تحریر: ابصارعالم،سابق چیئرمین پیمرا۔۔
سب سے پہلے تو لیاقت بلوچ صاحب کو ان کے بیٹے کی ٹورنٹو یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی پر مبارکباد، اس میں نہ کوئی طنز ہے اور نہ کوئی طعنہ، خود باپ ہوں اس لئے ایک باپ کو اپنی اولاد کی کامیابی پر جو خوشی ہوتی ہے اس کا مجھے احساس ہے، لیکن بلوچ صاحب کے اس ٹویٹ سے اپنے خاندان کی گمراہی کے دن اور کچھ دبے ہوئے غم یاد آ گئے سوچا آپ کے سامنے آج کچھ اور اعترافات کروں، ہو سکتا ہے میرے اعتراف سے مزید لوگوں کی سمجھ میں یہ بات آ جائے کہ مذہب کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کر کے کس طرح سادہ لوح عوام کو بے وقوف بنایا جاتا ہے، اور پھر کس طرح جج، جرنیل، جرنلسٹ، ملا اور الیکٹیبل سیاستدانوں پر مشتمل اسٹیبلشمنٹ اپنی انٹلیکچوئل کرپشن (جو کہ مالی کرپشن سے کئی ہزار گنا زیادہ تباہ کن ہے ) کا کھیل جاری رکھتی ہے۔
اپریل 22 تاریخ، 1977 شہر لائلپور (فیصل آباد) ، میری ماں نے ابھی ان کے کھانے کے خالی برتن بھی نہیں سمیٹے تھے کہ میرے دو چھ چھ فٹ کے نوجوان بھائیوں کی لاشیں گھر پہنچ گئیں۔
انتخابی دھاندلی کے خلاف پاکستان قومی اتحاد نے پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف احتجاج شروع کیا جس کا نام یکایک ”تحریک نظام مصطفے“ پڑ گیا، سیاسی احتجاج پر مذہبی رنگ کیسے چڑھا؟ اس وقت تو سمجھ نہیں آئی بعد میں سب پتہ چل گیا۔
میرے والد (اور میری والدہ بھی) اپنے خاندان کے زندہ بچ جانے والے ان چند افراد میں سے تھے جو 1947 میں ایک نظریے کی خاطر باری دو آب (بیاس اور راوی کا درمیانی علاقہ) میں ہزار سال کا رین بسیرا چھوڑ کر چند میل دور خون کا دریائے راوی پار کر کے پاک سر زمین پر پہنچنے کے لئے آدھا خاندان کٹوا چکے تھے، اس لئے خواب بھی زیادہ دیکھتے تھے۔
میرے والد مذہبی سیاسی جماعتوں کی طرف، اور بھائی آج کل کے انصافی نوجوانوں کی طرح اصغر خان کی طرف مائل تھے، دونوں قسم کی جماعتیں اس ”تحریک“ کا حصہ تھیں۔ اس دن قومی اتحاد نے ملک بھر میں پہیہ جام ہڑتال کا اعلان کیا جس سے ہنگامہ آرائی ہوئی اور میرے بھائیوں کی جان گئی۔
کچھ ہی ہفتوں بعد جب محلے کی مسجد کا مولوی اپنے جمعہ کے خطبہ میں لاؤڈ سپیکر کے ذریعے، گھر بیٹھی میری ماں کو یقین دلوا رہا تھا کہ اس کے شہید بچوں کے خون سے اب پاکستان میں اسلامی نظام آئے گا تو اسلامی نظام تو نہ آیا لیکن جنرل ضیا الحق اپنے مارشل لاء سمیت آ گئے، ”تحریک“ چلانے والی سیاسی جماعتیں اس مارشل لاء کا حصہ بن کر سکون سے راج نیتی کرنے لگیں اور میرے والدین ”نظام مصطفے“ کا اسی طرح انتظار کرتے رہے جیسے آج تحریک انصاف والے ریاست مدینہ ”کا اور تحریک لبیک والے“ ناموس رسالت ”کا کر رہے ہیں۔
بارہ سال کی عمر میں نہ مجھے اسٹبلشمنٹ کی سمجھ تھی اور نہ ہی اس کے مقاصد کی، جو سوال میرے ذہن میں چپک گیا وہ یہ تھا کہ جب سب لوگ میری ماں کو سمجھاتے ہیں کہ اس کے بیٹے شہید ہیں اور اسے رونا نہیں چاہیے تو وہ اپنا پیٹ پکڑ کر روتے روتے دہری کیوں ہو جاتی ہے۔
کئی سالوں کے بعد وقت نے سمجھا دیا کہ ماں کی ایک کوکھ ہوتی ہے اور کوکھ کے دکھ کا پتہ صرف ماں کو ہوتا ہے اسٹیبلشمنٹ یا اس کے مہروں کو نہیں جو معصوم عوام کو سڑکوں پر لا کر اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کے لئے مروا دیتی ہے، جیسا کہ 12 مئی کو کراچی میں ہوا، ماڈل ٹاؤن لاہور میں ہوا، ڈی چوک اسلام آباد میں ہوا، پچھلے دنوں نیازی چوک لاہور میں ہوا۔
مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ ہماری گمراہی میں سب سے زیادہ بد دیانت دانشوروں میں اس دور کے کچھ صحافی، کالم نویس، جج، ملا اور سیاستدان تھے جو اس سارے کھیل میں چند جرنیلوں کے اشاروں پر چلے اور انہوں نے سیاسی فضا کو اتنا گندا کر دیا کہ دہائیوں سے غم اور خوشی میں شریک ہمسائے بھی ایک دوسرے کے دشمن بن گئے
سویلین لیڈرز کی تضحیک کے لئے کس کس طرح کا غلیظ پروپیگنڈا کروایا جاتا تھا آپ جان کر حیران رہ جائیں گے کہ قومی اتحاد والوں نے پیپلز پارٹی والوں کا سوشل بائی کاٹ یعنی لین دین، کھانا پینا، ملنا جلنا اس بے بنیاد الزام پر ختم کر دیا کہ بھٹو صاحب کے ختنے نہیں ہوئے تھے۔
وقت آگے بڑھا اور 1989 میں بینظیر بھٹو حکومت آتے ہی کشمیر میں اچانک جہاد شروع ہو گیا اور اسٹیبلشمنٹ کے وہی پانچ فکری بد دیانت (انٹلیکچوئلی کرپٹ) عناصر دوبارہ اسی کام پر لگ گئے، میرا تیسرا بھائی جو مجھ سے ساڑھے تین سال بڑا تھا انہی انٹلیکچوئلی کرپٹ لوگوں کے پروپیگنڈا کے زیر اثر پہلے افغانستان اور وہاں سے سیدھا کشمیر جہاد پر روانہ ہو گیا، میں اس وقت اسلام آباد پڑھائی کے لئے آ چکا تھا عمر 22 سال تھی لیکن ملک کے ہر حصے سے آئے ہاسٹل اور کالج کے دوستوں سے نہ ختم ہونے والی سیاسی بحثوں نے ذہن کو تھوڑا کھول دیا تھا۔ بہت مشکلات اور کچھ اچھے لوگوں کی مدد سے میں نے اپنے بھائی کو جو اس وقت تک زخمی ہو چکا تھا، واپس لا کر فیصل آباد چھوڑا اور وعدہ لیا کہ اب وہ واپس ”جہاد“ پر نہیں جائے گا۔
ہماری ذہنی گمراہی کے ذمہ دار صحافیوں میں سے کچھ کی وفات ہو چکی ہے، اللہ مغفرت فرمائے، اور کچھ ابھی زندہ ہیں، آج بھی وہ انٹلیکچوئلی کرپٹ ٹولہ اور ان کے رشتہ دار پاکستان کی نئی نسل کو گمراہی کے راستے پر لگا کر خود آرام اور فارم (ہاؤس) کی زندگی گزار رہے ہیں، فرق صرف یہ ہے کہ اس وقت صرف لاؤڈ سپیکر اور اخبارات و جرائد تھے اور آج وہ ٹی وی چینلز اور ڈیجیٹل میڈیا کو بھی استعمال کر رہے ہیں۔
آپ نوٹ کریں کہ 1977 کے بعد پاکستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے سبق سیکھا اور اپنا طرز سیاست بہتر کیا۔
آپ محترمہ بینظیر بھٹو کی سیاسی زندگی کا جائزہ لے لیں، جب وہ 1986 میں لاہور اتریں اور وہ چاہتیں تو لاہور میں لاکھوں لوگوں کا دھرنا دے کر جو چاہتی منوا لیتیں لیکن بینظیر کو بھی ماں کی کوکھ کے دکھ کا پتہ تھا، انہوں نے تصادم کی بجائے پر امن جمہوری راستہ اپنایا۔
نواز شریف کی مثال لے لیں، اپنے سیاسی اصولوں پر کھڑا رہنے کے دوران اگر اسٹیبلشمنٹ یا سیاسی مخالفین سے تصادم کا خدشہ ہوا تو انہوں نے شدید تنقید کے باوجود ایک قدم پیچھے ہٹا لیا۔
جب وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف بینظیر بھٹو نے 1993 میں لانگ مارچ کا اعلان کیا تو نواز شریف نے بینظیر کا مطالبہ مانا، نئے انتخابات کا اعلان کر دیا اور تصادم کو ٹال دیا۔
بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد 2007 میں آصف علی زرداری نے قومی مفاد کی خاطر ایک ایسے ناگزیر تصادم کو ٹال دیا جس کے نتائج ملک کی وحدت کے لئے انتہائی نقصان دہ ثابت ہو سکتے تھے۔
اسی طرح عدلیہ بحالی تحریک 2009 میں نواز شریف گوجرانوالہ پہنچے تو صدر آصف علی زرداری نے ایک قدم پیچھے ہٹتے ہوئے تصادم کو ٹالا، ان کے مطالبات مانے اور ججوں کو بحال کر دیا، نواز شریف نے بھی اپنے چند مصاحبین کی مخالفت کے باوجود لانگ مارچ کو گوجرانوالہ میں ہی ختم کر دیا اور اسلام آباد نہیں آئے۔
اپنی تیسری وزارت عظمی میں نواز شریف نے اسٹیبلشمنٹ سے تصادم کو ٹالنے کے لئے اپنے وفادار وزراء تک کو کابینہ سے سبکدوش کر دیا، کسی جج یا جرنیل کے خلاف مضبوط ثبوتوں کے باوجود کوئی کارروائی نہیں کی لیکن دیوتا بھینٹ لینے کے بعد بھی راضی نہ ہوئے۔
جس طرح ذوالفقار علی بھٹو نے پھانسی کا پھندا چوم کر اپنی سیاسی غلطیوں کا کفارہ ادا کر دیا، اسی طرح نواز شریف نے ”ووٹ کو عزت دو“ کا نعرہ لگا کر اور اپنے، پارٹی اور خاندان کے دوسرے لوگوں پر آنے والی مصیبتوں کو حوصلے سے برداشت کر کے پاکستان کے عوام کو نہ ختم ہونے والا شعور دے دیا ہے جو نواز شریف کی ماضی کی سیاسی غلطیوں کا کفارہ ہے۔
غدار“ اسفندیار ولی، محمود خان اچکزئی اور اختر مینگل کو دیکھ لیں، ہر قسم کا تشدد اور ظلم برداشت کیا، لیکن متشدد سیاست سے پرہیز کیا۔ محمود خان اچکزئی کے والد کو بم دھماکے میں مار دیا گیا۔ 1998 کی بات ہے، خواجہ آصف کے گھر میں پنجاب کے سیاست میں کردار پر گفتگو ہو رہی تھی، حامد میر بھی موجود تھے، تو اسفندیار ولی نے اپنے دونوں ہاتھ اور پاؤں میرے سامنے رکھ کر کہا ”ابصار سنو، میری عمر اٹھارہ سال تھی جب میرے ان ہاتھوں اور پاؤں کے ایک ایک ناخن کو پلاس سے اکھاڑا گیا تا کہ میں اعتراف کروں کہ میں“ غدار ”ہوں۔ لیکن اس سب کے باوجود ہم آج بھی آئین پاکستان سے وفاداری کا حلف اٹھاتے ہیں اور بات چیت کے ذریعے آئینی حقوق مانگتے ہیں“ ۔ میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
اس دور میں شعور کی منزلیں طے کرنے والے سیاستدانوں میں ایک اور دلچسپ مثال مولانا فضل الرحمان کی ہے، ان پر کتنے سالوں سے ”مذہبی انتہا پسندی“ کا غیر حقیقی الزام لگایا جاتا ہے۔ لیکن اسلام آباد کے تمام سینئر صحافی جانتے ہیں کہ وہ اور ان کی جماعت کے لیڈران عام تاثر کے برعکس جمہوری ذہن، متوازن رائے رکھنے والے کھلے ڈلے انسان ہیں، ابھی پچھلے سال جب وہ دھرنا دینے اسلام آباد آئے تو کچھ دنوں بعد ایک قدم پیچھے ہٹاتے ہوئے واپس چلے گئے، تنقید برداشت کی لیکن تصادم کی راہ نہیں اپنائی تا کہ نظام بالکل ہی دھڑام سے گر نہ جائے۔
ماضی کے سبق کی وجہ سے بڑی سیاسی جماعتیں اب حالات کو ”نو ریٹرن“ تک پہنچنے سے پہلے ہی ٹھنڈا کر لیتی ہیں چاہے انہیں اس پر گالیاں پڑیں، بزدلی اور ڈیل کے طعنے ملیں، یا کرپشن کے الزامات سہنے پڑیں وہ لوگوں کو سڑکوں پر مروانے کے قائل نہیں رہے، لیکن اگر حالات نہ بدلے تو عوامی شعور کی اس چڑھتی لہر کے سامنے یہ میچور سیاسی لیڈر کب تک ”ڈیل“ کے غبارے رکھ کر کام چلائیں گے؟
پنجاب میں آئینی بالادستی اور سیاسی شعور کے مستحکم ہونے میں پیپلز پارٹی کے ساتھ ایک بڑا فیکٹر ”کاروباری“ نواز شریف کی سیاست میں آمد تھی، نواز شریف اور پنجاب کا سیاسی شعور ایک ساتھ پروان چڑھا اور مرحوم ولی خان کی بات سچ ثابت ہوئی کہ اسٹبلشمنٹ سے آخری لڑائی پنجاب میں ہو گی۔
نا انصافی ہو گی اگر اس دور کے ان کالم نویس صحافیوں کا ذکر نا کیا جائے جن کی سیاسی رائے پیپلز پارٹی کی سوچ کے قریب تھی اور وہ مسلم لیگ کے ناقد تھے، لیکن جتنی شدت سے انہوں نے آئین اور جمہوریت کے حق میں کام کیا، اتنی تیزی سے نواز شریف اور پنجاب کا سیاسی شعور بڑھا۔ جن کی تحریروں کو مسلسل پڑھنے سے میرے جیسے کروڑوں پنجابیوں کا سیاسی شعور بہتر ہوا ان میں آئی اے رحمان، عاصمہ جہانگیر، حامد میر، نصرت جاوید، سلامت علی، عائشہ ہارون، وی اے جعفری، ضیاء الدین، کامران شفیع، فرحت اللہ بابر، ظفر عباس، نجم سیٹھی، عامر میر، افتخار احمد، وجاہت مسعود، اور بینا سرور کے نام شامل ہیں۔
اختلاف رائے کے باوجود، ایمانداری کا تقاضا ہے کہ یہاں پر عامر متین اور محمد مالک کا ذکر کیا جائے۔ آج کل ان کے جو بھی خیالات ہوں 90 کی دہائی میں جب میں نے ”دی مسلم“ سے صحافت کا آغاز کیا تو یہ دونوں سینئر حضرات ”پریس گیلری“ کے نام سے فکر انگیز کالمز لکھا کرتے تھے۔
آپ نوٹ کریں کہ سوائے حامد میر، افتخار احمد اور وجاہت مسعود کے تمام لوگ انگریزی اخبارات کے لئے لکھتے تھے۔ ایسا کیوں تھا اس پر کبھی بعد میں لکھوں گا لیکن انگریزی اخبارات اور ٹی وی چینلز جن میں لکھنے بولنے کی آزادی تھوڑی زیادہ تھی اس ملک سے آہستہ آہستہ ختم کر دیے گئے ہیں اور اب ساری ”صحافت“ اردو میں ہو رہی ہے جہاں لکھنے، بولنے والوں کو دبانا آسان بھی ہے اور زیادہ ضروری بھی تا کہ سچ عام آدمی تک اس کی زبان میں نہ پہنچ سکے، انگریزی میں لکھنے والوں کی آواز کم لوگوں تک پہنچتی ہے اور ان پر ”غیر ملکی ایجنٹ“ کا الزام بہت سہولت کے ساتھ لگایا جا سکتا ہے۔ اردو لکھنے والوں میں جو نہیں دبتے ان سب کے حالات آپ کے سامنے ہیں۔
جب پاکستانی اور خاص طور پر پنجابی عوام شعور کی یہ منزلیں طے کر رہے تھے تو اس وقت بھی ججوں، جرنیلوں، میڈیا، ملاؤں، اور چھوٹے سیاستدانوں کے اندر موجود چند گروہ اپنے ذاتی مفادات کو
ذاتی مفادات کو اجتماعی مفاد پر ترجیح دیتے ہوئے پرانی ڈگر پر چلتے رہے۔
مشرقی پاکستان کھونے کے باوجود کچھ اداروں میں ایک گروہ ایسا ضرور ہوتا ہے جو انگریز سرکار کی مقامی افراد کو غلام بنائے رکھنے والی پالیسیوں کی ڈیڑھ سو سالہ پرانی فائلیں جھاڑ کر نکالتے ہیں اور مالی کرپشن کو ختم کرنے کے نام پر انٹلیکچوئل کرپشن کے ذریعے نفرت کو دوبارہ ہوا دیتے ہیں تا کہ اس فسادی کڑاہی میں وہ اپنا آئین شکنی کا لچ تلتے رہیں۔
اسی لئے جب سکہ بند جماعتوں نے ماضی کی غلطیوں سے سیکھتے ہوئے پرامن سیاست کا راستہ اپنا لیا تو کاریگروں نے پہلے ایم کیو ایم کو کراچی میں کھڑا کیا، پھر تحریک انصاف اور تحریک لبیک کو، (طاہر القادری خود ہی فرار ہو گئے ورنہ آج تک استعمال ہو رہے ہوتے ) ، آپ ان جماعتوں کا طرز سیاست دیکھ لیں یہ ہمیشہ سے ایجی ٹیشن اور تصادم کی سیاست کر رہی ہیں کیونکہ اس سے ہر سیاسی حکومت دباؤ میں رہتی ہے اور اسٹبلشمنٹ کو اپنا الو سیدھا کرنے میں آسانی ہوتی ہے چاہے پاکستان کا جتنا بھی نقصان ہو جائے۔ کیا ہی مکافات عمل ہے کہ ایک ہی کنویں سے پانی پینے والی حکومتی تحریک انصاف آج اپوزیشن والی تحریک لبیک کے سامنے بے بس ہے۔
میں عمران خان پر زیادہ تنقید اس لئے بھی نہیں کرتا کہ مجھے احساس ہے کہ ان کا سیاسی شعور اور آگہی آج اس سطح پر ہے جس پر ہماری 44 سال پہلے تھی، ہم بھی تب ایسے ہی سوچتے تھے، لیکن وقت اور ٹریجیڈیز نے سکھا دیا۔ امید ہے خان صاحب بھی سیکھ جائیں گے۔ اور اللہ کرے ان کو ہماری طرح کوئی دکھ بھی نہ دیکھنا پڑے۔
لیکن سوال تو پیدا ہوتا ہے کہ جب اسٹبلشمنٹ کا پسندیدہ شاہ محمود قریشی اور عمرانی کابینہ کا وزیر خارجہ کہتا ہے کہ آرٹیکل 370 ختم کر کے کشمیر کو ہڑپ کرنے کا بھارتی اعلان اس کا اندرونی معاملہ ہے، اور جب اقوم متحدہ میں سرینگر پر انڈین قبضے کی بجائے ڈی ایچ اے اور بحریہ ٹاؤن کی زمینوں پر قبضوں کی داستانیں گونجتی ہیں تو کیا کسی کو پاکستانی ماؤں کی کوکھ اجاڑنے پر شرم آئی؟
جب ہم انڈیا اور اسرائیل سے بھی دوستی کے راستے پر چل پڑے ہیں تو کیا یہ ہماری بد ترین قومی ناکامی نہیں کہ اتنی بڑی فوج، رنگ برنگے میزائل، جدید ترین ہتھیار جن کا ہمیں پتہ بھی نہیں چلے گا، بکتر بند گاڑیاں اور لڑاکا طیارے صرف ملک کے اندر لڑنے کے لئے ہی استعمال ہو رہے ہیں؟ اگر یہی کہنا اور کرنا تھا تو پھر ہمارے بچے کیوں مروائے گئے؟ وہ کون سے قومی مقاصد ہیں جن کے لئے نوجوانوں کو گمراہ کر کے لڑنے کے لئے ادھر ادھر بھیج دیا جاتا ہے؟ نہ صرف سویلین بچے بلکہ فوج اور پولیس کے نوجوان کئی سالوں سے اپنی جانوں کا نذرانہ کس خفیہ مشن کے لئے قربان کیے جا رہے ہیں؟ کیا کسی کو احساس ہے کہ ان فوجیوں کی ماؤں کی کوکھ کا درد بھی ویسا ہی ہے جیسا سویلین ماؤں کا؟
اسٹیبلشمنٹ اور اس کے چند حواریوں کے بچے ٹھنڈے ملکوں کی گرم یونیورسٹیوں میں اعلی تعلیم حاصل کر کے واپس آتے ہیں تو پاکستانیوں کی اگلی نسل کو گمراہ کرنا شروع کر دیتے ہیں یا پھر امریکہ، یورپ میں سیٹل ہو کر وہاں اربوں روپوں کا پیزا بزنس شروع کر دیتے ہیں؟
یہ نا انصافی، ظلم اور منافقت کا نظام کب تک چلے گا؟ یہ قوم کب تک ”اپنوں“ سے آزادی کے لئے اپنے خون سے خراج ادا کرے گی؟ برطانوی راج سے چھٹکارا حاصل کرنے کے بعد اس کی براؤن باقیات سے چھٹکارا کب ملے گا؟ دشمنوں سے خفیہ مذاکرات اور اپنوں پر کھلا ظلم کب تک چلتا رہے گا؟ سب اپنے آئینی کردار میں واپس کب جائیں گے؟ اپنوں سے جنگ کب بند ہو گی؟ ہمیں غدار کہنا کب بند کرو گے؟ اگر ہم غدار ہیں تو پھر محب وطن کون ہے؟
محبت گولیوں سے بو رہے ہو
یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو
رستہ صرف آپ کے عہد ملازمت کا کٹتا ہے قوم کی ترقی کا نہیں اور نا ہی کٹے گا، سادہ لوح عوام کا شعور اس منزل تک پہنچ گیا جہاں وہ گمراہی کے اندھیروں سے نکل کر اپنے حقوق، انصاف، عزت اور ترقی کے لئے گولی کھانے پر تیار ہیں لیکن اپنی آزادی اور شعور پر سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ بہتر ہے کہ میچور سیاسی جماعتوں کی طرح اسٹبلشمنٹ بھی اپنی عوام کے ساتھ پر تشدد تصادم کے شوق کو لگام ڈالے اور حالات کو وہاں تک نہ لے کر جائے جہاں کسی کے لئے بھی واپسی ممکن نہ ہو۔
اسٹیبلشمنٹ کے یہ پانچ عناصر اپنی اس انٹلیکچوئل کرپشن پر سوچیں!
ان چھٹیوں میں جب سوچ سوچ کر تھک جائیں تو پھر سوچیں کہ اس خود ساختہ فساد میں آپ نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ اپنے بچوں کی طرف دیکھ کر سوچیں کہ عام پاکستانی بھی اپنے بچوں سے اتنا ہی پیار کرتا ہے جتنا آپ، عام پاکستانی مائیں بھی اپنے بچوں کو گمراہی سے نکال کر پردیس اعلی تعلیم کے لئے بھیجنا چاہتی ہیں نہ کہ کسی ان دیکھی جنگ کا ایندھن بننے۔ کتنی پاکستانی ماؤں کی کوکھ اجڑے گی تو ارباب اختیار کو سمجھ آئے گی؟
گرمیوں کی تپتی دوپہر کو تندور کی روٹی آم کی چٹنی کے ساتھ کھا کر اور چاٹی کی ٹھنڈی لسی پی کر نیم کے درخت کے نیچے خراٹے مارنے والا پاکستانی، اور خاص طور پر پنجابی، اب جاگ چکا ہے کیونکہ نہ آم کے پیڑ رہے، نہ تندور اور نہ ہی چاٹی کی لسی۔ اب پاکستانی بھی ڈی ایچ اے اور بحریہ والی زندگی نہ سہی اس کے قریب قریب ضرور چاہتا ہے، اسے بھی اپنے بچوں کو پڑھانا ہے اور بزنس کروانا ہے۔
میرا یہ ”گمراہی سے گولی تک“ کا سفر پڑھ کر تب تک سوچیں جب تک کہ آپ کا ضمیر جاگ نہیں جاتا۔۔(ابصارعالم، سابق چیئرمین پیمرا)۔۔