تحریر: جاوید چودھری۔۔
ہم حیران ہیں دنیا اور انسان 536ء سے 547ء کے درمیان بچ کیسے گئے تھے؟ انسانی تاریخ میں اس سے بدتر زمانہ گزرا اور نہ گزرے گا‘ وہ قیامت تھی‘ انسانوں کا اس سے بچ جانا معجزہ تھا اور یہ معجزہ ثابت کرتا ہے کائنات کا نظام کوئی طاقت چلا رہی ہے‘ وہ ہمیں ہر بحران‘ ہر قیامت سے نکال لیتی ہے‘‘ یہ الفاظ ڈاکٹر مائیکل میکارمک کے ہیں۔۔
ڈاکٹر میکارمک دنیا کی تیسری بڑی یونیورسٹی ہارورڈ میں تاریخ کے پروفیسر ہیں‘ ہارورڈ نے اینی شیٹوفار دی سائنس آف ہیومین پاسٹ کے نام سے ایک دل چسپ چیئر تخلیق کی‘ ڈاکٹر میکارمک اس چیئر کے ہیڈ ہیں‘ یونیورسٹی نے اس شعبے میں سائنس اور آرٹس دونوں کو اکٹھا کر دیا چناں چہ جینیٹکس‘ آرکیالوجی‘ موسمیات‘ ماحولیات‘ کمپیوٹر سائنس‘ انفارمیشن ٹیکنالوجی‘ سماجیات اور انسانی رویوں کے بڑے دماغوں نے ایک چھت کے نیچے بیٹھ کر انسانی تہذیب پر ریسرچ شروع کر دی۔
یہ ریسرچ صرف ایک نکتے کے گرد گھومتی ہے ’’انسان کا ماضی کیا ہے؟‘‘ تحقیق کے دوران یہ ماہرین جب 536ء میں پہنچے تو یہ حیران رہ گئے یہ انسانی تاریخ کا وحشت ناک ترین سال تھا‘ کیوں؟ کیوں کہ کائنات میں اس سال ایک عجیب واقعہ پیش آیا تھا‘ لوگ صبح اٹھے تو زمین سے سورج غائب تھا‘ یورپ‘ مشرقی وسطیٰ اور ایشیا میں کالے بادل چھائے ہوئے تھے اور ان بادلوں نے دنیا پر ایک گہری رات تان دی تھی‘ ہاتھ کو ہاتھ سجائی نہیں دے رہا تھا اور دنیا کے کسی کونے میں روشنی کی کوئی کرن نہیں تھی‘ یہ عجیب بات تھی۔
لوگ سڑکوں اور چھتوں پر کھڑے ہو کر آسمان کی طرف دیکھنے لگے لیکن ان کے سروں پر آسمان تھا ہی نہیں لہٰذا انھیں نظر کیا آتا؟ چاروں اطراف اندھیرے کا دوردورہ تھا‘ ہم لوگ عام حالات میں رات کے وقت بھی گھروں سے باہر چل پھر لیتے ہیں‘ کیوں؟ کیوں کہ چاند اور ستاروں کی روشنی بھی ٹھیک ٹھاک ہوتی ہے‘ یہ روشنی مسافروں کا ہاتھ تک تھام لیتی ہے لیکن اس دن آسمان تھا اور نہ ہی اس پر تارے اور چاند‘ لوگ جس طرف دیکھتے تھے انھیں گھپ اندھیرے کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا۔
لوگوں نے مشعلیں جلا لیں لیکن یہ مشعلیں بھی زیادہ دیر تک ان کا ساتھ نہ دے سکیں اور یہ دوبارہ اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنے لگے‘ لوگوں کا خیال تھا یہ عذاب ایک آدھ دن میں ٹل جائے گا لیکن دن گزرتے گئے اور رات پھیلتی اور بڑھتی چلی گئی‘ تین چار دن بعد زمین کا درجہ حرارت بھی گرنے لگا اور پورا یورپ اور آدھا ایشیا جمنے لگا‘ پورے پورے ملک برف کاگولہ بن گئے‘ جلانے کے لیے لکڑیاں ناپید ہوگئیں‘ لوگ گھروں تک محدود ہوگئے‘ کاروبار زندگی رک گیا‘ یہ سلسلہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دراز ہوتا چلا گیا‘ دن ہفتوں میں تبدیل ہوئے‘ ہفتے مہینوں میں بدلے اور مہینے سال بن گئے لیکن سورج واپس نہ آیا اور دنیا برف کا گولہ بن کر رہ گئی‘ سردی کا اڑھائی ہزار سال کا ریکارڈ ٹوٹ گیا۔
باغ‘ کھیت اور جنگل اجڑ گئے‘ ندیاں‘ نالے اور جھیلیں جم گئیں‘ اناج اور پھل ختم ہو گئے‘ جانور اور مویشی بھوک سے مرتے چلے گئے اور موسم اور دن رات کی تمیز ختم ہو گئی‘ سردیاں کب ختم ہوئیں اور گرمیاں کب شروع ہوئیں اور رات کب دن میں تبدیل ہوئی تمام اعدادوشمار دم توڑ گئے‘ لوگ جوتے ابال کر کھانے لگے‘ شہروں میں کتے اور بلیاں تک ختم ہو گئیں‘ لوگ اپنے پالتو جانور تک کھا گئے تھے‘ لوگ لاشیں بھی پکا کر کھا جاتے تھے‘ آگ تحفہ بن گئی تھی‘ لوگ آگ کے انگارے ایک دوسرے سے ادھار لیتے اور دیتے تھے‘ چھتوں کے شہتیر‘ بالے اور لکڑی کے فرش تک چولہوں کی نذر ہو چکے تھے اور لوگوں نے گھروں کا فرنیچر بھی جلا کر کوئلہ بنا دیا تھا۔
تاریخ اس دور کو ’’ڈارک ایج‘‘ کہتی ہے‘ یہ زمانہ 18 ماہ تک پوری شدت سے قائم رہا‘ لوگوں سے ان کا سایہ تک روٹھ گیا تھا‘ ڈیڑھ سال بعد درجہ حرارت میں تھوڑا تھوڑا اضافہ شروع ہوا جس سے لوگوں کے اندر امید نے جنم لیا اور یہ محسوس کرنے لگے شاید ان کا بچھڑا ہوا سورج واپس آ جائے‘یہ اندازہ ٹھیک نکلا‘ ڈیڑھ سال بعد حالات تبدیل ہونے لگے لیکن اس کے باوجود سورج کو پوری توانائی کے ساتھ واپس لوٹنے میں گیارہ سال لگ گئے۔
پانچ سو سینتالیس عیسوی میں مشرق اور مغرب کا فرق واضح ہوا اور موسم واپس آنے لگے لیکن پہلے ڈیڑھ سال اور پھر اگلے ساڑھے نو برسوں نے دنیا کا ہزاروں برسوں کے برابر نقصان کر دیا تھا‘ زمین کی توانائی ختم ہو چکی تھی‘ یہ بیج اگانا بھول چکی تھی‘ اناج کے بیج اول تھے نہیں اور اگر تھے تو اگتے نہیں تھے اور یہ اگر اگ جاتے تھے تو زمین سے پیداوار نہیں ہوتی تھی‘ یورپ کے اکثرملکوں میں گندم سمیت کوئی اناج نہیں اگ رہا تھا‘ جنگل بھی ویران ہو چکے تھے‘ درخت اپنے تنوں پر گرے پڑے تھے‘ سبزیاں تھیں نہیں اور رہ گئے جانور تو یوں محسوس ہوتا تھا یہ کسی دوسرے سیارے میں نقل مکانی کر گئے ہیں۔لوگوں کے کان بلی اور کتے کی آواز کو بھی ترس گئے تھے‘ چڑیاں‘ کوے اور کونجیں بھی ناپید تھیں اور زمین کا پانی بھی سوکھ گیا تھا‘ لوگ برف پگھلا کر پیتے تھے‘ دنیا میں ان اٹھارہ ماہ یا گیارہ برسوں میں کتنے لوگ مرے اس کا کوئی شمار نہیں تھا‘ سیانے لوگ صاف کہتے تھے دنیا شاید اب پرانی ڈگر پر واپس نہ آ سکے‘ زمین پر اب اناج اگے گا‘ جانور دوڑیں گے اور نہ ہی انسان ہنسیں گے‘ لوگوں کے گلوں میں آوازیں تک پھنس جاتی تھیں‘ یہ ہنسنا تو دور بات تک نہیں کر سکتے تھے‘ یوں محسوس ہوتا تھا زمین پر بھوتوں کا بسیرا ہے اور یہ بھوت کبھی دوبارہ انسان نہیں بن سکیں گے۔
تنور بھی اب سرخ نہیں ہوں گے اور گھروں سے کھانے کی خوشبوبھی نہیں آئے گی‘ اداسی‘ قلت‘ پریشانی‘ بے زاری اور مایوسی کا یہ سلسلہ 570ء تک چلتا رہا‘ لوگ 536ء سے 570ء تک اگلے 34 سال امید وبیم کی کیفیت میں رہے‘ سورج واپس آ گیا‘ چاند بھی نظر آتا تھا اور رات آسمان پر ستارے بھی ٹمٹماتے تھے لیکن قلت‘ ذلت اور اداسی کی چادر نہیں سرک رہی تھی‘ لوگوں کے دلوں میں خوف اور ہیبت بیٹھ گئی تھی‘ یہ ایک دوسرے کی طرف دیکھتے تھے تو دیکھتے ہی چلے جاتے تھے‘ یہ بیٹھتے تھے تو سارا سارا دن بیٹھ کر گزار دیتے تھے‘ ہم آج بھی دیر تک بیٹھنا چاہتے ہیں۔
ہم انسانوں میں سے 82فیصد لوگوں کو دیر تک بیٹھے رہنا اچھا لگتا ہے‘ ماہرین کا خیال ہے یہ 536ء کی ڈارک ایج کے سات اثرات میں سے ایک ہے‘ ہم نے کیوں کہ اس زمانے میں 18 ماہ بیٹھ کر گزار دیے تھے چناں چہ یہ عادت ہمارے جینز کی میموری میں چلی گئی اور ہم اب دن بھر بیٹھنے کی جگہ تلاش کرتے رہتے ہیں‘ ڈپریشن بھی اس زمانے کی پیداوار تھا‘ انسان کو اس سے پہلے صرف اینگزائٹی ہوتی تھی‘ یہ اینگزائٹی ان 18 ماہ میں ڈپریشن میں تبدیل ہوئی اور یہ اس کے بعد واپس نہیں گیا‘ آج بھی دنیا میں ڈپریشن کا بہترین علاج واک ہے‘ کیوں؟ کیوں کہ یہ مرض ہمارے جسم میں 536ء کی ڈارک ایج کے دوران لمبے وقفوں تک بیٹھے رہنے کی وجہ سے پیدا ہوا تھا لہٰذا آج جب ہم اٹھ کر چلنا پھرنا شروع کر دیتے ہیں تو ڈپریشن میں کمی آنے لگتی ہے۔
یہ صورت حال 570ء تک قائم رہی‘34سال تک انسانیت پر ظلمات کا دور تنا رہا لیکن پھر 570ء میں کائنات نے انگڑائی لی اور 34 برس کے تمام اثرات غبار کی طرح اڑ گئے‘ کیسے؟ اور کیوں؟ ڈاکٹر مائیکل میکارمک اور SoHP کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں‘ کاش ان کی ٹیم میں مولانا طارق جمیل یا مولانا بشیر قادری جیسا کوئی مسلمان اسکالر ہوتا تو یہ ہارورڈ یونیورسٹی کے بہترین دماغوں کی ٹیم کو بتاتا‘ یہ ہمارے رسول اللہ ﷺ کی پیدائش کا سال ہے۔
رحمت اللعالمینؐ 22 اپریل 570ء کو دنیا میں تشریف لائے تھے اور یہ وہ وقت تھا جب ’’ڈارک ایج‘‘ (دور ظلمات) کا مکمل خاتمہ ہو گیا‘ اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبیؐ کی تشریف آوری سے پہلے پوری دنیا کو اس کی اوقات دکھائی اور پھر وہ عظیم صبح طلوع فرمائی جس نے آگے چل کر انسانیت کا ہاتھ تھام لیا اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دنیا میں ہر چیز کی فراوانی ہوتی چلی گئی‘ میں بچپن سے سیرت کی کتابوں میں پڑھ رہا ہوں ہمارے رسولؐ ظلمت کدے میں نوربن کر طلوع ہوئے۔
آپؐ آئے تو باطل کے بادل چھٹ گئے اور ہدایت کا سورج طلوع ہو گیا‘ میں ان فقروں کو ہمیشہ شاعری اور نثر نگاری کا کمال سمجھتا تھا لیکن آج ڈاکٹر مائیکل میکارمک اور ہارورڈ یونیورسٹی کے اینی شیٹو فار دی سائنس آف ہیومین پاسٹ کے ادارے نے یہ نقطہ سمجھا دیا‘ تاریخ‘ سائنس اور آرٹس نے ایک مقام پر اکٹھا ہو کر ثابت کر دیا ہمارے حضورؐ نے آ کر واقعی ڈارک ایج‘ دور ظلمت اور ٹھٹھری بجھی انسانیت کو نئی زندگی دی تھی۔
آپؐ ہی وہ معجزہ تھے جن کے دم قدم سے چراغ زیست کو نئی سحر نصیب ہوئی ‘ آپؐ ہی تھے جنھوں نے دنیا میں تشریف لا کر تھکی ہاری زندگی‘ اندھیرے میں ایک دوسرے کا ہاتھ ٹٹولنے والے سایوں اور رزق‘ پانی اور ہریالی کو ترستے انسانوں کو حیات نو دی‘ آپؐ آئے تو زمین کے لوگوں کو ’’ری اسٹارٹ‘‘ نصیب ہوا‘ آپؐ آئے تو حقیقتاً اندھیرے چھٹنے لگے اور آپؐ آئے تو مرجھائی ہوئی‘ ترسی ہوئی مٹی میں امید کے بیل بوٹوں نے سر اٹھایا۔
کیا دنیا کو اس کے بعد بھی ہمارے رسولؐ کی حقانیت کے لیے کسی دلیل‘ کسی گواہی کی ضرورت ہے؟ہمارے رسولؐ کی شان میں گستاخی کرنے والوجواب دو؟۔(بشکریہ ایکسپریس)۔۔