shartiya meetha | Imran Junior

غصہ کیجیے!

علی عمران جونیئر

دوستو،ہمارے مذہب میں غصہ حرام ہے، ہمارے بزرگ غصے کو فوری تھوکنے کا کہتے رہے ہیں لیکن ماہرین کا ماننا ہے کہ غصہ بہترین نتائج دیتا ہے، غصے میں لوگ اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے زیادہ مؤثر انداز میں کوشش کرتے ہیں۔ٹیکساس اے اینڈ ایم یونیورسٹی میں 233 طلبا پر کی جانے والی تحقیق میں ان کو ایسی تصاویر دِکھائی گئیں جو یا تو نیوٹرل تھیں یا پھر ایسی تھی جن سے خوش باشی، اداسی، خواہش یا غصے کے جذبات اجاگر ہوتے تھے، مثال کے طور پر ان طلبا کی یونیورسٹی فٹبال ٹیم کی تذلیل کرنا وغیرہ۔بعد ازاں ان طلبا کو 20 منٹ کے اندر ایناگرام (الفاظ کے حروف کی ترتیب بدل کر دوسرے الفاظ بنانا) حل کرنے کے لیے دیے جس میں ان کو حقیقی الفاظ کا پتہ لگانا تھا۔اس دوران دیکھا گیا جب لوگ غصے میں تھے تو ان کے ایناگرام درست حل کرنے کی شرح 39 فی صد زیادہ تھی۔ محققین نے ان افراد کو مشکل ایناگرام سے ہار ماننے کے بجائے حل کرنے کے لیے سخت کوشش کرتا ہوا بھی پایا۔تاہم، ایک دوسرے تجربے میں غصے میں لوگوں کو ٹیسٹ کے دوران جھانسا دیتے ہوئے پایا گیا۔تحقیق کے سربراہ پروفیسر ہیتھر کا کہنا تھا کہ لوگوں کا اکثر ماننا ہوتا ہے کہ خوشی کا احساس مثالی ہوتا ہے اور اکثریت یہ سمجھتے ہیں کہ خوشی کی تلاش زندگی کا بڑا مقصد ہوتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ نظریہ کہ مثبت جذبات ذہنی صحت اور فلاح کے لیے مثالی ہوتے ہیں، جذبات کے نفسیاتی پہلو کے لیے اہم ہوتا ہیں لیکن گزشتہ تحقیق بتاتی ہے کہ جذبات کا مرکب (بشمول منفی جذبات جیسے کہ غصہ) بہترین نتائج کا سبب ہوتا ہے۔

غصے میں کبھی دماغ کام کرنا چھوڑ دیتا ہے تو کبھی دماغ بہت تیزی سے چلنے لگتا ہے۔ایک خاتون آفس سے تھکی ہاری ،چھٹی کے بعد گھر جانے کے لئے بس میں سوارہوئی، سیٹ پر بیٹھ کر آنکھیں موند کر تھوڑا سا ریلیکس کرنے کی کوشش کرنے لگی۔۔ابھی بس چلی ہی تھی کہ اگلی قطار میں بیٹھے عمیر صاحب نے اپنا موبائل نکالا اور اونچی آواز میں گفتگو شروع کر دی۔ان کی گفتگو کچھ اس طرح سے تھی۔۔جان میں عمیر بول رہا ہوں، بس میں بیٹھ گیا ہوں اور گھر ہی آ رہا ہوں،ہاں ہاں مجھے پتہ ہے کہ سات بج رہے ہیں پانچ نہیں، بس ذرا آفس میں کام زیادہ تھا اس لئے دیر ہو گئی۔ نہیں جان، میں شبنم کے ساتھ نہیں تھا، میں تو باس کے ساتھ میٹنگ میں تھا۔نہیں جان، صرف تم ہی میری زندگی میں ہو۔ہاں قسم سے۔۔۔ اس اونچی آواز میں مسلسل گفتگو سے خاتون کا سارا ریلیکس کرنے کا پروگرام غارت ہو چکا تھا اور وہ بہت ان ایزی محسوس کر رہی تھی۔کافی دیر بعد تک بھی جب یہ سلسلہ جاری رھا تو خاتون کی ہمّت جواب دے گئی۔وہ اٹھّی اور فون کے پاس جا کر زور سے بولی۔۔عمیر ڈارلنگ، فون بند کرو، بہت ہو چکا۔ اس پاگل عورت کو اور کتنی صفائیاں دو گے؟۔۔اب عمیر صاحب اسپتال سے تو واپس آ چکے ہیں لیکن پبلک مقامات پر انہوں نے موبائل کا استعمال مکمل طور پر بند کر دیا ہے۔اسی طرح سے لاہور میٹروبس میں سفر کے دوران ہمارے پیارے دوست کی بغل والی سیٹ پر ایک لڑکا اورلڑکی بیٹھے ہوئے تھے، ان کو دیکھ کر لگ رہا تھا کہ وہ ایک دوسرے کے لئے اجنبی ہیں، کچھ ہی دیر بعد آپس میں باتیں کرنے لگے۔ پھر بات چیت اس مقام تک پہنچ گئی کہ ایک دوسرے کا موبائل نمبر مانگا جانے لگا، لڑکے کا موبائل کسی وجہ سے بند تھا تو اس نے جیب سے ایک مڑا تڑا کاغذ نکالا، لیکن لکھنے کے لیے اس کے پاس قلم نہیں تھا۔ہمارے پیارے دوست بتاتے ہیں کہ بازو والی سیٹ پہ بیٹھا میرا سارا دھیان انہی دونوں پہ تھا،اس لئے میں سمجھ گیا کہ لڑکی کا موبائل نمبر لکھنے کے لئے لڑکے کو قلم کی ضرورت ہے۔ اس نے بڑی امید سے میری طرف دیکھا کیونکہ اس نے میری قمیض کی سامنے والی جیب میں لگا قلم دیکھ لیا تھا، میں نے جیب سے قلم نکالا اور چلتی بس سے باہر پھینک دیا۔ کیونکہ اپنا اصول ہے۔۔ نہ کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے۔۔

بعض دفعہ خوامخواہ ہی بیوی کو شوہر اور شوہر کو بیوی پر غصہ آرہاہوتا ہے، وجہ پوچھیں تو نامعلوم ہوتی ہے۔ ایسے ہی غصے سے بھری ایک بیوی نے شوہر سے کہا۔اجی صبح سے فارغ بیٹھے ہو، استری کو ہی دیکھ لو، ہفتے سے خراب پڑی ہے، روز پڑوس سے مانگنی پڑتی ہے۔شوہر نے بیزاری سے کہا۔اچھا شام کو لے جاؤں گا،کسی کاریگر کے پاس۔بیوی نے سنی ان سنی کرتے ہوئے پھر کہا۔خود کیوں نہیں دیکھتے؟شوہر نے تھوڑی دیر بعد جواب دیا ،شاید تھرموسیٹ کا مسئلہ ہے، کاریگر ہی دیکھے گا۔۔بیوی نے دوبارہ کہا۔۔آپ بھی تو اچھے خاصے کاریگر ہو۔بیگم کے منہ سے تعریف سن کر شوہر پھولے نہ سمایا،جھٹ موبائل فون سائیڈ پر رکھا، اسٹور سے ٹیسٹر کٹ، میٹر اور پلاس نکالا اور دوسرے کمرے میں استری کھول کے بیٹھ گیا۔پاور پلگ کھولا تو ایک تار کچھ ڈھیلی دکھائی دی، چھیل کر نیا کنکشن بنایا، بیک کوّر کھول کر دیکھا تو ایک اسکریو وہاں بھی ڈھیلا معلوم ہوا۔ اچھی طرح کس کے استری بند کی۔ پاور پلگ لگا کر سوئچ آن کی تو بتّی جل اٹھی۔ ٹیسٹر سے ارتھ وغیرہ کی تسلّی کر کے پیندے کو ہاتھ لگایا تو گرم بھی ہو رہی تھی۔شوہر شور مچاتا اور استری لہراتے ہوئے کچن میں گیا جہاں بیگم صاحبہ رات کے کھانے کی تیاری کررہی تھی اور بولا۔۔ٹھیک ہو گئی بیگم،استری ٹھیک ہو گئی،تھرمو سٹیٹ ایڈجسٹ کر دیا،دیکھو گرم بھی ہو رہی ہے۔اس نے کچھ دیر حیرت سے استری کو دیکھا پھرشوہر کو اچھی طرح گھورا اور لاپرواہی سے بولی۔۔یہ ہمسائیوں کی استری ہے جو پہلے ہی ٹھیک تھی، اپنے والی اسٹور میں پڑی ہے۔ اسے ٹھیک کرنا تھا۔۔اب خود سوچیں شوہر کے غصے کا کیا حال ہوگا؟ ہمارے پیارے دوست نے اپنے غصے کا ایک واقعہ سناتے ہوئے بتایاکہ۔۔بائیک پر جاتے ہوئے ایک انکل اور آنٹی پر نظر پڑی ،وہ کافی پریشانی کے عالم میں آتے جاتے لوگوں کی طرف مدد طلب نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ میں نے رک کر وجہِ پریشانی پوچھی تو کہنے لگے۔۔کار لاک ہے اور چابی اندر ہی رہ گئی ہے۔ان کی بات سن کے میرے اندر کا ہیرو جوش میں آگیا۔ میں نے کافی دیر تک سوچنے کے بعد حل نکالا۔کار کے دروازے کے شیشے کے اوپر سے ربڑ ہٹایا۔اور ایک دھاگے کو ڈھیلی گرہ ڈال کے وہاں سے اندر ڈالااور کافی تگ و دو کے بعد دھاگے کی گرہ کھڑکی کے لاک میں پھنس گئی۔اس کے بعد جھٹکے سے دھاگا کھینچا تو لاک کھل گیا۔۔میں نے انکل کی طرف شکریہ طلب نظروں سے دیکھاتو انہوں نے میرا شکریہ ادا کیا۔میں اپنے آپ کو ایک کامیاب ہیرو محسوس کرتے ہوئے جانے لگاتو ان کی بیوی کی سرگوشی واضح طور پر مجھے سنائی دی۔۔پکا چور لگتا ہے ۔۔

اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ہر پاگل کہتا ہے کہ وہ پاگل نہیں ہے، آپ بتائیں کیا آپ پاگل ہیں؟؟ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں