تحریر: ناصر جمال۔۔
مجھے، ایسی ریاست، ہمیشہ سے دیکھنے کا شوق تھا۔ جو ’’ماں‘‘ کہلائے جانے کی مستحق ہو۔ اس کا پہلا تجربہ ، متحدہ عرب امارات کو دیکھ کر ہوا۔ بقول خلیل اعوان کے، وہ لوگ خوش قسمت ہیں، جو عرب امارات میں بطور شہری پیدا ہوئے ہیں۔
گلوبل میڈیا کانفرنس کا انعقاد 14 تا 16 نومبر ابوظہبی میں کیا گیا تھا۔ قلم کار 13 نومبر کی رات ابوظہبی کے نئے انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر اترا۔ پی۔ آئی۔ اے کی اسلام آباد سے فلائیٹ تھی۔ جہاز کی ’’ویرانی، روایتی میزبانی‘‘ قلم کار کے دُکھ میں اور اضافے کا سبب تھی۔ جس ایئر لائن کا 4-2003 میں ریونیو، ایک ارب ڈالر تھا۔ یونہی تو 350 ملین ڈالر پر نہیں آپہنچی۔
خیر، اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔ جب جہاز، دبئی اور جمیرا بیچ کے درمیان سے گزرتا ہوا، ابوظہبی لینڈ ہوا تو، حیران کن انفراسٹرکچر آنکھوں کے سامنے تھا۔ ابوظہبی کا نیا ایئرپورٹ، آرکیٹیکٹ کا حقیقی شاہکار تھا۔ امیگریشن کا عمل چندمنٹوں میں انتہائی سہولت سے پر سکون انداز میں مکمل ہوگیا۔ پروفیشنل اہلکار، سب کی رہنمائی، دھیمے اور اچھے انداز میں کررہے تھے۔ ماحول میں ایک نظم وضبط تھا۔ کہیں تلخی اور اجنبیت نہ تھی۔ یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ یہ ہم سائوتھ ایشیا والے اتنے مہذبانہ امیگریشن بھی کروا سکتے ہیں۔پاکستان ہوتا تو یہی لوگ گلے پھاڑ پھاڑ کر اپنا روب و دبدبہ جتا رہے ہوتے۔
قلم کار کو پتا ہی نہیں چلا کب، متحدہ عرب امارات کے پاکستانی سفارتخانے نے، میرا نام کانفرنس کے لئے نامزد کیاہے۔ میں کافی دنوں سے، ملکی سیاست اور معاشی حالات کے باعث عجیب کیفیت میں تھا۔28 ستمبر کی میل، دو۔ نومبر کو دیکھی۔ وہ بھی امارات کے سفارت خانے کی کال کے بعد، ’’جاگ‘‘ آئی۔
یو۔ اے۔ ای کے معزز سفیر حماد عبیدابراہیم سلیم الذیبی، کا شمار اسلام آباد کے متحرک ترین سفارت کاروں میں ہوتا ہے۔ وہ پاکستان کے سیاسی، بیورو کریسی، عسکری، بزنس اور عوامی حلقوں میں یکساں مقبول ہیں۔ اس کا اعتراف پاکستان میں جابجا کیا جاتا ہے۔
وہ پاکستان کے مختلف وزارتوں میں بطور خاص، اکثر دیکھے جاتے ہیں۔ جب سماجی حلقوں میں ان کی سماجی خدمات قابل قدر ہیں۔کئی بار دیکھا گیا کہ ان کی تیاری ہماری وزارتوں میں بیٹھے لوگوں سے زیادہ بہتر ہوتی ہے۔کافی عرصہ سے میرے شہر جھنگ کے مضافات میں بنیادی سہولیات اور مختلف پرندوں کی معدوم ہوتی نسل کے افزائش میں ان کی خدمات قابل تعریف ہیں۔ وہ یقینی طور پر ایک محنتی اور متحرک ٹیم رکھتے ہیں۔
اُسی ٹیم نے مجھے کہا کہ فوری اپنی مطلوبہ سفری دستاویزات متعلقہ لوگوں کو ای۔ میل کروں۔ پاسپورٹ کا مسئلہ تھا۔ GMC کمیٹی کی جانب سے تاخیر کے باعث ،ایک بار تو مجھے معذرت بھی کردی گئی۔ میں نے چیئرمین آرگنائزنگ کمیٹی محمد جلال الرئیسی ڈائریکٹر جنرل ڈبلیو۔ اے۔ایم۔ اور اطنکی ٹیم کو ای میل بھیجا۔ جس میں قلم کار نے لکھا کہ میں یو۔ اے۔ ای۔ سیر سپاٹے کی بجائے، میڈیا کی بدلتی دنیا کے انقلاب کو دیکھنے کے لیےجانا چاہتا ہوں۔ میں نے ٹامس فریڈمین یہودی رائٹر (نیویارک ٹائمز) کے حالیہ مضمون کا حوالہ دیا۔ جس میں اس نے اعترف کیا کہ ڈیجیٹل، سوشل میڈیا اور سمارٹ فون روایتی میڈیا کو ہڑپ کرگیا ہے۔ ہم غزہ کی جنگ ان ٹولز کی وجہ سے ہار رہے ہیں۔ نیا بیانیہ، ہماری نئی نسلوں کے ذہین میں گھس گیا ہے۔ اب ہمارے کالجز، یونیورسٹیوں میں ہمارے اپنے بچے، اسرائیل کو ’’کالونیل انٹرپرائزز‘‘ تسلیم کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دفاع کا حق فلسطین کا ہے۔ ہمیں اس پر کام کرنا ہوگا۔اس کے سب سے بڑی وجہ سوشل میڈیا اور سمارٹ فون ہے۔
قلم کار نے کہا کہ وہ بھی مصنوعی ذہانت، ڈیجیٹل میڈیا، نئی ٹیکنالوجی اور میڈیا کی تیزی سے بدلتی دنیا کو قریب سے دیکھنا چاہتا ہے۔
کم وقت ہونے کے باوجود مجھے جی۔ ایم۔ سی میں شرکت کا موقع دیا گیا۔
جہاں کانفرنس کے بہترین انتظامات ابوظہبی میں ہمارے منتظر تھے۔ 7/24 متحرک اسٹاف مہمانوں کی رہنمائی کے لئے، ہوٹل اور ”ایڈناک“ میں موجود تھا۔ خیال رکھنے کی انتہا تھی۔
کانفرنس کی افتتاحی خطاب اور تقریب لاجواب تھی۔ منسٹر آف اسٹیٹ ”ٹالرنس“ شیخ نہان بن مبارک انہیان کا خطاب، انتہائی مختصر ، جامع اور پُر مغز تھا۔ نظر آرہا تھا کہ وہ ایک تجربہ کار نسل اور آنیوالی نسلوں کے مابین انتہائی خوبصورت پُل کا کردار ادا کررہے ہیں۔وہ ڈیجیٹل میڈیا،مصنوعی ذہانت اور ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی کے ساتھ اتنی ہی تیزی سے اپنے نئی منزلوں کے لئے تیار نظر آئے۔
تین دنوں میں چالیس سیشن 27 ورکشاپیں اور 173 سپیکرز ،شرکاء کے منتظر تھیں۔ ایسے میں ہر روز مختلف کمپنیوں اورمتحدہ عرب امارات کے آفیشل سٹالز کمال تھے۔ سعودی عرب کی نیوز ایجنسی کا اسٹال بھی، نئے عزم اور ویژن کے تحت موجود تھا۔ امارات، دُبئی، شارجہ، ابوظہبی، چائنہ، رشین فیڈریشن کے اسٹالز بھی خوب تھے۔مگر کہیں بھی پاکستان بھارت بنگلہ دیش افغانستان اور ایران کے سٹالز دیکھنے کو نہیں ملے۔ بطور خاص پاکستانی اداروس کی یہاں نمائندگی نہ ہونے کا قلم کار کو شدید افسوس تھا۔صرف پی ٹی وی عوام کی جیبوں سے نکالے گئے ساڑھے سو کروڑ روپے سالانہ عیاشیوں پر ضائع کرتا ہے۔ریاستی ذمہ داران کو اس پر سوچنا چاہیے۔
گوگل کی پروفیشنل ٹریننگ ورکشاپس، بہت اچھی تھیں۔ ماحولیاتی تبدیلیوں پر بھی اچھی گفتگو، سننے اور دیکھنے کو ملی۔ جب کہ مختلف ملکوں کے صحافیوں سے انٹرایکشن کا بھی بہت مزہ آیا۔ ارجنٹینا، کیوبا، بوسنیا، روس، افریقی ممالک، مصر اور اسپین کے صحافیوں سے خوب گفتگو رہی۔
مصنوعی ذہانت(اے۔ آئی) ٹولز کی ہوشربا ترقی اور آسانیوں کے حوالے مذاکرے خوب تھے۔ قلم کار نے گوگل ورکشاپ میں کہا کہ اے۔ آئی بہت کچھ کھا جائے گی۔ مگر ”کونٹینٹ“ نہیں۔ویسے بھی اے۔ آئی موبائل کی دنیا می شنید ہے کہ اس پہلو پر جنوبی کوریا کی مشہور زمانہ موبائل کمپنی سام سنگ اپنی نئی پروڈکٹ کے ذریعے بہت بڑا انقلاب برپا کرنے جارہی ہے۔ جہاں زبان کی رکاوٹیں صفر ہو جائیں گی۔جہاں کال پر ہی لائیو ٹائم ٹرانسلیشن ہر زبان میں دستیاب ہوگی۔اپ اردو میں بات کریں۔ فرانسیسی کو فرینچ زبان، کال کرنے والے کی اپنی آواز میں سنائی دے گی۔ اس سے استفادہ ہونا چاہئے۔ یو۔ اے۔ ای حکام کو چاہئے، کانفرنس میں مزید ممالک کی شمولیت کے لئے، اپنا اثرورسوخ استعمال کرے۔
بہرحال کانفرنس میں توقعات سے زیادہ سیکھنے کو ملا۔ اس کے کامیاب انعقاد پر، اس میں شامل تمام منتظمین بطور خاص یو۔ اے۔ ای حکام، چیئرمین آرگنائزنگ کمیٹی محمد جلال الرئیسی کی مبارکباد نہیں، بھرپور مبارکباد اور تحسین بنتی ہے۔ ویل ڈن۔۔۔۔۔ویل ڈن۔۔ویل ڈن۔۔
کانفرنس کے دوران ابوظہبی اور بعد ازاں دو روز کے لئے، دبئی ، اجمان دیکھنے کا موقع ملا۔ اس دوران، متحدہ امارات کا روڈ انفراسٹریکچر بطور خاص دیکھا۔ ٹریفک قوانین کی پابندی اور احترام کا عمل مظاہرہ بھی جابجا نظر آیا۔
پولیس خال، خال ہی دکھائی دی۔ کیمرہ اور سی۔ آئی۔ ڈی سسٹم کمال ہے۔ لوگ احساس تحفظ کے ساتھ، بلا خوف و خطر گھوم رہے ہیں۔ جبکہ سیاحوں کے دیکھنے کے لئے، مقامات ہی ختم نہیں ہوتے۔ کمال کی صفائی اور خوبصورت ترین مساجد ہر سمت دیکھنے کو ملیں۔
بار بی کیو ٹونائیٹ پر مِکی بھائی، احتشام بھائی ، حیدر بھائی کے ساتھ، خوبصورت شام گزاری، کیرم کھیلا اور مصری سیڈ لیس مالٹے کھانے کا اپنا ہی مزہ تھا۔ جبکہ پاکستان کے حالات پر ،ہر پاکستانی کے چہرے پر تشویش ہی تشویش نظر آئی۔ آنکھوں کے پیچھے درد اور چھلکتے آنسو بھی دیکھے۔
قلم کار وہاں تھا۔ بارش ہوئی۔ سیوریج سسٹم پر یقینی طور پر وہاں کی حکومت کام کررہی ہوگی۔ صرف وہی کمی نظر آئی۔قلم کار کا پختہ یقین ہے کہ یو۔ اے۔ ای کے حکمران اپنی ’’نیشن‘‘ اور ہر ’’جنریشن‘‘ کے ساتھ مخلص اور وفادار ہیں۔ وہ اپنی آنیوالی نسلوں کی فلاح و بہبود اور ترقی کا ابھی سے منصوبہ بنائے بیٹھے ہیں۔کم از کم مجھے اس ضمن میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔
یو۔ اے۔ ای والوں نے اپنی ریت سونا کرلی ہے۔جبکہ ہمارے والوں نے اپنا سونا ریت کرلیا ہے۔(ناصر جمال)۔۔