تحریر: رؤف کلاسرا۔۔
پاکستانی سیاست اور سیاستدانوں نے جو حشر برپا کر رکھ ہے اس کے بعد تو یہی دل کرتا ہے کہ بندہ کسی طرف منہ کر جائے‘ بلکہ وہ افیمی یاد آتا ہے جو کسی کنویں میں گر گیا توگائوں والے کافی دیر تک اُسے نکالنے کی کوشش کرتے رہے نہ نکال سکے تو اُس نے زور سے آواز دی کہ مجھے نکالتے ہو یا میں کسی طرف منہ کر جائوں۔لیکن اب بائیس کروڑ عوام کس طرف منہ کریں اور نکل جائیں‘ جو اِن سب کے کھودے ہوئے کنویں میں گر چکے ہیں اور نکلنے کی کوئی راہ نہیں سوجھ رہی۔ وہ دو شدت پسند نظریات میں پھنس چکے ہیں اور کہیں سے کوئی راہِ نجات نظر نہیں آتی۔
عمران خان ایک دفعہ پھر پنڈی کو پانی پت کا میدان سمجھ کر دلی کو گھیرا دیے بیٹھے ہیں۔پورا شہر ایک عذاب سے گزر رہا ہے اور کافی برسوں سے گزر رہا ہے۔ اسلام آباد کبھی اشرافیہ کا شہر سمجھا جاتا تھا جہاں سات بجے ہی شام اتر آتی تھی اور نو بجے تک سڑکوں پر ہُو کا عالم ہوتا۔ صاف ستھرا شہر اور صاف ستھری ٹریفک اور لوگ‘ لیکن اب آپ کو لگتا ہے آپ کسی جنگی زون میں رہ رہے ہیں۔ کئی مہینوں سے اس شہر کے اندر اور باہر کنٹینر زرکھے ہوئے ہیں بلکہ دس برس سے زائد عرصے سے رکھے ہوئے ہیں۔ عمران خان حکومت جانے کے بعد یہ کنٹینرز واپس ڈرائی پورٹ پر نہیں گئے اور سڑکوں کے کنارے رکھے ہیں کہ پتہ نہیں کب کون سا گروپ یا پارٹی لانگ مارچ یا مظاہرے کا اعلان کر دے۔
آپ کو کہیں سے نہیں لگتا کہ آپ کسی نارمل شہر میں رہتے ہیں یا نارمل زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ شہر اب اپنا چارم کھو چکا ہے۔ اس کی خوبصورتی اور نظم و ضبط کو نظر لگ گئی ہے۔ اب اس شہر میں ایسے ایسے جرائم ہونا شروع ہوگئے ہیں جوپہلے کبھی سنے نہ تھے۔ اب گن پوائنٹ پر وارداتیں عام ہیں۔ سٹریٹ کرائمز بڑھ گئے ہیں۔ اس شہر کے حالات اس وقت سے خراب ہونا شروع ہوئے جب برسوں پہلے اس شہر کی طرف لانگ مارچ ہونے شروع ہوئے۔ وفاقی حکومتیں بھی اس رجحان کی ذمہ دار ہیں کہ جو مطالبات آپ نے ان گروہوں کے اسلام آباد پہنچ کر پورے کرنے ہیں ا ن کے لیے لوگوں کو اسلام آباد لانے کی کیا ضرورت تھی۔ یوں دھیرے دھیرے اس شہر کی آبادی بڑھنا شروع ہوئی کیونکہ دھرنے اور مطالبات منوانے والوں کو یہ خالی خالی شہر پسند آیا اور اکثر واپس ہی نہیں گئے۔ اگر گئے بھی تو کچھ دن بعد بوریا بستر باندھ کر واپس یہاں پہنچ گئے‘ جن کے پاس نہ کوئی ہنر تھانہ کوئی ایسی تعلیم کہ وہ یہاں کھپ سکتے ؛چنانچہ اب سٹریٹ کرائمز اور ڈکیتیاں بڑھ گئی ہیں۔
اگر آپ اسلام آباد کی آبادی کا جائزہ لیں تو مقامی پوٹھوہاری لوگ اب اقلیت میں ہیں۔ میرے جیسے باہر سے آنے والے اب اسلام آباد کے مالک بن بیٹھے ہیں اور مقامی لوگ الٹا ہم سے نوکریاں مانگ رہے ہوتے ہیں۔خیر اب لوگوں کو چھوڑیں خود عمران خان کو سمجھ نہیں آرہی کہ کیا کریں‘ گزرے چھ سات مہینوں میں جو مقاصد عمران خان نے سیٹ کیے تھے ‘جن کے لیے انہوں نے سب کوششیں کیں‘ بیانیے بنائے‘ جلسے جلوس اور لانگ مارچ کیے‘ وہ نتائج دینے میں ناکام رہے۔وہ الیکشن چاہتے تھے‘ نہیں ملے‘ نومبر سے پہلے وزیراعظم بن کر آرمی چیف لگانا چاہتے تھے نہ لگا سکے۔ پھر جنرل باجوہ کو چھ ماہ کی توسیع کے حق میں تھے تاکہ وہی نئے الیکشن کرائیں‘ لیکن وہ بھی نہ ہوسکا۔ الیکشن کمشنر سے استعفیٰ چاہتے تھے وہ بھی نہ ملا۔تو اب 26 نومبر کو پنڈی میں جلسے جلوس یا دھرنے دینے سے کیا ہو جائے گا کیونکہ جن مقاصد کے لیے یہ میلہ رچایا گیا تھا وہ تو ختم ہوگیا۔ لوگ میلے سے جلیبیاں لے کر گھروں کو روانہ ہوچکے ہیں اور خان صاحب اپنے کھلاڑیوں کے ساتھ میلے کی جگہ پہنچ رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خان صاحب نے اپنی وہ بات درست ثابت کر دی کہ اقتدار سے نکل کر وہ خطرناک ہو جائیں گے۔ وہ واقعی نہ صرف موجودہ حکومت کے لیے خطرناک ہوئے ہیں بلکہ خود اپنے اور پارٹی کے لیے بھی خطرناک نکلے ہیں۔ان چھ ماہ میں حکومت نے بہت کچھ کھویا ہے اور خان نے بہت کچھ پایا ہے۔ اگرچہ شریف خاندان کے حکمران ایک دفعہ پھر ایک نیا آرمی چیف لگانے میں کامیاب ہوئے ہیں‘نئے چیف نے ہی اگلے سال الیکشن کرانے ہیں اور موجودہ چیف الیکشن کمشنر بھی وہی ہوں گے جنہیں لگایا تو عمران خان نے تھا لیکن وہ اب ان کے بھی خلاف ہیں۔ یوں حالات نے کچھ ایسا پلٹا کھایا ہے کہ اہم عہدوں پر اس وقت وہ لوگ تعینات ہیں جن سے خان صاحب کو ذاتی پرخاش ہے۔ یقینی طور پر الیکشن قریب آنے پر عمران خان ان پر سوالات اٹھائیں گے اور انہیں بیک فٹ پر لے جائیں گے لیکن اب سوال یہ ہے کہ اگلے آٹھ ماہ تک عمران خان کیا کریں؟ اب وہ گھر جا کر آرام سے تو نہیں بیٹھ سکتے‘ انہوں نے خود کو آئندہ الیکشن تک Relevantرکھنا ہے‘ اپنی پاپولریٹی کے گراف کو قائم رکھنا ہے‘ شریفوں کی حکومت کو ٹف ٹائم دیے رکھنا ہے۔اس میں کم ہی لوگوں کو شک ہوگا کہ اگر آج کی صورتحال دیکھی جائے تو کوئی کرشمہ ہو جائے تو اور بات ہے ورنہ اس وقت عمران خان آئندہ الیکشن جیتنے کی پوزیشن میں ہیں۔اس لیے وہ آرام سے نہیں بیٹھیں گے‘ انہیں ماضی کے تجربات نے سکھایا ہے کہ انہوں نے کسی کی نہیں سننی اور کوشش کرتے رہنا ہے۔ بائیس سال کی جدوجہد نے انہیں اس بات پر مزید قائل کیا ہے کہ وہ لگے رہیں۔دوسری طرف شریف اور زرداری اس بات پر ہنس رہے ہوں گے کہ چھ ماہ پہلے وہ جیلوں میں تھے‘ سڑکوں پر رُل رہے تھے‘ نیب اور ایف آئی اے کو مطلوب تھے‘ اربوں روپوں کی منی لانڈرنگ کے مقدمات بھگت رہے تھے۔ کہاں ایف آئی اے اور نیب افسران انہیں بلا کر اربوں کی منی لانڈرنگ پر سوالات کررہے تھے اور وہی افسران آج انہیں سلیوٹ کررہے ہیں۔
اس میں عمران خان کی جلدی کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ نواز شریف اور عمران خان میں بہت سی باتیں اور مزاج ملتا ہے۔ عمران خان کا اس وقت جو مزاج ہے یہی مزاج نواز شریف کا پہلی دفعہ وزیراعظم بننے کے بعد غلام اسحاق خان اورجنرل آصف جنجوعہ سے تھا۔ وہ بھی اُس وقت عمران خان کی طرح کا سٹینڈ لیے ہوئے تھے۔اگرچہ وقت گزرنے کے ساتھ بھی نواز شریف نے سبق کم ہی سیکھا بلکہ بڑی محنت سے وہ عمران خان کو اپنی کرسی پر بٹھا کر خود اڈیالہ جیل جا پہنچے۔یاد پڑتا ہے کہ جن دنوں ریاستی اداروں اور نواز شریف کے درمیان لڑائی عروج پر تھی نواز لیگ سے ایک اہم بندے نے میجر عامر سے درخواست کی کہ آپ کی بات نواز شریف مانتے ہیں اور آپ کے بارے مشہور ہے کہ آپ لوگوں کو اپنی باتوں سے قائل کر لیتے ہیں تو ذرا یہ ہنر وزیراعظم نواز شریف صاحب پر بھی آزمائیں جو اس وقت سیاسی خودکشی پر تلے ہوئے ہیں۔میجر عامر کی وزیراعظم نواز شریف سے طویل ملاقات ہوئی۔ واپسی پر اس سیاسی دوست نے پوچھا سنائیں کیا بنا؟ میجر عامر نے تاریخی جواب دیا کہ میں نے تو بڑی کوشش کی‘ قرآن پاک کی آیتیں بھی میاں صاحب کو سنا ئیں لیکن جب کوئی وزیراعظم سیاسی خودکشی پر تلا ہوتو پھر اس پر کسی کا اثر نہیں ہوتا۔ میجر عامر کا کہنا تھا ‘ نواز شریف طے کیے بیٹھے ہیں کہ انہوں نے وزیراعظم ہاؤس میں اپنی کرسی پر عمران خان کو لا کر بٹھانا ہے اور خود سڑکوں پر جا کر پوچھنا ہے‘ مجھے کیوں نکالا۔
خیر میجر عامر جو‘ خود پشتون ہیں‘ اکثر ہنستے ہوئے کہتے ہیں کہ عمران خان کو ایک داد تو دیں کہ اس غیرت مند پٹھان نے نواز شریف کا قرض نہیں رکھا اور جتنی محنت سے نواز شریف نے انہیں اپنی کرسی پر بٹھایا تھا اس سے زیادہ محنت سے انہوں نے شہباز شریف کو وزیراعظم بنوا کر اپنی کرسی پر بٹھایا اور خود سڑکوں پر نکل گئے۔واقعی غیرت مند کسی کا ادھار نہیں رکھتے۔(بشکریہ دنیانیوز)