jamhooriat ke qayam or tasulsul mein sahafi biradari ka ehem paigham

گورنر سندھ کو ادبی چونا لگادیاگیا

تحریر: خالد فرشوری۔۔

سندھ کے گورنر ہاؤس میں، مشاعرے کے نام پر کامران ٹسوری بھائی کو ادبی چونا لگا دیا گیا؟جمعرات 16 مئی کی شب سندھ کے گورنر ہاؤس میں یوکے سے آئی ہوئی معروف شاعرہ اوربراڈکاسٹر ڈاکٹر نکہت افتخار کے اعزاز ایک مشاعرے کا اہتمام کیا گیا،اس موقع پرخود گورنر سندھ اورایم کیوایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر خالدمقبول صدیقی بنفسِ نفیس موجود رہے۔ میں شاعر نہیں ہوں مگراتنا پتہ ہے کہ ابتدا کے پانچ چھ شاعر پیٹ بھر کے بے وزن تھے،انہیں سُن کرطبیعت خراب ہونے لگی،ریحان اعظمی مرحوم کے صاحبزادے تک نے بے وزنی کی انتہا کردی،اس نوجوان سمیت دیگر سفارشی شعرا کو اتنے بڑے پلیٹ فارم پر چڑھانے سے پہلے میزبان ڈاکٹر اقبال پیرزادہ نے ان کا کلام چیک کرکے سرسری اصلاح کردی ہوتی تو انہیں بار بار حاضرین سے یہ نا کہنا پڑتا کہ “اللہ کے واسطے داد دے دیں”مشاعرے کے منتظم اور ہمارے پرانے دوست محمود احمد خان بھائی نے جھٹکے کے شاعربُلاکرگورنر ہاؤس کوادبی چونا لگا دیا،اور حلوائی کی دکان پر نانا جی کی فاتحہ کرتے ہوے ہر اُس ایرے غیرے شاعر کو بھی بھگتا دیا جسے کبھی انہوں نے ساکنانِ شہرِ قائد کے مشاعرے میں بلانے کا اہل تک نہیں سمجھا تھا،گورنر صاحب اورخالدمقبول صدیقی کی نیت پر شک نہیں،انہوں نے پورے خلوص کے ساتھ ہماری بہن اورمعروف شاعرہ نکہت افتخار کو بڑے اعزاز سے نوازا جس کے لئے نکہت افتخار قابل مبارکباد ہیں، مگرمحمود خان سے یہ سوال ضرور ہونا چاہئیے کہ انہوں نے شاعروں کا انتخاب کس میرٹ پر کیا؟ وہاں ہمارے بزم طلبہ والے معروف اور کہنہ مشق شعرا، عشرت حبیب اورڈاکٹر خالدعمران مطہرموجود تھے انہیں اسٹیج پرکیوں نہیں بُلایا گیا؟ اسٹیج کے پیچھے بیک ڈراپ پر مشاعرے کی غرض و غایت تک لگھنے کی زحمت نا کی گئی، ڈاکٹر عقیل عباس جعفری سمیت کراچی میں موجود بڑے بڑے نامی گرامی شعراء کوکیوں نظرانداز کیا گیا؟ جس کے اعزاز میں یہ شام تھی اس سے یہ پوچھنا تو درکنار کے وہ کس کس شاعر کو مدعو کرنا چاہتی ہیں،پروگرام کی تیاری کے دوران آرگنائزرز نے ان کا فون تک نہیں اٹھایا،میری اطلاعات کے مطابق نکہت کی شدید خواہش تھی کہ سینئر شاعراحمد نوید،نوجوان شاعراورنظامت کار ہدایت سائر یا مزاحیہ شاعرہ عُظمیٰ علی خان کوبلا لیا جاے مگرمحمود خان صاحب نے مبینہ طور پر انہیں بتایا کہ ان تین شاعروں کو گورنر ہاؤس میں مدعو نہیں کیا جا سکتا،اس کا جواب تو گورنر ہاؤس کی انتظامیہ کودیناہوگا کہ کیاواقعی شاعروں اور ادیبوں کے مخصوص ناموں پربھی گورنر ہاؤس میں داخلے پر پابندی ہے یا آرگنائزرز نے گورنر ہاؤس کی آڑ میں اپنی پسندونا پسندکو ملحوظ رکھا؟ نکہت افتخار کے نام پر گورنر ہاؤس سے اس مشاعرے کے لئے کتنی رقم لی گئی؟اور شعراء کرام کو کتنا کتنا معاوضہ دیا گیا؟ کراچی پریس کلب کے ممبر اور سینئر شاعر خورشید عالم کو مبینہ طور پرڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کی ایما پرعمیر علی انجم کے زریعے دو دن پہلے مدعو کیا گیااور جب وہ مشاعرہ گاہ پہنچے تو جناب منتظم نے ناصرف ان کو مشاعرہ نہیں پڑھنے دیا بلکہ اسٹیج سے نیچے اتارکرسامعین میں بیٹھنے پر مجبور کردیا،اطلاعات ہیں کہ عمیر علی انجم نے دس سے بارہ مرتبہ منتظم کو باور کروایا کہ خورشید عالم ناصرف سینئر صحافی اور معتبر شاعر ہیں بلکہ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے انہیں میرے زریعے عزت دے کر یہاں بُلایا ہے، مگر منتظم کے کان پر جوں تک نا رینگی، ان تمام سوالوں کے جوابات بھی بغیر بُرا مناے اخلاقی طور پرمحمود خان صاحب کو دینا چاہئیں،پھر سب سے اہم بات یہ کہ وہاں مشاعرے کا ماحول ہی نہیں تھا شعراء کو حاضرین سے کوسوں دور بٹھایا گیا تھا،شاعر گل دانوں اور پلرز کے پیچھے چُھپا کر بٹھاے گئے تھے جبکہ آرگنائزرزاسٹیج پر نمایاں تھے،نوّے فیصدآڈینس مشاعرے کی آڈینس ہی نہیں تھی،اگر نکہت افتخار کے انوائٹ کئے ہوے ان کی بزمِ طلبہ گروپ والے بیس پچیس شرکاء وہاں نا ہوتے تو صرف گورنر ہاؤس کے وہ مہمان بچتے جنہیں مشاعرے سے کوئی لگاؤ نہیں تھا وہ صرف ڈنراور گورنر ہاؤس میں سیلفیوں کے مزے لوٹنے آے تھے،یہ بھی نوٹ کیا گیا کہ نکہت افتخار کے زاتی مہمانوں اوربازوق حاضرین کومنتظمین نے انتہائی بدتہذیبی کے ساتھ اگلی نشستوں سے اٹھاکر دوران محفل پیچھے بیٹھنے پر مجبور کر دیا،مجھے لگتا ہے کہ خالد معین کو بھی اس لئے بُلایا گیا کہ حال ہی میں انہوں نے اپنے فیس بُک پیج پر آرگنائزرز کی شان میں ایک مبالغہ آمیز  قصیدہ پڑھا تھا،ویسے تو مشاعرے میں موجود جناب سحرانصاری،محترمہ سعدیہ حریم اورخود نکہت افتخار جیسے بڑے اورمعتبر شعرا کو سننے کی شدید خواہش تھی مگر ابتدا میں آنے والے جھٹکے سے بھرپور بے وزن شعرا نے سارا مزا کرکرا کردیا اور ہم اپنے ساتھیوں سے ازراہِ تفنن یہ بہانہ کرکے محفل سے چلے گئے کہ ہماری جیب میں دو ہزار روپے کُھلے ہیں ہم شیر شاہ سے سیکنڈ ہینڈ شاعر لینے جارہے ہیں،بس یوں گئے اور یوں آئے۔۔۔۔

اگلے روز وہاں موجود معروف گائناکالوجسٹ ڈاکٹر فیروزہ مسرور،پروفیسر رخسانہ نازعمبرین،اورمعروف براڈکاسٹر  سیدہ کوثر نے اس تقریب کے انتظامات،غیر معروف شعرا کی سفارشی بھرتیوں اورمعزز مہمانوں کوان کی نشستوں سے اٹھاکرمن پسندافراد کوصوفوں پر بٹھانے کی ہی شکایت نہیں کی بلکہ وہاں رات دیرگئے،مہمانوں کو پیش کئے گئے مبینہ ڈنر کی قلت پر بھی شدید برہمی کا اظہار کیا اوربتایا کہ ڈنر تو درکنار پانی کی بوتل تک کے لالے پڑے ہوے تھے،بڑے بڑے براڈکاسٹرز،پروفیسرز، ڈاکٹرز ، شعرا اورادیب خالی پلیٹیں اور چمچے لےکرگورنر ہاؤس میں گھومتے رہے،مقامی اسٹاف اپنے افسران کے لئے گرما گرم کھانوں کی تھالیں بھربھرکرگورنر ہاؤس کی خفیہ راہداریوں میں لے جاتا رہااوراسی سبزہ زار پرخود گورنر صاحب ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی،اوران کے وی وی آئی پی مہمان سخت سیکیوریٹی میں لذیز کھانوں اورلائیو باربی کیو سےلطف اندوز ہوتے رہے، ہمارے خیال میں گورنر صاحب اورڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کواس معاملے کی فوری تحقیقات کروانا چاہئیے،اس رات کی سی سی ٹی وی فوٹیج نکال کر دیکھنا چاہئیے کہ گورنر ہاؤس کے سبزہ زار پر مہمانوں کوبھوکا، پیاسا چھوڑکر کون سی مافیا مہمانوں کا کھانا کہاں “پارسل” کر رہی ہے؟ اور خاص طور پر مذکورہ بالا مشاعرے میں شاعروں،ادیبوں کے ساتھ ہونے والی ان بدتمیزیوں کا ازالہ اگر فوری طور پر نا بھی ہوسکے تو آئندہ ایسی کوتاہیوں کا تدارک کیسے ہوگا؟(خالد فرشوری)

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں