تحریر: محمد نواز طاہر
بارش سے حبس نہ چھُوٹے ، گھٹن کم ہونے کے بجائے بڑھ جائے تو سانس لینے کیلئے تدبیر اورحکمتِ عملی بنانا پڑتی ہے جس کیلئے کم از کم بند کمرے سے قدم باہر رکھنا اور گھٹن کا باعث بننے والی بھیڑ میں سے ہوا کا راستہ نکالنا ضروری ہوتا ہے ۔ لاہور میں فروری کےاختتام سے لیکر مارچ کے اوائل تک بارش ہو تو گھٹن کیسی؟
شبِ بارش میں بھیگا گھر پہنچا تو گرم کافی کا لطف شراب کے ہر برانڈ کو مات دے گیا۔نیند گہری آئی ۔۔ خواب میں انتخابی منظر دیکھ رہا تھا ، ہڑ بڑا کر اٹھا تو گھڑی کی سوئیاں’ سکھ جپھیاں‘ ڈال کر ایک قدم آگے بڑھ چکی تھیں ، یاد آیا کہ جب میں برادر قیصر چوہان کے ساتھ ورکرز جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے احتجاجی مظاہرووں میں شرکت کیلئے کراچی میں تھا تو لاہور پریس کلب میں صحافیوں کے تمام گروپوں نے تین مارچ کو ایک مشترکہ ( پریس کلب کے ووٹرز کی لسٹ ) لسٹ پر پنجاب یونین آف جرنلسٹس ( پی یو جے) کا الیکشن کروانے کا متفقہ فیصلہ کیا تھا ، آج تین مارچ ہے اور آدھا دن گذر چکا ، میں ووٹ ڈالنے نہیں گیا ، یہی سوچ کر جلدی سے نکلا ، معمول کے برعکس پبلک ٹرانسپورٹ( ہماری سڑکوں پر بس ’چاند گاڑی‘ رہ گئی ہے ) کے بجائے آٹو رکشہ پر کئی گنا زائد کرایہ خرچ کرکے پریس کلب پہنچا تو انتخابی عمل کہیں دکھائی نہیں دیا ۔۔۔ دھت تیرے کی ۔۔۔۔۔ انتخابی عمل دکھائی کیسے دیتا ، اس کیلئے تو فیصلہ ہوا تھا ، عملی قدم تو اٹھایا ہے نہیں گیا تھا ، تب میں ہوش میں آگیا ،مجھے رات بارش میں بھیگنے اور کافی کے لطف سے پہلے کا منظر یاد آگیا جب لاہور پریس کلب کے سابق صدر اعظم چودھری کے سالگرہ پر صحافیوں کی نمائندگی کرنے والے سارے ”چودھری ‘ اکٹھے تھے ، جہاں میڈیا انڈسٹری کے بحران پر ہر شخص رنجیدہ ، متفکر اور کچھ کرنے گذرنے قربانی کے جذبات کے ساتھ گفتگو کررہا تھا اور طے پایا تھا کہ مشترکہ ایکشن کمیٹی سخت فیصلے اور اقدامات اٹھائے ، اس ضمن میں جوائنٹ ایکشن کمیٹی کراچی کی طرف سے موصول ہونے والے پیغام کا ذکر کیا گیا تھا ۔
اِ س متفکر مجلس میں نوائے وقت ، دی نیشن ، اور فیملی میگزین( مجید نظامی کی لے پالک رمیزہ نے بھی کام کیا جو مجید نظامی نے بڑے بھائی حمید نظامی مرحوم اور ان کے صاحبزادے عارف نظامی کو نیشن سے بے دخل کرکے کیا تھا جبکہ وقت نیوز چئنل مجید نظامی میں الیکٹرانک میڈیا کے دور میں اے پی این ایس کی سیاست کے ساتھ پی بی اے کی سیاست میں زندہ رہنے کیلئے شروع کیا تھا ) سے نکالے جانے والے کارکنوں کا خاص طور پر ذکر جاری رہا تھا ، جنگ گروپ کے کچھ اداروں ( روزنامہ وقت جو علیم خاں سے خریدا تھا اور انقلاب جو شام کے اخبارات سے مقابلہ کے لئے شروع کیا تھا )کی بندش سے بے روزگار ہونے والے کارکن اور ان کی بحالی کی جدوجہد بھی زیرِ بحث تھی ، ڈان میں تنخواہوں میں کٹوتیووں پر بھی انتظامیہ پر تنقید ہورہی تھی ، ساتھ ہی کارکنوں کے معاشی حالات پر تشویش کا اظہار اور ان کے صبر کی داد بھی دی جاررہی تھی چنانچہ فیصلہ کیا گیا کہ جوائنٹ ایکشن کمیٹی کا ہنگامی اجلاس آج تین مارچ کو بلایا جائے اور صوتحال کا جائزہ لیکر سخت فیصلے کیے جائیں ۔
آج جوائنٹ ایکشم کمیٹی کیا فیصلہ کرتی ہے ؟ کیا لائحہ عمل بناتی ہے ، یہ شام کو ہوگا ، جو بھی ہوگا اس کے فیصلوں کا احترام اور بھر پور ساتھ دیا جائے گا لیکن ایک بات بہرحال توجہ طلب ہے کہ جب تک صحافی اپنے قیادت منتخب نہیں کرتے تب تک معاشی قتلِ عام روکنا ممکن نہیں ہے جبکہ
صحافیوں کی قیادت کے انتخاب کیلئے الیکشن محض ایک خواب دکھائی دے رہا ہے جو میڈیا مالکان کیلئے تو بہت سہانا اور کارکنوں کیلئے انتہائی ڈراﺅنا ہے ، ایسے ہی جیسے بارش تو ہوئی ہو لیکن حبس برقر رہے گھٹن بڑھ جائے ۔گھٹن اور حب سے کب تک سانس روکنا ، یا لینا ممکن ہے ، کسی نہ کسی لمحے موت واقع ہوسکتی ہے ۔سانس لینے کیلئے کوئی تدبیر کرنا ہوگا۔(محمدنوازطاہر)۔۔