gumnaam sahafi

گمنام صحافی۔۔

                      تحریر:مُومل منظور

بچپن میں میرا قلم کسی کی پرواہ نہیں کرتا تھا۔۔میں اپنی تقاریر خود لکھا کرتی تھی۔ان الفاظ میں کسی قسم کی مصلحت شامل نہیں ہوتی تھی۔۔کوئی ملاوٹ اس تحریر کا حصہ نہیں ہوتی تھی۔۔اس لیے جب لوگوں کے سامنے وہ تقریر کرتی تھی تو وہ ان کے دلوں کو چھوجاتی تھی۔۔وہ میری شعلہ بیانی کو سراہا کرتے تھے۔لیکن اب میرے ہی الفاظ میرا ساتھ نہیں دیتے۔۔مجھ سے تعاون نہیں کرتے۔۔مجھ سے روٹھے رہتے ہیں۔۔کیونکہ میں اب ان سے نظریں چرالیتی ہوں۔میں اب اپنے لکھے گئے لفظوں پر سمجھوتہ کرلیتی ہوں۔۔ خود ہی ان پر قدغن لگالیتی ہوں کہ کہیں ان کی تلخی میری نوکری پر اثر انداز نہ ہوجائے۔۔کہیں ان کی وجہ سے میری تنخواہ میں تاخیر نہ ہوجائے۔ اب یہ لفظ اُن کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملارہے ہوتے ہیں۔۔جن کی پالیسیز پر تنقید بھی کرنی چاہیے۔۔ان لفظوں میں اُن کے لیے پذیرائی ہوتی ہے۔۔کیوں نہ ہو آخر۔۔۔۔ترقی کی نشاندہی کرتے یہ اشتہار ہی تو تنخواہ ملنے کی ضمانت ہیں۔یہ لفظ اب اُن کی ذمے داریوں  کو کارنامے گنواتے ہیں۔ ۔۔۔جیسے محبوب اپنی محبت کو روز یہ  نہ کہے کہ تم ساحرہ ہو تب تک اس کا دن نہیں گزرتا ۔۔ایسے ہی  جب تک اُن کی  ذمے داری کو کمال نہ کہا جاۓ تو  ایک لکھاری اور صحافی کی ذمے داری پوری نہیں ہوتی۔۔ چند سالوں سے اُن کی حمایت میں اتنا لکھا جاچکا ہے کہ  اب تعریف و توصیف کے الفاظ بھی ختم ہوگئے ہیں۔ ۔۔وہ لکھاری جو سمجھتے تھے لفظ ان کے آگے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوتے ہیں۔وہ ان کے در کی باندی ہیں وہ غلط سمجھا کرتے تھے۔۔روز روز کی ڈیوٹی دیتے دیتے یہ الفاظ اکتاچکے ہیں۔کبھی کبھی یہ الفاظ بھی اختلاف کرنا چاہتے ہیں۔۔مگر اب لکھاری اپنے ہی الفاظ کے جذبات نہیں سمجھ پاتے۔ ۔انہیں اختلاف راۓ سے اب روک دیتے ہیں۔۔انہیں ان کی مرضی کے مطابق نہیں تحریر کرتے۔۔ان  پر اپنی منشامسلط کرتے ہیں۔۔۔انہیں کہتے ہیں ہمارے مطابق چلو۔انہیں کہتے ہیں اُن پر تنقید کے نشتر نہیں چلانا۔۔لفظوں کو بس ایک ہی سمت میں چلنے پر مجبور کرتے ہیں۔۔ایک ہی رُخ کی طرف موڑتے ہیں۔مثبت رخ دکھاتے ہیں۔۔منفی مخفی رکھ دیتے ہیں۔۔ اب ہر تحریر میں راوی چین ہی چین لکھ رہا ہوتا ہے۔۔کہیں مہنگائی کا رونا نہیں لکھتا۔۔کہیں یہ نہیں  لکھتا کہ تنخواہیں تاخیر سے مل رہی ہیں۔۔۔اور سونے پر سہاگہ ٹیکس کی مد میں ان میں کٹوتیاں بھی ہورہی ہیں۔مصنف اپنے لفظوں کو یہ کہتا ہے کہ یہ نہ لکھنا کہ کٹوتیاں دیکھ کر تنخواہ دار طبقے کے افراد کے دل کٹ کر رہ گئے ہیں۔۔یہ اب تنخواہ دار طبقے کی بے بسی بیان نہیں کرتے۔۔۔ یہ اب اپنے اور اپنے ساتھی صحافیوں کی تکلیف نہیں تحریر کر پاتے۔جو دو دو مہینے اپنی محنت کی اجرت کے منتظر ہوتے ہیں۔۔جب خدا خدا کرکے تنخواہ آہی جاتی ہے تو ان کے صبر کا امتحان لیتی ہے۔کئی کئی مہینے بعد ملنے والی تنخواہوں پر بھی جب قینچی چل جاتی ہےتو  صحافی ساتھی اپنے ہی شعبے سے گھبرانے لگتے ہیں۔وہ جوش و ولولے سے  اس شعبے سےمنسلک ہوۓ تھے۔۔لیکن جب  کٹوتیوں کی افتاد ٹوٹ پڑتی ہے تو کئی نہ چاہتے ہوۓ بھی اپنے پسندیدہ کام کو خیرباد کہہ دیتے ہیں۔۔اور اپنا گھر چلانے کے لیے کوئی دوسرا کام منتخب کرلیتے ہیں۔۔اتنی ریاضتوں اور اتنی محنت کے باوجود بھی معاوضہ وقت پر نہیں ملتا اور پورا میسر نہیں تو وہ تو راہ بدل ہی لیں گے نہ۔۔انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوتا کہ ان کا قلم بھی کبھی اُن کی حمایت کرۓ گا تو کبھی اُس  کی ڈھال بنے گا ۔۔کبھی اس کے اقدام کو انقلابی اقدام قرار دے گا تو کبھی اُس کی ذمے داریوں کو کارناموں کا نام دے کر ان کی مدح سرائی کرے گا۔۔ ۔۔صرف یہ سوچ کر کہ انہیں وقت پر اپنی محنت کی اجرت ملے گی اور پوری ملے گی۔۔یہ سب کرنے کے بعد بھی ادھورا معاوضہ ان کامنہ چڑاۓ گا تو کیسے ان کا قلم رواں ہوگا۔۔وہ جو سب کے مسائل دنیا کے سامنے نشر کرواتے ہیں۔۔کبھی کسی محکمے کے ملازمین کی تنخواہوں سے محرومی پر ان کا قلم سراپا احتجاج بن جاتا ہے تو کبھی کوئی ادارہ بند ہونے پر ان کا  قلم متحرک ہوجاتا ہے اور متاثرین کی داد رسی کے لیے الفاظ تحریر کرنے لگتا ہے اور اسے متعلقہ حکام تک پہنچاتا ہے۔۔مگر کیسے ایک صحافی کے الفاظ اس  وقت لاچار ہوجاتے ہیں  جب وہ اپنی صحافتی برادری کی فریاد حکام تک پہنچانا  چاہتا ہے۔۔ہم جیسے چھوٹے اور گمنام صحافیوں کی تحریر میں شاید دم خم نہیں۔۔۔نہ ہم حامد میر جتنے بڑے صحافی ہیں۔۔نہ ہمارے الفاظ میں طلعت حسین جیسی تاثیر ہے۔۔یہ بے وقعت ہیں۔۔یہ بے دام ہیں۔۔ان کی کوئی قیمت نہیں لگاتا۔۔۔یہ چھپ  جائیں اس اسے بڑی خوشی کی بات نہیں۔۔ان کے بدلے صحافیوں کے مسائل پر نظر کرم ہوجاۓ تو اس سے بڑا کوئی معاوضہ نہیں۔(مُومل منظور)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں