خصوصی رپورٹ۔۔
دنیا بھر میں ہم جنس پرستی کی لعنت تیزی سے پھیلتی جارہی ہے جس کے اثرات پاکستان تک بھی پہنچنا شروع ہوگئے ہیں جس کا عملی مظاہرہ کراچی میں خاتون اینکر و کالم نویس ثنا غوری کو دیکھنے میں ملا جنہیں ایک لڑکی نے شادی کی پیشکش کردی۔ ثنا غوری نے خود کے ساتھ پیش آنے والا ایک کالم کی صورت میں لکھا ہے جس میں انہوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ کراچی میں ہم جنس پرست لڑکیوں کا باقاعدہ منظم گروہ کام کر رہا ہے ۔
اینکر پرسن نے اپنے کالم میں لکھا ۔۔۔۔
”آپ ثناءغوری ہیں؟ “
”جی“
”میں آپ کے شو دیکھتی ہوں ٹی وی پر“
”اچھا، شکریہ“
جواب دے کر میں اپنی خریداری میں پھر مصروف ہوگئی۔
”میں سوشل میڈیا پر بھی آپ کو فالو کرتی ہوں۔ آپ کا گیٹ اپ مجھے بہت اپیل کرتا ہے۔ “
وہ ایک بار پھر مجھ سے مخاطب ہوئی۔ میں نے مسکرا کر اسے دیکھا۔ اس کی عمر چھبیس ستائیس کے قریب ہوگی، میں جس شاپنگ سینٹر میں موجود تھی وہ کراچی کے ایک پوش علاقے میں واقع ہے۔ میں کاسمٹکس خرید رہی تھی، لہٰذا غور سے ہر چیز پر لکھی تحریر پڑھتی جارہی تھی۔ اتنے میں وہ اچانک میرے قریب آکر مخاطب ہوگئی۔ اس کا لباس کافی ماڈرن تھا۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اس نے بڑی مشکل سے خود کو لباس میں پھنسا رکھا تھا، ایسے میں اس کا کہنا کہ آپ کا گیٹ اپ مجھے اپیل کرتا ہے، میرے لیے حیرت کی بات تھی۔
میں پھر سامان خریدنے لگی۔ وہ کافی دیر مجھے دیکھتی رہی پھر نزدیک آکر کہنے لگی،
”کیا آپ مجھ سے شادی کر سکتی ہیں؟ “
میرے لیے ایک خاتون کی طرف سے یہ سوال آنا نہایت حیرت کی بات تھی۔ میں نے اس کی طرف غور سے دیکھا، اسے جواب دینے کے لیے لفظ نہیں مل رہے تھے۔ میں کوئی سخت بات کرتی لیکن مجھے اس پر رحم آگیا۔ میں نے فقط اتنا کہا کہ میں شادی شدہ ہوں۔
جواب آیا، ”اچھا ٹھیک ہے، لیکن دوستی؟ “
”نہیں مجھے اس میں بھی کوئی دل چسپی نہیں“
”ہم ساتھ کافی پی سکتے ہیں؟ “
مجھے اس کے جذبات کو لفظوں میں ڈھالنے کی جلدی تھی، شاید اسی لیے میں نے ہامی بھرلی۔ ہم لفٹ سے کافی شاپ میں چلے گئے۔ میں عام سیٹ لیتی لیکن اس نے اسموکنگ ایریا کا رخ کیا، اور بیٹھتے ہی اپنی سگریٹ سلگالی۔ شام کا وقت تھا، اور جہاں ہم تھے وہاں پورے کراچی کا منظر صاف نظر آرہا تھا۔ اس نے گفتگو کا آغاز کیا:
”آپ کو حیرت ہوئی ہوگی؟ “
”ظاہر ہے حیرت کی بات تو ہے تم ایک لڑکی ہو اور کافی پڑھی لکھی سمجھ دار دکھائی دیتی ہو۔ پھر ایِسی گھٹیا سوچ۔ “
”پلیز گھٹیا مت کہیے اسے۔ میری عادت ہوگئی ہے اور میں عادت نہیں بدل سکتی۔ “
”ایک منٹ۔ تم نے کہا شادی۔ یہ شادی کیسے ہوسکتی ہے؟ کیا تم لوگ آپس میں شادی کرتے ہو۔ اور پاکستان میں تو یہ جرم بھی ہے۔ “
”شادی نہیں ہوتی ایک کنٹریکٹ ہوتا ہے جس کی پاسداری دونوں فریق کرتے ہیں“
”لیکن اس کنٹریکٹ کی کوئی قانونی حیثیت بھی تو نہیں ہوسکتی۔ “
”ہاں، نہیں ہوتی، لیکن دل کی تسلی کے لیے“
”تمھیں کسی نفسیاتی معالج سے رجوع کرنا چاہیے۔ “
”کوئی فائدہ نہیں“
”یہ تم کہہ رہی ہو ناں کہ کوئی فائدہ نہیں۔ تم چاہو تو میں تمھاری مدد کر سکتی ہوں“
”نہیں اس کی ضرورت نہیں۔ “
”شادی کیوں نہیں کی تم نے“
”کی تھی گھر والوں نے۔ پھر انھیں اندازہ ہوگیا کہ مجھے خواتین میں دل چسپی ہے اور کالج کے زمانے سے ہی یہ عادت لگ گئی تھی، شادی کام یاب نہ ہوسکی۔ میں ایک پرائیویٹ فرم میں جاب کرتی ہوں۔ جاب کی مجھے ضرورت نہیں۔ بس خود کو مصروف رکھنے کے لیے کر رہی ہوں۔ “
مجھے اس پر رحم بھی آرہا تھا اور معاشرے میں پھیلتی گندگی کی بو بھی محسوس ہورہی تھی۔ میں سوچ رہی تھی ہم کسے دھوکہ دے رہے ہیں۔ سب اچھا ہے کا خول پہنے ہم کب تک خود کو دھوکہ دیتے رہیں گے۔ میں عجیب مخمصوں کا شکار تھی۔ پوچھنا بہت کچھ چاہتی تھی لیکن لفظ حلق میں اٹک رہے تھے۔
کافی ختم ہوئی۔ اس نے مجھ سے میرا نمبر مانگا تو میں نے معذرت کرلی۔ نمبر نہ دینے پر مجھے احساسِ ندامت تھا، کیوں کہ میں اس کی کسی بھی طرح مدد کر سکتی تھی، لیکن میں بھی اسی معاشرے کی فرد ہوں، مجھے اپنا دامن بچانے کی فکر زیادہ تھی۔ اس نے اپنا کارڈ مجھے تھمایا اور یہ بتایا کہ وہ سوشل میڈیا پر کس نام سے ہے۔ پھر وہ چلی گئی۔ اس کے جانے کا ساتھ ہی میں نے کارڈ پھاڑ کر ایک طرف رکھ دیا۔ اور گاڑی کی چابی اٹھا کر لفٹ کا رخ کیا۔ لفٹ سے پارکنگ تک کے راستے میں اور پھر کار چلاتے ہوئے نہ جانے کتنے خیالات نے مجھے گھیرے رکھا۔
میں اس موضوع پر پہلے بھی لکھنا چاہتی تھی لیکن مجھے علم تھا کہ ایسے موضوعات وہ بھی ایک خاتون کے قلم سے کسی صورت قابل قبول نہیں ہوتے اور نہ کبھی ہوپائیں گے۔ ایسے ہی کچھ تجربات مجھے کالج لائف میں بھی ہوئے اور پھر پروفیشنل لائف میں آنے کے بعد باقاعدہ یہ راز کھلا کہ کراچی میں ایسی خواتین کا ایک منظم گروپ ہے جو باقاعدہ طور پر سرگرم ہے۔ لیکن بس بات سنی ان سنی ہوگئی کہ آخر ہمیں کیا پڑی ہے گندگی میں ہاتھ ڈالنے کی۔ شاید یہ سوچ ہی ہے کہ ہم غلط باتوں کو سامنے نہیں لاتے اور اس لیے خاموش ہوجاتے ہیں کہ ہمارے دامن پر چھینٹے آئیں گے، لیکن ایک لکھاری جواب د ہ ہے اپنے رب کے سامنے بھی کہ جب برائی دیکھی تو کچھ کہا کیوں نہیں اپنا قلم استعمال کیوں نہ کیا ۔۔