تحریر: عبدالقادر غوری۔۔
سوال : آپکو تنخواہیں کب ملیں گی؟صحافی : پتہ نہیں۔۔سوال : حکومت کب جارہی ہے ؟جواب : اگلے ہفتے
گرتی ہوئی دیوار کو ۔۔
پتا بچاروں کو اپنی تنخواؤں کا نہیں ہے۔۔حکومت ہر ہفتے گراتے ہیں ۔۔کیا سے کیا ہوگئے دیکھتے دیکھتے
کیا وقت تھا بول نامی چینل آرہا تھا ۔بڑے پیمانے پر بھرتیاں شروع ہوگئیں تھیں ۔مارکیٹ سے بڑے سے بڑے اینکرز، بہترین صحافی تجربہ کار چیف کیمرا مین موجودہ تںخواہ سے چار سے دس گناہ قیمت میں خریدے جارہے تھے ۔ہر جانب شور تھا ۔ بول والے تیس ہزار تنخواہ والے کو تین لاکھ میں بھرتی کررہے ہیں۔پوری فیملی کا علاج ، کار، کھانا پینا، نہانے کے سوئمنگ پول یہاں تک کے بال بھی ادارے کا نائی کاٹے گا ۔مطلب سیدھے سادھے صحافیوں کی بھی زندگی بدلنے جارہی تھی ۔سفارش الگ سرگرم تھے ۔ میڈیا سے منسلک ہر شعبے کے لوگوں کی خوائش تھی کہ وہ بول میں کسی نا کسی طرح بھرتی ہوجائے ۔
میرے جیسے لوگ سوچتے تھے کہ یار ہمیں کہاں وہ لوگ بھرتی کریں گے ۔ لیکن امید ہے کہ شعیب شیخ کے اس اقدام سے میڈیا چینلز کے درمیان مقابلہ بڑھے گا اور ہمارے مالکان بھی بول کے دیکھا دیکھی ملازمین کی تنخواؤں میں اضافہ کریں گے ۔کہ جو لوگ چینل میں بچ گئے ہیں وہ بھی نا بھاگ جائیں ۔ایسا ہو بھی جاتا اگر بول شروع ہونے سے پہلے شعیب شیخ گرفتار نا ہوجاتا ۔ اس کے بعد ایک لمبی کہانی ہے ۔لیکن منافق لوگوں نے سب سے پہلے بول چھورنا شروع کیا اس میں سرفہرست اینکرز رہے ۔
کیمرامین اور صحافی کیونکہ اپنا پُرانا چینل ڈنکے کی چوٹ پر چھوڑ آئے تھے وہ وہاں پھنس گئے۔اینکرز کو تو کہیں نا کہیں نوکری پھر مل جاتی ہے لیکن صحافی کیمرامین ٹیکنیکل سٹاف وغیرہ چلتے رہے ۔کئی کئی ماہ کی تنخواہ رک گئیں آج تک رکی ہوئی ہیں ۔ باقی میڈیا نے بول سے اچھائی تو نہیں سیکھی ہاں البتہ تنخوائیں نا دینے یا دو ماہ روکنے والی عادت اپنا لی ۔اور آج یہ عالم ہے ۔
ہر چینل نے ملازمین کی ڈاؤن سائزنگ کردی کہ جہاں سو ملازمین تھے پچاس رکھ لیے پچاس بنا کوئی وجہ بتائے نکال دیے۔تنخواؤں روک لیں ۔
تین ماہ بعد ایک ماہ کی تنخوا ہ ملنے لگی ۔خرچ پر کٹ لگادیا تنخوائیں آدھی کردیں ۔اب سوال یہ ہے کہ اتنے بُرے حالات میں بھی یہ لوگ کیوں میڈیا میں نوکری کررہے ہیں چھوڑ کیوں نہیں رہے ؟جواب یہ ہے کہ ایک تو ان کے کم از کم چار ماہ کے پیسے مالکان نے روک رکھے ہیں نوکری چھوڑنے کا مطلب چار ماہ کی تنخواہ سے ہاتھ اٹھانا ہے ۔دوسری وجہ میڈیا سے نکل کر یہ لوگ کریں گے کیا ۔
کاروبار ہیں نہیں ۔ نوکری ملتی نہیں ۔میڈیا فلحال بندے نکال رہا ہے اسی لیے ایک چینل چھوڑ کر دوسرے چینل میں جاب کا آسرہ بھی نہیں لہذا بیٹھے ہیں بیچارے۔۔صحافی تنظیموں کا آسرہ تھا لیکن صحافی تنظیموں کے لیڈرز کی دوستیاں چینل مالکان سے ایسی ہیں جیسے فلم آتش میں سنجے دت ادیتیا پنچولی کی تھی۔اس لیے صحافی لیڈرز سے بھی کوئی شکایت نہیں کیوں کے دوستی اور ذاتی مفادات ہمیشہ خدمت خلق سے پہلے ہیں۔
اس وقت میڈیا کے حوالے سے صحافی اور ان کے حقوق کی حفاظت کرنے والی تنظیمیں اور ان تنظیموں کے لیڈرز اور مالکان اور حکومت سب کا یہ ایک ہی نعرہ نظر آتا ہے۔گرتی ہوئی دیوار کوایک دھکا اور دو ۔۔۔۔ (عبدالقادر غوری)