تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو، محرم الحرام کا چاند نظر آگیا ہے یعنی ایک نئے اسلامی سال کا آغاز ہوگیا ہے۔آپ سے اگر سوال کیا جائے کہ محرم کو محرم الحرام کیوں کہاجاتا ہے تو ہمیں سوفیصد یقین ہے کہ ننانوے فیصد لوگوں کو اس بارے میں قطعی علم نہیں ہوگا کہ اس کی وجہ تسمیہ کیا ہے؟۔۔چلیں ہم آپ کو بتاتے ہیں۔۔’’محرم‘‘ کے مہینے کو محرم اس کی تعظیم کی وجہ سے کہتے ہیں، لفظ حرام یہ حرمت سے ہے، اس کے معنی ہیں، قابلِ احترام۔۔ اور ’’محرم الحرام‘‘ کے معنی ہیں۔۔محرم کا مہینہ جو قابل احترام ہے، جیساکہ ’’مسجد الحرام‘‘ کے معنی ہیں۔۔ وہ مسجد جو قابلِ احترام اور عظمت والی ہے۔۔ بسا اوقات کسی چیز کی ممانعت اور حرمت اس کی عظمت کی وجہ سے ہوتی ہے۔۔ ’’محرم الحرام‘‘ ان چار مہینوں میں سے ایک ہے، جنہیں اللہ تبارک وتعالی نے حرمت والے مہینے قرار دیا ہے، وہ چار مہینے یہ ہیں: ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم الحرام او ررجب المرجب۔ ان مہینوں کو حرمت والا اس لیے کہتے ہیں کہ ان میں ہر ایسے کام سے جو فتنہ وفساد، قتل وغارت اور امن وسکون کی خرابی کا باعث ہو، بالخصوص منع فرمایا گیا ہے۔ ان چار مہینوں کی حرمت وعظمت پہلی شریعتوں میں بھی مسلم رہی ہے، حتی کہ زمانہ جاہلیت میں بھی ان چار مہینوں کا احترام کیا جاتا تھا۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ بچپن میں جیسے ہی محرم شروع ہوتا تو گلی گلی سبیلیں بن جاتی تھیں،جہاں ٹھنڈا پانی اور ٹھنڈا شربت ملا کرتاتھا، ایسا اب بھی ہوتا ہے لیکن اب بڑے پیمانے پر ہوتا ہے۔ تو ہم ٹھنڈا پانی اور شربت پینے کے لیے بار بار سبیلوں کے چکر لگایا کرتے تھے، جہاں پانی اور شربت دینے والے ہمیشہ آدھا گلاس دیتے تھے،ہم انہیں ٹوکتے بھی تھے کہ گلاس پورا بھرا کرو لیکن بچے کی آواز کون سنتا ہے۔۔کہتے ہیں کہ معروف امریکی ادیب ۔۔ہنری ملر۔۔ نے ایک مرتبہ پیرس میں کسی دکان سے سیب کا جوس پیا۔ گلاس لوٹاتے ہوئے اس نے دکاندار سے پوچھا۔۔تم دن بھرمیں کتنے سیبوں کا رس بیچ لیتے ہو؟دکاندار نے بتایا کہ۔۔تقریباً ایک مَن سیبوں کا۔۔ہنری نے دکاندار کا جواب سن کر کہا۔۔میں تمہیں ایک مشورہ دیتا ہوں جس پر عمل کے بعد تم تقریباً دو مَن سیبوں کا رس بیچ سکتے ہو۔۔دکاندار بے قرار ہوکر بولا۔۔ کیسے؟ جلدی بتاؤ۔۔ ہنری ملر نے کہا۔۔گلاس پورا بھر دیا کرو۔۔ کبھی آپ نے آزمایا ہے کہ جب صبح آپ کو کہیں جلدی جانا ہو،آپ نے جاگنے کے وقت کا الارم بھی لگادیا لیکن ہمیشہ آنکھ الارم بجنے سے قبل ہی کیوں کھل جاتی ہے؟ ہمارے ساتھ ایسا ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔ ایک نئی تحقیق میں ماہرین نے یہ وجہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ صبح جاگنے کے وقت الارم بجنے سے قبل ہی ہماری آنکھ کیوں کھل جاتی ہے۔ غیر ملکی میڈیا میں شائع ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گہری نیند میں بھی ہمارا جسم وقت کا پتہ لگانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہر انسان کے جسم میں ایک قدرتی گھڑی ہوتی ہے جسے اعصاب کنٹرول کرتا ہے، جسے Suprachiasmatic کہا جاتا ہے، اور یہ پوائنٹ دماغ کے وسط میں موجود ہے۔ یہ اعصاب بلڈ پریشر، جسم کا درجہ حرارت اور ہمارے وقت کے احساس کو کنٹرول کرتے ہیں اور یہ بھی طے کرتے ہیں کہ آپ کو کب سونا چاہئے اور کب اٹھنا چاہئے۔ جسم میں پائی جانے والی یہ قدرتی گھڑی آپ کے معمولات کے مطابق کام کرتی ہے اور اس وقت بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتی ہے جب آپ روزانہ رات کو ایک وقت پر سوتے اور صبح کو اٹھتے ہیں۔ سونے اور جاگنے کے وقت کا تعین کرنے کے لیے جسم میں پی ای آر نامی ایک پروٹین ہوتا ہے، جسم میں اس کی مقدار شام کے وقت بڑھنا اور رات میں کم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ پی ای آر کم ہو تو بلڈ پریشر کم رہتا ہے اور دل کی دھڑکن بھی سست ہو جاتی ہے، سوچنے کا عمل مشکل ہو جاتا ہے۔ یہی وہ احساس ہے جسے ہم تھکن کا نام دیتے ہیں۔ اگر آپ مستقل ایک ہی وقت پر سونے کے عادی ہیں تو آپ کا جسم قدرتی گھڑی کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر آپ کے پی ای آر لیول کو اس وقت بڑھا دے گا جب صبح میں آپ کا الارم بجنے والا ہوگا۔ پی ای آر لیول صبح میں جاگنے سے ایک گھنٹہ قبل بڑھنا شروع ہو جاتے ہیں جس سے ہمارا جسم پریشانی محسوس کرتے ہوئے جاگنے کی تیاری شروع کر دیتا ہے۔ بھارتی پنجاب کے شہر جالندھر کا قصہ ہے کہ ۔۔سردار جی کو آدھی رات کے وقت پولیس والوں نے روک لیا۔ پوچھا تو سردار نے بتایا کہ وہ فلاں سینما پہ فلاں فلم دیکھ کے آرہے ہیں۔ایک پولیس والے نے کہا۔۔ . سردار جی۔ مکمل اسٹوری سناؤ تب جانے دیں گے۔۔سردار جی نہ چاہتے ہوئے بھی اسٹوری سنانے لگے۔ کافی زیادہ دیر ہوگئی تو سردار جی نے فلم کا اینڈ سنا کے کہا۔۔ ہن اجازت اے؟؟؟؟۔دوسرا پولیس والا بولا۔۔۔سردار جی، گانے تہاڈی پھپھی سنانے نیں۔۔۔باباجی ایک بار پیرس میں ایفل ٹاور کی سیرکررہے تھے کہ ایک خوبرو میم پر نظر پڑی ،باباجی چونکہ ازلی دل پھینک ہیں اس لیے میم پر دل ہاربیٹھے،پریشانی کی بات تھی کہ بات کیسے کرے میم سے؟ باباجی کو اردو اور پنجابی کے علاوہ کوئی زبان نہیں آتی تھی جب کہ میم صرف فرنچ جانتی تھی۔۔باباجی کا دماغ ایسے موقعوں پر بہت تیزی سے کام کرتا ہے، انہیںاچانک ایک ترکیب سوجھی۔۔کاغذ پر پنسل سے چائے کا کپ بنایا اور میم کو دکھایا۔۔ میم نے دیکھا تو مسکرا کے ساتھ چل دی۔ریستوران میں بیٹھ کر باباجی نے پھر کاغذ پر کھانے کے برتن کی تصویر بنائی۔۔میم سمجھ گئی کہ باباجی نے کھانے کی پیشکش کی ہے، آفر قبول ہوئی اور کھانے آرڈر دے دیاگیا۔۔کھانے سے فارغ ہونے کے بعد میم نے باباجی سے پنسل اور کاغذ لیا اور ایک خوبصورت(پلنگ) بیڈ کی تصویر بنا کر باباجی کے سامنے کی تو باباجی شرم سے پانی پانی ہوگئے۔۔سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اب کیا کریں؟؟ آخر ہمت کر کے ڈرتے ڈرتے میم سے کہنے لگے۔۔توانوں کس طرح پتہ لگیا اے کہ میں فرنیچر دا کم کردا واں۔۔باباجی نے جب یہ واقعہ سنایاتو محفل میں موجود لوگ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوگئے۔۔ ہمارے پیارے دوست کو بھی اس پر ایک واقعہ یاد آگیا۔۔کہنے لگے۔۔میں ایک پارک میں بیٹھا تھاکہ اچانک میرے کانوں سے ایک نسوانی آواز ٹکرائی۔۔ جسے بھی آئسکریم چاہیے وہ میرے پاس آجائیں۔۔اتنا سنتے ہی چھوٹے بچوں سے لے کر بڑے آدمی اور عورتیں اس کے پاس لائن لگا کر کھڑے ہو گئے جو لگ بھگ 25 سے زائد افراد رہے ہونگے۔۔۔مجھے تھوڑی شرم تو آئی پر آئسکریم کے لالچ میں جب اتنے لوگ کھڑے تو میں بھی شرم کو بھول کر آئسکریم کے لیے ان سب کے پیچھے لائن میں کھڑا ہو گیا۔۔سب کو آئسکریم مل گئی جب میرا نمبر آیا تو اس نے پوچھا کون ہو تم؟؟؟بعد میں پتہ چلا وہ سب ایک ساتھ تھے اور پکنک منانے آئے تھے۔۔ اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔۔کرکٹ سکھانے والے کی تنخواہ بتیس لاکھ روپے اور جو قرآن پاک سکھاتا ہے اس کی تنخواہ صرف دس ہزار روپے۔ایسی قوم پر زوال نہیں آئے گا تو پھر کیا آئے گا۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔