تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو،غریب وزیراعظم صرف ہمارا نہیں، جس نے ایف بی آر کی تازہ رپورٹ کے مطابق دو لاکھ سے کچھ زائد ٹیکس دیا، بلکہ برطانوی وزیراعظم تو ہمارے وزیراعظم سے بھی زیادہ غریب نکلے۔ ایک رپورٹ کے مطابق برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کی آمدنی، تنگ دستی اور نجی دوستوں کے ساتھ ملاقات اور کھانے پر اٹھنے والے اخراجات کے متعلق ایک ایسی خبر سامنے آ گئی ہیں کہ ہمارے جیسے ملک کے شہری سن کر ورطۂ حیرت میں مبتلا ہو جائیں گے۔ برطانوی اخبار نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ وزیراعظم بننے کے بعد بورس جانسن کی آمدنی میں دو تہائی سے زیادہ کمی واقع ہو گئی ہے اور وہ ہمہ وقت تنگ دستی کا رونا روتے نظر آتے ہیں۔ اپنی مضافاتی رہائش گاہ اور 10ڈاؤننگ اسٹریٹ میں جب وہ اپنے دوستوں اور فیملی کے لوگوں کو بلاتے ہیں تو ان کے کھانے کا بل خود وزیراعظم کو دینا پڑتا ہے، چنانچہ وہ بہت سستا کھانا آرڈر کرتے ہیں اور گاہے مہمانوں سے کہتے ہیں کہ ’’پورا کھانا ختم کیجیے کیونکہ مجھے اس کا بل ادا کرنا ہے‘‘۔معروف صحافی اینڈریو پرائس نے اخبار میں لکھے گئے اپنے آرٹیکل میں بتایا ہے کہ ’’میں نے بھی وزیراعظم کی میزبانی کا مشاہدہ کر رکھا ہے۔ انہوں نے جو کھانا ہمیں کھلایا تھا وہ کچھ خاص نہیں تھا۔ اصل سانحہ یہ ہے کہ وزیراعظم بورس جانسن نجی مہمانوں کو اچھا کھانا کھلانا افورڈ ہی نہیں کرسکتے۔ میں آئندہ وزیراعظم کا کوئی دعوت نامہ قبول نہیں کروں گا کیونکہ میرے خیال میں یہ غیرمنصفانہ ہے کہ انہیں ہمیں اپنی جیب سے کھلانا پڑتا ہے اور اس کے بدلے انہیں کوئی رقم نہیں ملتی۔‘‘ رپورٹ کے مطابق وزیراعظم بورس جانسن کی مالی حالت ناگفتہ بہ ہونے کی دو وجوہات بتائی جاتی ہیں۔ پہلی ان کا وزیراعظم بننا اور دوسری وجہ ان کی دوسری بیوی سے طلاق ہونا ہے۔ وزیراعظم بننے کے بعد ان کی آمدنی بہت زیادہ کم ہو گئی اور دوسری اہلیہ میرینا وہیلر کے ساتھ طلاق کے تصفیے میں انہیں بہت سی رقم سے ہاتھ دھونا پڑ گئے اور وہ کنگال ہو کر رہ گئے تھے۔ وزیراعظم جانسن کے ایک دوست کا کہنا ہے کہ ’’اس کے بعد سے وزیراعظم جانسن اکثر مالی تنگدستی کا رونا روتے رہتے ہیں۔ایک ایسا آدمی جو ہمیشہ سے فیاض اور کھلے دل کا مالک رہا ہو، اس کے لیے اس طرح کی مالی حالت میں ایڈجسٹ کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ پہلے وہ مختلف اخباروں کے لیے کالم لکھتے تھے اور ان سے اچھی خاصی آمدنی ہو جاتی تھی۔ اب وزیراعظم کی حیثیت میں وہ کالم بھی نہیں لکھ سکتے اور ان کی بطور وزیراعظم تنخواہ بھی دیگر ممالک کے سربراہوں کی نسبت بہت کم ہے۔ جرمن چانسلر کی تنخواہ 3لاکھ 20ہزارپاؤنڈ ہے جبکہ بورس جانسن کو صرف ڈیڑھ لاکھ پاؤنڈ تنخواہ ملتی ہے‘‘۔وزیراعظم کے اس دوست کا کہنا تھا کہ ’’ہم بورس جانسن کو دلاسا دیتے ہیں کہ گھبراؤمت، جب تم ڈاؤننگ اسٹریٹ سے نکلو گے تو ٹونی بلیئراور ڈیوڈ کیمرون کی طرح بہت رقم کماؤگے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی جانب سے ارکان پارلیمنٹ کی سال 2018ء کی ٹیکس ڈائریکٹری جاری کر دی گئی ہے۔ایف بی آر کی جانب سے جاری کی گئی ڈائریکٹری کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے 2018ء میں 2 لاکھ 82 ہزار 449 روپے ٹیکس دیا جبکہ پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر اور قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے 97 لاکھ 30 ہزار 545 روپے اور پاکستان پیپلز پارٹی کے صدر آصف زرداری نے 28 لاکھ 91 ہزار 455 روپے ٹیکس دیا۔وزرائے اعلیٰ میں وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے ایک روپیہ بھی انکم ٹیکس نہیں دیا۔ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ محمود خان نے 3 لاکھ 63 ہزار، وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال نے 48 لاکھ جبکہ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے 8 لاکھ 89 ہزار روپے ٹیکس دیا۔ایف بی آر کی جانب سے ٹیکس جمع نہ کروانے والوں کی بھی فہرست جاری کی گئی ہے جس کے مطابق سینیٹر فیصل جاوید، سینیٹرشمیم آفریدی، سینیٹر رانا مقبول احمد نے کوئی ٹیکس جمع نہیں کروایا ہے۔دوسری جا نب نورالحق قادری، زاہد اکرم درانی، شیرعلی ارباب، ایم این اے بشیرخان، محمد ساجد بھی ٹیکس ادا نہ کرنے والوں میں شامل ہیں۔آپ خود سوچیں جہاں ارکان پارلیمنٹ ٹیکس جمع نہ کرائیں وہاں عوام کیا خوشی سے ٹیکس دے گی؟ پھر روتے رہتے ہیں کہ وسائل نہیں،حکومت کیسے چلائیں۔ اس وقت مہنگائی جس انتہا کی جانب گامزن ہے لگتا ایسا ہے کہ حکومت کی ترجیحات میں مہنگائی کو روکنا شامل ہی نہیں ہے۔ذخیرہ اندوزوں، بلیک مافیا کو کس نے منہ دینا ہے؟ پرائس کنٹرول کس نے کرنے ہیں؟ یہاں تو یہ حال ہے کہ ادویات کی قیمتوں میں دوسوباسٹھ فیصد اضافے کی نرالی وجہ یہ سامنے آتی ہے کہ اس طرح ادویات مہنگی کرنے سے ہم نے ادویات کی دستیابی کو یقینی بنایا ہے۔حکومت کی گورننس کا یہ حال ہے کہ پٹرول سستا کرتی ہے تو ملک بھر سے پٹرول غائب کردیا جاتا ہے۔چینی مافیا پر ہاتھ ڈالا جاتا ہے تو چینی پیٹرول کے نرخ کو جاپہنچی۔۔آلو ستر روپے، پیاز ستر روپے، ٹماٹر ڈیڑھ سو روپے، آٹے کا بیس کلوکا تھیلا پندرہ سو کا ہوگیا یعنی آٹا فی کلو پچھتر روپے کا ہوگیا۔۔دودھ ایک سوبیس روپے کلو میں دستیاب ہے۔۔چینی 105 روپے کلو مل رہی ہے۔ ستمبر کے آخری ہفتے میں بھی ٹماٹر، پیاز، آٹا، چینی، مرغی اور انڈوں سمیت 24 اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بڑھ گئیں۔ادارہ شماریات کے مطابق جولائی سے ستمبر تک مہنگائی کی شرح 8 اعشاریہ 85 فیصد رہی لیکن ستمبر میں مہنگائی کی شرح 9 اعشاریہ 04 فیصد پر پہنچ گئی، ایک ماہ میں ٹماٹر کی قیمت 40 فیصد اور دیگر سبزیوں کی قمیت 35 فیصد تک بڑھیں۔ادارہ شماریات کی سرکاری ہفتہ وار رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایک ہفتے کے دوران 24 اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔رپورٹ کے مطابق پیاز کی اوسط قیمت 11 روپے 55 پیسے فی کلو بڑھی جب کہ ٹماٹر کی قیمت میں 9 روپے 88 پیسے کلو کا اضافہ ہوا اور اوسط قیمت 110 روپے 22 پیسے ہو گئی۔ادارہ شماریات کے مطابق دال مونگ 3 روپے 19 پیسے فی کلو مہنگی ہوئی اور دال مونگ کی اوسط قیمت 243 روپے 52 پیسے فی کلو رہی۔رپورٹ کے مطابق ایک ہفتے کے دوران زندہ چکن 4 روپے فی کلو جب کہ انڈے 4 روپے فی درجن مہنگے ہوئے۔ستمبر کے آخری ہفتے کے دوران چینی اور آٹے کی قیمتوں میں بھی اضافہ جاری رہا جب کہ ایل پی جی کا ساڑھے 11 کلو کا گھریلو سلینڈر 10 روپے تک مہنگا ہوا۔اس کے علاوہ گھی، دال چنا، دال مسور، بیف، چاول، گُڑ اور خشک دودھ کی قیمتوں میں بھی اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔خوش حالی کا بہترین فارمولہ یہ ہے کہ جو نعمتیں تمہیں ملی ہیں ان پر رب تعالی کا شکر اداکرو۔۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔