئے ہیں بولا لوگ بہت دکھی ہیں انہیں ہنسانے کے لئے ہیجڑوں کے کردار سے کام لینا پڑتا ہے میں نے کہا میں تو جب کسی کے کردار میں ہیجڑہ پن دیکھتا ہوں تو مجھے رونا آتا ہے تم ہنسنے کی بات کرتے ہو اس پر میرے پروڈیوسر دوست نے پینترا بدلا اور کہا یہ تو تم جانتے ہی ہو کہ ڈرامہ زندگی کا عکاس ہوتا ہے اس میں وہی کچھ دکھایا جاتا ہے جو معاشرے میں ہو رہا ہوتا ہے سارا معاشرہ ہیجڑوں سے بھرا ہوا ہے ہم مردانہ کردار کہاں سے لائیں۔ انہی دنوں میری ملاقات ایک ہیجڑے سے ہوئی جو ’’ہم خیالوں‘‘ کے کنونشن میں شرکت کرکے آ رہا تھا میں نے اس سے پوچھا تم ان دنوں ٹی وی ڈرامے دیکھتے ہو بولا ’’ساری عمر ڈرامے دیکھتے ہی تو گزری ہے ‘‘ میں نے کہا جب تم ان ٹی وی پر ہیجڑوں کا کردار دیکھتے ہو تو تمہیں کیا محسوس ہوتا ہے کہنے لگا اقبال کا ایک شعر یاد آتا ہے؎
گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں
یہاں اب میرے رازداں اور بھی ہیں
اور دل خوش ہوتا ہے میں نے کہا ڈراموں کو دفعہ کرو یہ بتائو ٹی وی پر دانشوروں کی گفتگو سنتے ہو بولا سنتا ہوں سے کیا مطلب میں خود ان دانشوروں میں شامل ہوں لگتا ہے تم یہ پروگرام نہیں دیکھتے جس ہیجڑےسے میری گفتگو ہوئی وہ خاندانی ہیجڑا تھا مگر حیرت مجھے اس روز ہوئی جب میں نے ایک روز ایک چھ فٹے نوجوان کو جس کے چہرے پر گھنی مونچھیں تھیں اور جسے باقاعدہ مردانہ وجاہت کا نمونہ کہا جاسکتا تھا ہیجڑوں کی ایک ٹولی کے ساتھ بیٹھے دیکھا وہ انہی کی طرح ناک پر انگلی رکھ کر بات کرتا تھا اور انہی کی طرح دونوں ہاتھ لٹکا کر چلنے کی بجائے انہیں ہوا میں الٹا کرکے چلتا تھا میں نے پوچھا برادرم تم ان لوگوں کےساتھ کیسے جس پر اس نے ناراض ہو کر کہا میں تمہیں برادرم لگتا ہوں تمہارے گھر میں کوئی باپ بھائی نہیں ہے مگر کچھ ہی دیر بعد اسے اپنے رویے پر ندامت ہوئی اور اس نے میرے گالوں پر چٹکی بھر کے کہا شیطان کہیں کا ۔
میں نے اس کے خوشگوار موڈ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پوچھا یار یہ بتائو ایک قوی ہیکل مرد ہو تم ان ہیجڑوں کی صف میں کیسے شامل ہو گئے میری اس بات پر اسے شاید اپنا ماضی یاد آ گیا تھا ایک سردآہ بھر کر بولا تمہاری حیرت بجا ہے مجھے کبھی اپنے مرد ہونے پر فخر تھا میرے ارد گرد بھی مرد ہوتے تھے مگر پھر رفتہ رفتہ معاشرے میں ہیجڑوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور ان سب سے ہر ایک کے پاس ہیجڑا بننے کا اپنا جواز تھا ایک دن میں نے محسوس کیا کہ ہیجڑوں کے اس شہر میں میں اکیلا مرد رہ گیا ہوں جب مجھے تنہائی کے احساس نے بہت تنگ کیا تو میں بھی ہیجڑوں کی ٹولی میں شامل ہو گیا پھر اس نے ریاض مجید کا یہ شعر پڑھا اور اپنا منہ دوسری طرف پھیر لیا۔
میرا دکھ یہ ہے میں اپنے ساتھیوں جیسا نہیں
میں بہادر ہوں مگر ہارے ہوئے لشکر میں ہوں
ایک ہیجڑے کی یہ گفتگو سننے کے بعد میرا جی چاہتا ہے میں کہ مرحوم ضیاء جالندھری پوچھوں کہ آپ کو کبھی ایک کردار کے زنخے پن پر اعتراض تھا اب تو زندگی کے مختلف کردار اسی رنگ میں رنگے ہوئے ہیں اب آپ کیسا محسوس کرتے ہیں ۔(بشکریہ جنگ)۔۔