تحریر: خرم علی عمران۔۔
ویسے ہے تو یہ یعنی گڈ ول یا ساکھ بنیادی طور پر کاروباری اصطلاح لیکن ہر شعبہ ہائے زندگی میں اس کا اثر موجود ہوتا ہے لیکن اگر کاروبار کی بات کی جائے توکسی بھی سطح کے کاروبار میں جس طرح سے گڈول ، کریڈیبیلیٹی یا ساکھ کی بہت اہمیت ہوتی ہے اور زبانی کلامی ہی لاکھوں کروڑوں کے سودے صرف گڈول کی بنیاد پر ہوجایا کرتے ہیں ویسے ہی کاروبار زندگی کے سب سے اہم شعبوں میں سے ایک یعنی کاروبارَسیاست میں بھی گڈول یا ساکھ بہت اہمیت کی حامل ہے۔ جس سیاسی جماعت پر ،جس سیاسی رہنما پر، جس سیاسی سوچ اور فکر پر لوگوں کو ایک مرتبہ اعتماد اور یقین ہوجاتا ہے وہ پھر اس کی ہر بات مان لیتے ہیں اور بے شمار مثالیں اور واقعات موجود ہیں کہ اپنے سیاسی رہبر یا اپنی سیاسی جماعت جو کہ ساکھ کی حامل ہو اور لوگوں کا اس پر یقین اور اعتماد بنا ہوا ہو تو پھر لوگ اس کی خاطر جانیں تک دے دینے پر آمادہ ہوجایا کرتے ہیں اور کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کیا کرتے۔ تو مسئلہ کچھ یہ ہے کہ بڑی معذرت کے ساتھ پاکستان کا موجودہ اشرافیائی بنیادوں کا حامل سیاسی نظم و نظام اور اسکی کاروباری شراکت دار یا حاملین سیاست، براہ کرم حاملین کو حاملہ کی جمع نہ سمجھیں گو کہ لغت کے اعتبار سے ہو بھی سکتی ہے،سیاسی جماعتیں اپنی ساکھ اور اعتماد کھو چکے ہیں۔ اگر سچ کہا جائے تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ معدودے چند میں سے بھی چند کے سوا تمام سیاسی رہنما چاہے اپوزیشن میں ہوں یا حکومت میں اپنی کوئی سیاسی ساکھ نہیں رکھتے اور اپنی کریڈیبلٹی کو بری طرح برباد کر چکے ہیں اسی لئے ان کی کہی ہوئی باتوں پر،ان کے دیئے گئے بیانات پر اور انکی درد مندانہ اپیلوں پر کوئی بھی عوامی سطح پر کان دھرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا اور انکی ہر بات کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ کم و بیش یہی حال بین الاقوامی سیاسی دنیا اور کاروبار سیاست کا بھی ہے کہ یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل ہوتا ہے کہ کہاں سچ بولا جارہا ہے،کب جھوٹ بولا جارہا ہے،کہاں سچ کو گھما پھرا کر بیان کیا جارہا ہے اور کہاں سچ اور جھوٹ کو ملاکر بڑے سلیقے سے پیش کیا جارہا ہے، اور اب تو ویسے بھی میکا ولی بنیادوں پر قائم اس نیو ورلڈ آرڈر کے زمانے میں جو جتنی جھوٹ کی تینوں شکلوں یعنی جھوٹ ،سفید جھوٹ اور اعداد و شمار میں مہارت کا حامل ہوتا ہے وہ اتنا ہی قیمتی ہوا کرتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اس کرونا وائرس کی حالیہ عالمی وبا کے نتیجے میں ساری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی بظاہر حفاظتی اقدامات کئے گئے لیکن اس سلسلے میں صوبوں اور وفاق کے درمیان ہم آہنگی کا فقدان اورعجیب و غریب سی بے ربطی اور غیر سنجیدگی دیکھنے میں ائی، خاص طور پر صوبہ سندھ کی حکومت اور وفاقی حکومت کے درمیان تو غیر معمولی بیانات کا تبادلہ کچھ ایسے دیکھنے اور سننے میں آیا کہ گویا پاکستانی قوم کو کسی آفت سے بچانے کی بجائے دونوں حکومتیں گویا کوئی سیاسی جنگ لڑ رہی یا پھر بیان بازی کا میچ کھیل رہی ہیں اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ سندھ حکومت کے بارے میں جو عوامی تاثر زبان زد عام ہے اور جو حاسدوں نے افواہ سازی کی ہےاسے لکھنے کی ضرورت نہیں اور ہر خاص و عام اس سے آگاہ ہے کہ مبینہ طور پر نااہلی اور کرپشن کے جو ریکارڈز اس ہونہار حکومت نے پچھلے چند سالوں سے قائم کئے ہیں اور عوامی بربادی کے لے انتھک محنت سے جو معیار مقرر کئے ہیں ان تک پہنچنا یقینا کسی بھی مسقبل کی صوبائی حکومت کے لئے آسان نہیں ہوگا، اگر صوبے میں کسی اور کی حکومت کبھی آ پائی تو! میں ایک بار پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل ہوتا ہے کہ کسی بھی عوامی عہدے پر فائز بدعنوان زیادہ خطرناک اور نقصان دہ ہوتا ہے یا پھر نااہل زیادہ ضرر رساں ہوتا ہے، لیکن ہم کیسے خوش قسمت ٹہرے کہ ہماری صوبائی اور وفاقی حکومتوں میں دونوں کے دونوں عناصر با افراط پائے جاتے ہیں اور عوامی خدمت کے جذبے سے سرشار بھی ہیں بس عوام کا مطلب ان کی لغت میں وہ خود ہوا کرتے ہیں اور ہم کالانعام خوامخواہ میں خوش خوش پھرتے رہتے ہیں۔
چاہے لاک ڈائون کے معاملے میں وفاق اور صوبہ سندھ میں رسہ کشی اور متضاد بیانات کا معاملہ ہو یا پھر امدادی سامان ملنے نہ ملنے کے متعلق بیانات ہوں،چاہے امدادی سامان اور رقوم کی عوامی تقسیم کے معاملات ہوں یا پھر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لئے مگر مچھ کے آنسو بہا کر درد بھری اپیلیں کرنا یا اور دیگر متنازعہ معاملات، دونوں حکومتوں نے الجھن،بدحواسی اور سیاسی خانہ جنگی میں ہر قسم کے گولہ بارود کے استعمال کی نت نئی ہنرمندیوں کے خوب نظارے پیش کئے اور بے چارے عوام کالانعام ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویر بنے کراہتے رہے اور اب بھی کراہ رہے ہیں۔ سوشل میڈیا گوکہ بہت زیادہ قابل اعتبار نہیں لیکن پھر بھی اس پر نشر ہونے والی بیشتر ویڈیوز سندھ میں عمومی اور باقی سارے ملک میں خصوصی طور پر کئے گئےصحت و صفائی کے معاملات کا کچا چٹھا خوب کھول رہی ہیں۔ مزید یہ کہ عوام کو اپنی قسمت پر ناز کرنا چاہیئے کہ ایک ایک مریض پر حکومتیں فی مریض پچیس پچیس لاکھ روپے خرچ کررہی ہیں جیسا کہ شنید ہے کہ سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کیس میں این ڈی ایم اے کے نمائندے نے مسرت سے کپکپاتے ہوئے فخریہ لہجے میں اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے بیان کیا تھا، اچھایہ بات بھی زبان زد عام ہے کہ چاہے وجہ وفات کورونا کے علاوہ کوئی بھی اور مرض ہی کیوں نہ ہو اسے زبر دستی کورونا میں ڈالا جارہا ہے۔ یہ سب کیا معاملہ ہے اور کچھ نہ کچھ تو عجیب ضرور ہورہا ہے اور کچھ تو ہے جسکی پردہ داری ہے۔ پھر کورونا وائرس سے پیدا شدہ صورتحال پر عزت ماآب عدالت عظمی کے لئے گئے از خود نوٹس کی مختلف سماعتوں پر حکومتی کارکردگی خصوصا صوبہ سندھ کی حکومت کی کارکردگی کے حوالے سے دیئے گئے سرزنش کے حامل ریمارکس،کمنٹس یا تبصرے بھی قابل غورہیں۔
صاف بات یہ ہے کہ عوام کی اکثریت کا اعتماد حکومت پر کم سے کم ہوتا ہوا اب نہ ہونے کی حد تک پہنچ سا گیا ہے۔ اگر صوبہ سندھ کی بات کریں تو بلاشبہ لفاظی میں اور اپنی بے معنی اور لایعنی کارکردگی کی لیپاپوتی کرکے اسے بہترین بناکر پیش کرنے میں انکی مہارت قابل داد ہے وہ کہتے ہیں نا کہ لفاظی کرنا تو بڑا ہی آسان کام ہے اور ہمارے جہالت اور تعصب کے مارے معاشرے میں کوئی بھی ٹھوس کام کئے بغیر صرف زور بیاں سے خود کو ہیرو ثابت کرنا کیا مشکل ہے اور سندھ حکومت کے نمائندگان فی الحال صرف یہی کام بہت خوبی سے کرتے نظر آ رہے ہیں اور بڑی کامیابی سے اپنا میچ کھیل رہے ہیں ۔لوگ ڈریں ،مریں،پولیس کے بہیمانہ تشدد کا فیملی سمیت شکار بنیں، کرونا کے علاوہ دیگر امراض کا شکار ہونے والے چاہے ادھر ادھر رلتے رہیں کیا فرق پڑتا ہے بس اپنے کھاتے اور کھانچے بند نہیں ہونا چاہیئں ۔ اب ایک حکومتی ذمہ دار کے کیا فرائض ہوتے ہیں اور شرعی اعتبار سے اسے کیسے حقوق العباد کے مشکل ترین معاملے میں اللہ تعالی کے سامنے دنیا و آخرت میں جواب دہ ہونا ہے یہ وہ سب حضرات یعنی سرکاری نمائندگان ہم اور آپ سے شاید بہتر طور پر جانتے ضرور ہیں لیکن شاید مانتے نہیں ہیں، اور ہوسکتا ہے کہ یہ سب لکھنے والے کی بدگمانی ہی ہو کہ وہ جانتے ہیں۔(خرم علی عمران)۔۔