تحریر: حامد میر۔۔
یہ ایک ایسی لڑائی کی کہانی ہے جو 1950میں شروع ہوئی ۔اس لڑائی کا ایک فریق ہر قسم کے اسلحے اور وسائل سے مالا مال ہے ۔دوسرے فریق کے پاس صرف قلم اور کیمرہ ہے۔ ایک فریق کا نام حکومت ہے اور دوسرا فریق صحافی ہیں۔حکومت ان صحافیوں کو سچ بولنے اور لکھنے سے روکنا چاہتی ہے۔ حیلے بہانوں سے یہ سمجھانے کی کوشش کرتی ہے کہ صرف وہ سچ بولو اور لکھو جس کی زد میں حکومت نہ آئے لیکن صحافی باز نہیں آتے۔یہ گستاخ صحافی کبھی جیل میں پھینک دیے جاتے ہیں، کبھی ان کو کوڑے مارے جاتے ہیں، کبھی نوکریوں سے نکالا جاتا ہے اور کبھی کبھی تو انہیں گولیاں بھی مار دی جاتی ہیں لیکن یہ اپنی لڑائی ختم نہیں کرتے۔
آزادیٔ صحافت کی اس لڑائی کی کہانی کو پہلی دفعہ پاکستان فیڈرل یونین جرنلٹس نے کتابی شکل دیدی ہے۔ویسے تو پاکستان میں صحافت کی تاریخ اور سنسر شپ کے بارے میں کئی کتابیں شائع ہو چکی ہیں لیکن پی ایف یو جے نے آزادیٔ صحافت کیلئے 1950 کے بعد ہونے والی جدوجہد کی کہانی کو اس کہانی کے اہم کرداروں کی زبانی مرتب کرایا ہے اور اس کتاب کے ذریعہ ایسے ایسے واقعات تاریخ کا حصہ بن گئے ہیں جو اکثر نوجوان صحافیوں اور ابلاغیات کے طلبہ و طالبات کے علم میں نہیں ہوں گے۔یہ کتاب انگریزی اور اردو، دونوں زبانوں میں شائع کی گئی ہے اردو حصے کا نام ہے ’’پی ایف یو جے ، آزادی صحافت کی جدوجہد کے ستر سال‘‘۔پی ایف یو جے کی جدوجہد کو کتابی شکل دینا ایک بہت بڑا چیلنج تھا ۔پی ایف یو جے نے یہ چیلنج ایک کمیٹی کے سپرد کیا جس کے سربراہ مظہر عباس تھے۔اردو حصے کا مدیر وارث رضا اور انگریزی حصے کا مدیر نظام صدیقی کو بنایا گیا۔ان کی معاونت فہیم صدیقی اور اشرف خان کے علاوہ صحافت کے معروف استاد ڈاکٹر توصیف احمد خان نے کی۔
کمال یہ ہے کہ ایک طرف جنرل ضیاء الحق کے دور میں آزادی صحافت کی خاطر کوڑے کھانے والے ناصر زیدی، اقبال جعفری اور خاور نعیم ہاشمی سے انہیں دی جانے والی سزائوں پر تفصیل لکھوا لی گئی۔دوسری طرف آئی اے رحمان، حسین نقی، ضیاء الدین، مسعود اشعر، جی این مغل، محمود شام، سی آر شمسی،فوزیہ شاہد، شہزادہ ذوالفقار، مطیع ﷲ جان، رحیم ﷲ یوسفزئی، عدنان رحمت، مائرہ عمران اور بہت سے دیگر ساتھیوں سے آزادی صحافت کی جدوجہد کا آنکھوں دیکھا حال لکھوا کر اس کتاب میں محفوظ کر دیا گیا ہے۔یہ کتاب ان صاحبان کو ضرور پڑھنی چاہئے جو یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں میڈیا بڑا آزاد ہے اور میڈیا کو یہ آزادی پرویز مشرف نے دی۔ اس کتاب میں موجود حقائق یہ بتاتے ہیں کہ میڈیا نہ کل آزاد تھا نہ آج آزاد ہے۔ جو تھوڑا بہت سچ آپ اخبارات یا ٹی وی چینلز پر دیکھتے ہیں وہ کئی خطرات مول لیکر لکھا اور بولا جاتا ہے اور پھر اس کی قیمت بھی ادا کی جاتی ہے۔
میڈیا کو صرف سیاست دانوں کی پگڑیاں اچھالنے اور انہیں آپس میں لڑانے کی آزادی ہے۔ جب ان سیاست دانوں کے پاس طاقت آتی ہے تو یہ بھی جمہوریت کو مضبوط بنانے کی بجائے میڈیا کی آواز دبانے پر زور لگاتے ہیں۔اس کتاب میں انور ساجدی نے ذوالفقار علی بھٹو کے دور کے کچھ واقعات کو شامل کر دیا ہے ۔
بھٹو صاحب نے پاکستان کو 1973کا آئین دیا اور بہت کچھ بدلا لیکن جنرل ایوب خان کا پریس اینڈ پبلی کیشنز آرڈیننس ختم نہ کیا۔1974 میں ان کی حکومت نے جماعت اسلامی کا اخبار ’’جسارت‘‘ بند کر دیا تو پی ایف یو جے نے اس پابندی کے خلاف احتجاج کا فیصلہ کیا۔انور ساجدی نے پی ایف یو جے کے رہنما نثار عثمانی کو فون کیا اور کہا کہ جماعت اسلامی نے ہمیشہ ہم پر ظلم کیا ہم اس کیلئے کیوں آواز اٹھائیں؟ عثمانی صاحب نے انور ساجدی کو ڈانٹا اور کہا کہ ہمارا بنیادی مقصد آزادیٔ صحافت اور کارکن صحافیوں کا تحفظ ہے لہٰذا ہم احتجاج ضرور کریں گے ۔پھر یہی نثار عثمانی تھے جنہوں نے منہاج برنا کے ساتھ مل کر جنرل ضیاءالحق کی آمریت کے خلاف تحریک کا آغاز کیا۔
یاد رہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد کافی عرصہ تک خاموشی رہی۔تحریک بحالی جمہوریت ( ایم آر ڈی ) بہت بعد میں بنی لیکن صحافت پر پابندیوں کے خلاف پی ایف یو جے کی تحریک دسمبر 1977میں عروج پر تھی۔اس تحریک میں کارکن صحافیوں کی طرف سے چھوٹے چھوٹے گروپوں میں گرفتاریاں دی جاتی تھیں ۔کئی سیاسی جماعتوں کے کارکن، وکلاء، مزدور اور طلبہ تنظیمیں بھی صحافیوں کی اس تحریک میں شامل ہوگئیں۔اس تحریک میں پیپلز پارٹی کے رہنما مسرور احسن نے بھی حصہ لیا۔
پی ایف یو جے کی اس تاریخ میں مسرور احسن کا مضمون بھی شامل ہے ۔وہ لکھتے ہیں کہ پی ایف یو جے اور ایپنک کی تحریک صرف آزادیٔ صحافت کی نہیں بلکہ بحالی جمہوریت کی تحریک تھی جس میں تمام مظلوم طبقات رنگ، نسل اور زبان سے بالا تر ہو کر اورطلبہ اپنی اپنی باری پر گرفتاری دیتے اور ریاستی ادارے انہیں شکاری کتوں کی طرح ڈھونڈتے رہتے تاکہ انہیں گرفتاری دینے سے پہلے گرفتار کر لیا جائے۔ایک دن مسرور احسن فیڈرل بی ایریا کراچی میں ایک دوست محمد نیئر کے گھر پہنچے تو وہاں پہلے سے روپوش صحافی موجود تھے۔ انہیں ایک مزدور لیڈر خدا بخش لاسی اپنے ساتھ لیکر شیر شاہ ویلیج کے قدیمی قبرستان پہنچ گئے۔ قبرستان میں بھی مساوات اخبار کے کارکن پہلے سے موجود تھے۔قبرستان کے گورکن نے ان صحافیوں سمیت مسرور احسن کو کچھ خالی قبروں میں چھپا دیا اور مچھر مار دوا بھی دیدی۔ان سب نے رات خالی قبروں میں گزاری۔صبح قبروں سے اٹھ کر ان لوگوں نے گرفتاری دی اور جنرل ضیاء کی سزائیں بھگتیں ۔
پی ایف یو جے کے ایک اور صدر شہزادہ ذوالفقار نے اس کتاب میں بتایا ہے کہ 2012میں بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مختلف صحافیوں کے خلاف دہشت گردی کے 12مقدمات درج کرانے کا حکم دیا کیونکہ ان صحافیوں نے کچھ کالعدم تنظیموں کے بیانات شائع کئے تھے۔جب صحافیوں نے بتایا کہ ریاست انہیں تحفظ فراہم نہیں کرتی لہٰذا وہ دبائو میں آکر یہ بیانات شائع کرنے پر مجبور ہیں تو قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ تم دبائو کا مقابلہ نہیں کر سکتے تو جاکر پکوڑوں کی دکان لگالو۔جب اسی قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف عمران خان کی حکومت نے نااہلی کا ریفرنس دائر کیا تو پی ایف یو جے نے نہ صرف ریفرنس کی مذمت کی بلکہ جج صاحب کے دفاع میں ریاست کے خلاف پارٹی بھی بن گئی ۔اس کتاب میں ایک تصویر شامل ہے جب 2007میں مشرف حکومت نے مجھ سمیت کچھ صحافیوں پر پابندی لگائی تو پی ایف یو جے اور آر آئی یو جے نے سڑکوں پر روڈ شوز شروع کر دیے۔میں بھی سڑکوں پر کیپٹل ٹاک کرتا تھا اور ان روڈ شوز میں عمران خان باقاعدگی سے شرکت کرتے تھے۔ تصویر میں عمران خان کے ایک طرف انصار عباسی، درمیان میں یہ ناچیز اور دوسری طرف حنیف عباسی نظر آ رہے ہیں اور افضل بٹ نعرے لگوا رہے ہیں۔
آج عمران خان وزیر اعظم ہیں اور پی ایف یو جے نے اپنی جدوجہد کی کہانی شائع کرکے انہیں پیغام دیا ہے کہ ہم کوڑے کھانے والے اور خالی قبروں میں راتیں گزار کر گرفتاریاں دینے والے لوگ ہیں، آپ بھلے اپنے وعدے بھول جائیں لیکن ہم اپنے اصول نہیں چھوڑیں گے، ہم قبروں سے نکل نکل کر اپنی لڑائی جاری رکھیں گے۔(بشکریہ جنگ)