تحریر: امجد عثمانی، نائب صدر لاہور پریس کلب۔۔
کچھ دن ہوئے پاکستان کی فیشن انڈسٹری کی معروف ڈیزائنر ماریہ بی نے انکشاف کیا کہ پاکستان کی فیشن انڈسٹری میں موجود 80 فیصد آدمی ہم جنس پرست (ایل جی بی ٹی کیو) ہیں۔۔۔میڈیا رپورٹس کے مطابق ماریہ بی نے یہ انکشاف ایک پوڈکاسٹ کے دوران کیا۔۔۔انہوں نے بتایا کہ فیشن انڈسٹری میں شروعات سے ہی ایسے ہم جنس پرست موجود تھے لیکن جب کچھ لوگوں نے سوشل میڈیا پر آکر یہ کہنا شروع کیا کہ ہمارے مذہب اسلام میں تو سب جنسی رجحانات جائز ہیں،تب میں نے ہم جنس پرستی کے خلاف بولنا شروع کیا۔۔۔انہوں نے کہا کہ پہلے ہم جنس پرست افراد اپنے گھروں تک محدود تھے لیکن اب یہ کُھل کر سامنے آرہے ہیں۔۔ اسی وجہ سے میں نے اس معاملے پر بات کرنا ضروری سمجھا۔۔۔اُنہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں تقریباََ 27 بار قومِ لوط کا ذکر کیا ہے اور ہمارے یہاں لوگ ہم جنس پرستی کے معاملے کو چھوٹا اور غیر اہم سمجھتے ہیں۔۔ماریہ بی کے انکشاف نے روشنیوں کی چکاچوند میں بظاہر مہکتے لوگوں کی بدبودار زندگی کا بھانڈا بیچ چوراہے پھوڑ دیا ہے لیکن یہ ہمارے میڈیا کا موضوع ہے نا موم بتی مافیا کا مسئلہ۔۔۔گویا ہر طرف سانپ سونگھ گیا ہے۔۔خدانخواستہ اس طرح کا کوئی انکشاف علمائے کرام اور اساتذہ کرام کے بارے میں ہواہوتا تو “روشن خیالیوں” نے چیخ چیخ کر ادھ موئے ہوجانا تھا۔۔۔”چرب زبان” ٹی وی اینکرز نے رات سات سے گیارہ بجے تک ہاہا کار مچا دینی تھی جیسے ملک کا ایک ہی مسئلہ ہے۔۔۔کوئی”کپی دانشوروں” کو اطلاع کرے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں “غلاظت کی فیکٹری” کا بھی انکشاف ہوا ہے۔۔وہ “گونگے” کیوں ہو گئے؟؟؟کچھ تو لب کشائی کیجیے۔۔(امجدعثمانی، نائب صدر لاہور پریس کلب)۔۔