تحریر: رؤف کلاسرا۔۔
دنیا ٹی وی کا پروگرام تھنک ٹینک دیکھ رہا تھا۔ میرے موسٹ فیورٹ ایاز امیر سمیت دوست خاور گھمن، سلمان غنی، حسن عسکری اچھی گفتگو کرتے ہیں۔بحث ویڈیو اور آڈیو لیکس پر ہورہی تھی۔ پروگرام کی میزبان مریم ذیشان نے سوال کیا اس نئے ٹرینڈ کے کیا اثرات ہوں گے اور سیاست مزید منفی ہوگی؟تقریبا سب کا یہی خیال تھا کہ سیاست مزید منفی ہوگی، لوگ سیاست سے دور ہوں گے۔ نئی نسل ان سیاستدانوں کو اپنا رول ماڈل نہیں مانے گی۔ عسکری صاحب کہنے لگے علامہ اقبال مغربی سیاست کو اخلاقیات سے خالی سمجھتے تھے کیونکہ مغرب اخلاقی بینادوں سے زیادہ مادہ پرستی پر قائم تھا۔ وہاں مورالٹی کا تصور نہیں۔
بڑے ادب سے اختلاف کی جرات کروں گا کہ یہ کس نے کہا ہے مغربی جمہوریت میں اخلاقیات کا کوئی تصور نہیں ہے اور ہم مسلمان اس معاملے میں بہت آگے ہیں؟مغربی ممالک میں سیاست میں اخلاقیات اتنی حاوی ہیں کہ بندے اسٹور کھول لے لیکن سیاستدان نہ بنے۔ وہاں چھوٹا سا سکینڈل آتے ہی وزیراعظم تک کو استحفی دینا پڑتا ہے۔ مغربی ملک کی وزیر تعلیم کی خبر باہر نکلی اس کے بچے گھر پر ٹیوشن لے رہے تھے تو اسے استحفحی دینا پڑ گیا۔ ایک وزیر بارے پتہ چلا اس نے ہوم آفس سے اتنا پوچھ لیافلاں ویزہ کب تک جاری ہوگا تو اسے استحفی دینا پڑا۔ Brexit پر ریفرنڈم ہوا جس سے برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کمیرن نے استحفی دے دیا کہ انہیں وہ ووٹ نہیں ملے جو وہ توقع رکھتے تھے۔ کوئی مجبوری نہ تھی وہ استحفی دیتے پھر بھی ذمہ داری قبول کی اور گھر چلے گئے۔ ایک اور مغربی ملک کی خاتون وزیراعظم کو ایک ایسے سکینڈل کا سامنا کرنا پڑا کہ وہ جو ناشتہ کرتی رہی وہ سرکاری خرچ تھا۔ اوبامہ سے سوال ہوا کہ آپ وائٹ ہاوس رہتے ہیں آپ کے تو مزے ہوں گے سب کچھ مفت ملتا ہوگا۔ اوبامہ فورا بولا رکیں رکیں آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ میری بیوی مشعل میری تنخواہ سے سب گروسری کرتی ہے۔ مہمانوں کے لیے جوس چائے ہم اپنی تنخواہ سے خریدتے ہیں۔ ہم اپنے برش اور پیسٹ تک خود خریدتے ہیں۔ بل کلنٹن پر مونیکا لیونسکی کا الزام لگا تو دنیا کے طاقتور صدر ہوتے ہوئے بھی ٹرائل شروع ہوا اور پوری دینا میں لائیو دکھایا گیا کہ اگر ان کا صدر جھوٹ بولے گا تو اس کا بھی ٹرائل ہوگا۔اس طرح جب امریکی صدر نکسن کا واٹرگیٹ سامنے آیا تو انہیں بھی استحفی دے کر گھر جانا پڑا۔
جنوبی کوریا کے ایک وزیراعظم نے اس وجہ سے استحفی دے دیا کہ دور سمندر میں ایک کشتی جس میں سکول کے بچے سوار تھے وہ ڈوب گئی۔ وزیراعظم نے اس حادثے کو اپنی ناکامی اور ذمہ داری سمجھی اور کہا وہ اور کچھ نہیں کرسکتے لیکن والدین کا دکھ دور کرنے کے لیے استحفی دے رہے تھے۔ایسی سینکڑوں مثالیں دی جاسکتی ہیں کہ مغربی جمہوریت تو کھڑی اخلاقیات پر ہے۔ جمہوریت کا جنم بھی اس لیے ہوا تھا بادشاہ جو خود کو کبھی غلط نہیں سمجھتے تھے وہ بھی عدالت میں لائیں جائیں۔ بادشاہوں کا بھی ٹرائل ہوسکتا ہے۔ یہ سبق جمہوریت نے ہی دیا۔ آج جمہوری ملکوں میں سب حکمران جواب دہ ہیں۔ وہ سسٹم نہیں رہا کہ سزائیں صرف عوام کو ملیں گی کیونکہ بادشاہ کبھی غلطی کر ہی نہیں کرسکتا۔ ان پچھلے سو برسوں میں دیکھ لیں کتنے بادشاہوں کو سزائیں ملیں اور انہیں جواب دینا پڑا۔ اس سے بڑی اخلاقیات کیا ہوگی کہ آپ اگر جھوٹ بولتے بھی پکڑے جائیں تو آپ کی خیر نہیں ہے اور ہم پھر بھی کہہ رہے ہیں کہ مغربی جمہوریت میں اخلاقیات نہیں ہے؟
اب اگر ہم مسلمان ملکوں کو دیکھیں تو کیا ان ملکوں میں آپ کو وہ اخلاقیات ملتی ہیں جن کا ہم رونا روتے ہیں؟ باقی چھوڑیں ہمارا مذہب کہتا ہے صفائی نصف ایمان ہے۔ آپ کوئی ایک شہر یا جگہ بتا دیں جہاں یہ نصف ایمان آپ کو نظر آرہا ہو؟ کوئی سڑک ،پلاٹ، کوئی شہر دکھا دیں جہاں گند اور گندگی نہ ہو۔ کبھی کسی مسجد کی لیٹرین کو دیکھ لیں اندازہ ہو جائے گا ہم صفائی کو کتنی اہمیت دیتے ہیں۔
دوسری طرف میرے دوستوں کا کہنا تھا کہ ان اڈیو ویڈیو لیکس سے لوگ سیاست سے دور ہوں گے اور اس کا نقصان سیاست اور سیاستدانوں کو ہوگا۔ یقینا یہ سب دوست درست کہہ رہے ہیں۔ لیکن ایک اور پہلو بھی دیکھ لیں یہی سیاستدان چاہتے ہیں کہ ایک عام بندہ سیاست سے بیزار رہے اور جتنی ووٹنگ شرح کم ہوگی الیکشن کو manage کرنا اتنا کے لیے آسان ہوگا۔ لوگ الیکشن پراسس سے دور رہیں تو بہتر ہے۔ عمران خان کی وجہ سے بڑی تعداد میں نوجوان نسل سیاست میں داخل ہوئی اور بڑی ایکٹو ہوئی۔ لیکن وہی نسل اور اربن کلاس عمران خان حکومت مسلسل ناکامی کی وجہ سے سیاست اور سیاستدانوں سے پہلے زیادہ نفرت ڈویلپ کر چکے ہیں۔ وہ عمران خان کو آخری امید سمجھتے تھے اس لیے سیاست میں دل چسپی لینے لگے۔ لیکن اب تین سال بعد پتہ چلا ہے کچھ فرق نہیں پڑنے والا کہ وہی لوگ جو اس ملک کی بربادی میں حصہ دار تھے وہ پارٹیاں بدل کر عمران خان ساتھ مل گئے تھے۔ یوں نوجوان نسل بھی مایوس ہوئی اور وہ کلاس بھی جس نے عمران خان کی وجہ سے سیاست میں حصہ لینا شروع کیا تھا۔
میرا اپنا خیال ہے پاکستانی قوم نے تین مواقع پر پاکستانی لیڈران پر اعتماد کیا۔ پہلے 1940 میں قائداعظم پر قرارداد پاکستان وقت اعتماد کا اظہار کیا گیا۔ قائد کے بعد قوم کو پھر تیس سال لگے اور بھٹو پر اعتماد کیا کہ وہ انقلاب لا سکتے ہیں۔ بھٹو کا انقلاب بھی ناکام ہوا کہ بھٹو جن طاقتوں کے خلاف کھڑے تھے انہی کو ساتھ ملا لیا۔ لوگ پھر انقلاب سے مایوس ہوئے۔ عام لوگ سیاست سے دور ہوگئےاور پھر تیس سال بعد عوام نے عمران خان کو سیریس لیا کہ وہ انقلاب لائیں گے۔
اس درمیان میں عوام کو کسی اور لیڈر سے امید نہ رہی۔ لیکن اب عمران خان کی ناکامی بعد یہ قوم اگلے تیس چالیس سال تک کسی اور سیاستدان پر اعتبار نہیں کریں گے اور یہی ہمارے حکمران اور سیاستدان اور اسٹیس کو کے طاقتور لوگ چاہتے ہیں کہ عام لوگ سیاست کو صرف ووٹ کی حد تک محدود رہیں نہ کہ وہ بھٹو صاحب یا عمران خان کی طرح پاپولر قیادت کا روپ دھار کر اسٹیٹس کو اور روایتی سیاستدان کے لیے خطرات بن جائیں۔ بھٹو اور عمران خان بھی اس لیے ناکام ہوئے کیونکہ وہ جن طاقتوں کے خلاف ابھرے اپنی حکمرانی کو بچانے کے لیے انہی فورسز کے سامنے جھک گئے اور یوں انقلاب ٹھس ہوگیا۔
اس لیے اگر آڈیو وڈیو لیکس سے نوجوان نسل یا اربن کلاس متنفر ہوگی اور سیاست سے دور ہوگی تو یہ ان قوتوں کی جیت ہوگی جو چاہتے ہیں کہ عوام صرف انہیں ووٹ ڈال کر حکمرانی دے کر بھول جائے نہ کہ وہ جمہوریت کے نام پر انہیں سوال یا چیلنج کرنا شروع کر دیں۔
لہذا سیاست سے بددلی کا فائدہ انہیں ہوگا جو لیکس لیکس کھیل رہے ہیں۔ میجر عامر سناتے ہیں کہ انہوں نے اپنے ایک طاقتور دوست کو کہا تھا کہ تم ویسے اچھے انسان ہو لیکن تمہارا میڈیا اور معاشرے میں امیج اچھا نہیں ہے۔ تم اپنا امیج اچھا کیوں نہیں کرتے؟ میجر عامر کا وہ طاقتور دوست بولا آپ کی مہربانی آپ میرا امیج ٹھیک نہ کریں۔ میرے اس برے امیج کی وجہ سے سب ڈرتے ہیں اور میرا کام نہیں رکتا۔ اگر امیج اچھا ہوگیا تو ہر بندہ گھر پر حملہ کرنے پہنچ جائے گا۔
یہی اپروچ ان سیاستدانوں کی ہے کہ ان کا بدمعاش امیج ہی ان کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ انہیں بار بار حکمران بناتا ہے۔ شریف بندے کو کون ووٹ دیتا ہے۔یہ قوم لیٹروں، چوروں، منی لانڈر اور لیکس کی فین اور شوقین ہے۔ ان حکمرانوں اور سیاستدانوں کو بھی یہی امیج سوئٹ کرتا ہے۔غور فرمایا آپ نے؟(بشکریہ دنیا)۔۔