تحریر: شکیل بازغ۔۔
شمشیر اٹھانے کے وقت ، پھولوں کو تھامنے والی قومیں دشمن کا تر نوالہ ہوتی ہیں چمن راکھ ہونے کے ساتھ ہی وہ پھول ان کے مُردہ سینوں پہ پڑے سوکھ جاتے ہیں۔ یہ دنیا زور والوں کی ہے۔ امن زور سے ہی لایا جا سکتا ہے۔ اور زور شمشیر نیام میں زنگ آلود کرنے کا نام تو بالکل نہیں۔ پہلے شمشیر نیام سے باہر امن لانے کیلئے رکھی جاتی ہے۔ اور بعد میں امن کا تسلسل قائم رکھنے کیلئے۔ حاکم دشمن سے جا ملے تو پھر شمشیر شہر کے شیروں کے خلاف استعمال ہوتی ہے۔ ہمارے زوال کی یہی کہانی ہے
علامہ محمد اقبال کا یہ شعر
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستاں والو
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
کل کے ہندوستانی مسلمانوں کیلئے تھا اور آج تمام دنیا کے مسلمانوں کے لئے ہے۔جب ایمان مضبوط تھے رگوں میں غیرت خون سے زیادہ تھی۔ تب اسلام تخت پر تھا۔ انصاف کی حکمرانی تھی اور مخلوق خدا سُکھی تھی۔ آج ایمان کو مادیت پرستی عیش و عشرت کا طمع ، معاشی استحکام اور جدت پسندی کے ڈھکوسلے نے مندمل کر دیا۔ حال یہ کر دیا کہ اسلام کے سچے ماننے والے جہاد کر رہے ہیں۔ اور ان کے مقابل کم و بیش 2 ارب مسلمان اپنی مستی میں گُم ہیں قتل ہورہے ہیں بے آبرو ہو رہے ہیں۔ غزہ اور افغانستان کے علاوہ کم و بیش ہر جگہ اسرائیلی قبضے میں ہے۔ اسلام سے بے رغبتی اور ہماری بے ایمانی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مسلم ممالک پر صیہونی قوتوں کے بٹھائے کارندے حکمران بن کر محض صیہونی مفادات کے فروغ کیلئے ہر وہ کام کر رہے ہیں جس کے بارے ہمارے اسلاف سوچنا بھی کبیرہ گناہوں سے بڑھ کر مانتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ دلوں میں ایماں کی حرارت نہ ہونے کے باعث روئے زمیں پر اب مسلم کُشی ایک فیشن بن چکا۔ یہودیوں کی مقدس سمجھی جانے والی کتابوں میں یہ درج کیا جا چکا ہے کہ غیر یہود تمام انسان خدا کے نافرمان ہیں اور انہیں مرجانا چاہیئے ڈی پاپولیشن پالیسیز میں بیماریاں پھیلانا، قحط سالی، انسان کُش ادویات، ظلم و بربریت، قتل عام جیسے انسانیت سوز حربے جاری ہیں۔ عالم اسلام پر مسلط یہ جنگیں مسلمانوں تک محدود نہیں رہنی بلکہ ایک ایک کر کے تمام غیر یہود قوموں کو روئے زمین سے مٹا کر محض کم و بیش ایک ارب یہودی و دجالی پیروکاروں کو سیاہ و سفید کا مالک بنانا ہے۔ گریٹر اسرائیل ہو یا گلوبل ولیج یہ تمام منصوبہ بندی ایک ہی کاز کی طرف بڑھنا ہے۔ ایک آئین کے تحت ایک عالمی یہودی (دجالی) حکومت کا قیام۔
بڑی سرعت سے لبادہ شرافت کا اوڑھ کر جو دنیا کو نئی تہذیب کے کھوکھلے استعارہ انسانیت کا سبق پڑھا پڑھا کر بھیگی بلی بنا رہے تھے۔ ایسا ہوجانے کے بعد ہوا یوں کہ ہم نے ہر جگہ ہتھیار ڈال کر پھول اٹھا لیئے۔ پھر یہودونصارٰی نے ہر جگہ ہم انسانیت کا انکا دیا علم تھامنے والوں پر آگ برسا دی ہم ہمارے بڑے اور ہمارے بچے جل گئے شہید ہوگئے۔ غزہ اس وقت مسلم کشی کا ایک اور میدان بنا ہے۔ اطراف میں مسلم عرب ممالک کے ہوتے ہوئے کم و بیش پینتیس ہزار نفوس شہید کئے جاچکے جن میں زیادہ تر بچے ہیں۔ عرب ممالک کو ہم مشرق والے کوستے رہتے ہیں لیکن حالیہ واقعات میں ہمارے حکمرانوں کی اپنی بے حسی اور عوام کی بے رغبتی کھل کر سامنے آگئی۔ ادھر غزہ پناہ گزینوں کی آخری پناہ گاہ رفح پر بھی صیہونیوں کی بمباری جاری ہے۔ اور مسلم دنیا کے ناجائز صیہونی نواز ابنالوقت حکمران زبانی کلامی۔مذمتوں اور افسوس کا اظہار کرتے نظر آرہے ہیں۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا میں دو قومیں بچی ہیں ایک وہ جو غیرت ایمانی کے جذبے سے سرشار اپنی جانوں کے نذرانے پیش کررہے ہیں۔ اور ایک وہ جنہوں نے بے غیرتی کے جام پی کر صیہونی ظلم و بربریت سے آنکھیں چرارکھی ہیں۔
اسلام دوبارہ غلبہ پائے گا۔ یہ اللہ کا فیصلہ ہے۔ تب اللہ کے سچے بندے جبر پر ایمانی حرارت کے بل بوتے پر یکسو ہوں گے۔ ہم سے بہر حال یہ سوال ہوگا۔ کہ عورتوں بوڑھوں بچوں اور نے ہتھوں کی چیخ پکار سن کر تم نے کیا کیا؟
اللہ مسلمانوں کے سینوں میں اسلام کی عزت و تقدیس بھر دے آمین۔۔واللہ اعلم۔۔(شکیل بازغ)۔۔