aik tabah saath | Imran Junior

’’گولی‘‘ کھائیں

تحریر : علی عمران جونیئر

دوستو،بہت ہی پرانا اور گھسا پٹا لطیفہ ہے کہ کسی نے اداکارہ میرا سے پوچھا کہ ۔۔صدر میں گولیاں چل رہی ہیں۔۔ اس کو انگریزی میں ترجمہ کردیں۔اداکارہ میرا نے کہا۔۔ دا ٹیبلٹ واکنگ ان دا پریزیڈنٹ۔ اداکارہ میرا اپنی ’’گلابی‘‘ انگریزی کی وجہ سے خاص شہرت رکھتی ہیں اور اس حوالے سے ان کی کئی وڈیوز بھی سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔۔ گولی تین قسم کی ہوتی ہیں۔۔ ایک تو اسلحہ میں استعمال ہونے والی، دوسری بیماری میں استعمال کی جاتی ہے جب کہ تیسری گولی بدنام زمانہ ہے۔۔ہمارے یہاں کراچی میں جب کوئی کسی سے وعدہ کرتا ہے اور اسے پورا نہیں کرتایا کسی کو دھوکا دیتا ہے تو اس کے لئے کہاجاتا ہے کہ اس نے ’’گولی‘‘ دے دی۔ آج جب گولی کے حوالے سے بات چل نکلی ہے تو آج آپ کو گولی کا ایک اور زبردست فائدہ بتاتے ہیں۔۔تو چلئے شروع کرتے ہیں آج کی اوٹ پٹانگ باتیں۔۔ تازہ تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ دنیا بھر میں درد سے چھٹکارا پانے کیلیے سب سے زیادہ استعمال ہونے والی دوا ’’پیراسیٹامول‘‘ کھانے والوں کی سوچ تبدیل ہوجاتی ہے اور ان میں خطرے کا احساس بھی کم رہ جاتا ہے۔امریکا کی اوہایو اسٹیٹ یونیورسٹی میں 500 طالب علموں پر کیے گئے اس تجربے میں نصف طالب علموں کو 1000 ملی گرام پیراسیٹامول دی گئی جبکہ باقی نصف کو پیراسیٹامول کے نام پر اسی مقدار میں کوئی اور بے ضرر سی دوا کھلائی گئی۔تھوڑی دیر بعد ان تمام رضاکار طالب علموں سے ایک کمپیوٹر گیم کھیلنے کو کہا گیا جس میں (کمپیوٹر پر) زیادہ سے زیادہ غباروں میں اس طرح ہوا بھرنا تھی کہ وہ پھول بھی جائیں لیکن پھٹنے نہ پائیں۔ اس سے اگلے مرحلے میں ان تمام افراد کے سامنے ایک سوالنامہ رکھا گیا جس میں مختلف فرضی منظر نامے پیش کرنے کے بعد ان سے پوچھا گیا تھا کہ ایسے حالات میں وہ کیا کریں گے۔اصلی پیراسیٹامول کھانے والے اکثر طالب علموں نے کمپیوٹر پر گیم کھیلتے دوران زیادہ غبارے پھاڑ دیئے جبکہ وہ طالب علم جنہوں نے پیراسیٹامول نہیں لی تھی، انہوں نے محتاط رہتے ہوئے غبارے پھلائے اور یوں ان کے غبارے بھی کم پھٹے۔اسی طرح سوالنامہ پر کرتے دوران پیراسیٹامول کھانے والے طالب علموں نے خطرات سے بھرپور آپشنز منتخب کیے جبکہ دوسرے گروپ والے طالب علموں نے احتیاط پر مشتمل آپشنز کا انتخاب کیا۔اس مطالعے کے نتائج سے معلوم ہوا کہ پیراسیٹامول کھانے والے طالب علموں میں خوف کا احساس، دوسرے طالب علموں سے بہت کم رہ گیا تھا جس کے باعث انہیں کسی کام سے وابستہ ممکنہ خطرے کا ادراک بھی نہیں ہو پایا۔واضح رہے کہ حالیہ چند برسوں کے دوران پیراسیٹامول پر ہونے والی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ درد ختم کرنے والی یہ عام سی دوا لوگوں میں جذباتی باتوں کو محسوس کرنے کی صلاحیت کم کردیتی ہے، انہیں زیادہ بے رحم بناتی ہے اور ان میں نت نئی چیزیں سیکھنے کی قابلیت (اکتسابی صلاحیت) بھی کم کردیتی ہے۔ریسرچ جرنل ’’سوشل کوگنیٹیو اینڈ ایفیکٹیو نیوروسائنس‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والی یہ تحقیق بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ہمارے ایک دوست اپنے بیٹے کو ایم بی اے میں داخلے کیلئے ایک پرائیویٹ یونیورسٹی لے گئے۔۔ فارم داخلہ بھرتے ہوئے اس نے چوکیدار سے پوچھا کہ بھائی! یہ یونیورسٹی کیسی ہے؟ چوکیدار نے محبت بھری نگاہوں سے دیکھا اور جواب دیا کہ بہت اعلیٰ درجے کی یونیورسٹی ہے۔ میں نے بھی یہیں سے ایم بی اے کیا تھا۔ یہ اپنی اپنی قسمت ہے کچھ حضرات ایم بی اے کرکے بھی مجبوری کے تحت چوکیدار لگ جاتے ہیں جبکہ کچھ جعلی ڈگریاں لے کر پارلیمنٹ کے اراکین بن جاتے ہیں اور پوری قوم کے لئے قانون سازی کرتے ہیں۔ قانون سازی نہ بھی کرسکیں تو اپنی لشکارے مارتی پجارو یا پراڈو کے سامنے ایم پی اے، ایم این اے یا سینیٹر کی پلیٹ سجا کر سڑک پہ یوں نکلتے ہیں جیسے سکندر اعظم آرہا ہو۔ ۔آپ کو شاید ہماری بات سمجھ نہیں آئی بالکل اسی طرح جیسے۔۔گرمی سے نڈھال ایک عورت گھر میں داخل ہوئی اور اپنی بیٹی سے بولی۔۔ ذرا جلدی سے پانی پلاؤ میں مری جارہی ہوں۔۔بیٹی تیزی سے گلاس میں پانی لائی اور ماں کو دیتے ہوئے کہنے لگی۔۔یہ لیں امی پانی، میں بھی آپ کے ساتھ’’ مری‘‘ جاؤں گی۔۔گرامر کی ٹیچر نے جب پوری کلاس کے سامنے سوال رکھا۔۔تم ناچ رہے ہو، ہم ناچ رہے ہیں، سب ناچ رہے ہیں، بتاؤ بچوں یہ کون سا زمانہ ہے۔۔پپو نے ہاتھ کھڑا کیا اور کھڑے ہوکر برجستہ کہنے لگا۔۔ بے غیرتی کا۔۔ایک صاحب نے اپنا پٹرول پمپ بنوالیا لیکن جب بھی اپنی کار میں پٹرول ڈلوانا ہوتا تو کسی اور کے پٹرول پمپ پر جاکے پٹرول بھرواتا، کسی نے پوچھا، شیخ صاحب آپ اپنے پمپ سے کیوں نہیں ڈلواتے؟؟ تو شیخ صاحب بڑی سادگی سے بولے۔۔یار اوہ تیل پورا نہیں پاندے۔۔۔ایک آدمی کا گدھا مسجد میں داخل ھوا تو لوگ گدھے کے مالک کو برا بھلا کہنے لگے۔۔تو مالک نے کہا کہ۔۔ گدھاہے نا سمجھ ہے اس لئے مسجد میں آگیا،ورنہ میں کیو ں مسجد میں نہیں آتا؟؟ لگتا ہے، آپ کو سمجھ نہیں آرہی۔۔ وہ دونوں سبز لان میں پیار ومحبت کی پینگیں بڑھا رہے تھے۔ کہ اس دوران کسی کے قدموں کی آہٹ سنائی دی۔ لڑکے نے گھبراتے ہوئے کہا۔ شاید تمہاری امی آ رہی ہے۔۔۔لڑکی نے جواب دیا۔ لیکن گھبرانے کی کیا ضرورت ہے۔۔۔لڑکا بولا۔۔ انھوں نے دیکھ لیا تو۔۔۔۔لڑکی نے جواب دیا ۔۔ اطمینان سے بیٹھے رہو۔ کیونکہ تم انہیں نظر نہیں آوْ گے۔ لڑکا حیرانی سے بولا۔۔مگر کیسے ممکن ہے؟ میں نے کیا سلیمانی ٹوپی پہن رکھی ہے۔۔۔لڑکی مسکراتے ہوئی بولی۔ نہیں! آج میں نے ان کے چشمے کا نمبر بدل دیا ہے۔۔یعنی آپ کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ لڑکی نے کس طرح اپنی ماں کو ’’ گولی ‘‘ دی۔۔ ایک لڑکی نے دکاندار سے پوچھا۔۔یہ سوٹ کتنے کا ہے؟؟ دکاندار ذرا عاشق مزاج تھا، کہنے لگا۔۔ ارے آپ کے لئے کیا قیمت ہو گی اس کی بس اپنا واٹس ایپ نمبر دے دیں۔۔لڑکی نے نمبر دیتے ہوئے ایک اور سوٹ لے لیا۔۔ دکاندار نے حیرت سے پوچھا۔۔ارے یہ دوسرا سوٹ کس لیے؟؟ لڑکی نے برجستہ کہا۔۔ کمینے واٹس ایپ پر جواب نہیں چاہیئے کیا؟؟اسے بھی ’’گولی‘‘ کی ایک قسم سمجھ لیجئے۔۔ اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔اپنی زندگی کا بیشک بیڑہ غرق ہوا ہولیکن دوستوں کے مسائل سن کر ماہر نفسیات بننا پڑتا ہے۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں