تحریر: صدام طفیل ہاشمی
مجھے کچھ پیسوں کی ضرورت ہے، اس نوجوان نے التجائیہ نگاہوں سے میری جانب دیکھا۔ ارے بھئی کوئی مسئلہ نہیں بتائو کتنے پیسے چاہئیں؟ شعبہ صحافت میں اتار چڑھائو آتے رہتے ہیں، اس لیے اکثر ساتھی ایک دوسرے کی مدد سے کسی نہ کسی طرح گزر اوقات کرہی لیتے ہیں۔میرا خیال تھا کہ پانچ، دس یا بیس ہزار تک کا تقاضا کیا جائے گا لیکن رقم سن کر میں چونک گیا۔ اس نوجوان نے ایک لاکھ روپے کی درخواست کی۔ میں نے اس کی جانب دیکھتے ہوئے کہا کہ میں بھی تمھاری طرح ایک صحافی ہوں، اتنی رقم کا فوری انتظام کیونکر ممکن؟
یہ مکالمہ جن محترم سے جاری تھا وہ نجی ٹی وی کے ایک رپورٹر ہیں اور ابھی میڈیا میں کام کرتے انھیں زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔ ذہین و محنتی نوجوان سے میں اس کے زمانہ طالب علمی کے دور سے واقف ہوں۔ یہ نوجوان جامعہ کراچی کا ہونہار طالب علم رہا اور فنون لطیفہ سے گہری وابستگی کے باعث یونیورسٹی میں خاصا مقبول تھا۔ تعلیم کے ساتھ دیگر طلبا کی تربیت کے لیے ورک شاپس کا انعقاد، تقریری مقابلوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا اور اسٹیج ڈراموں کے انعقاد کے ساتھ ان میں اداکاری کے جوہر دکھانا، اس کی قابلیت کا واضح ثبوت ہے۔اس نوجوان نے اس دور میں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کا کردار ایک اسٹیج ڈرامے میں نبھایا جب کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ کسی بھی آفت کی صورت میں یہ نوجوان جامعہ کراچی کے طلبا کو جمع کرکے مدد کے لیے پہنچ جاتا۔ ماضی میں سیلاب زدگان کی مدد میں بھی یہ پیش پیش رہا۔ ایسے نوجوانوں کی مدد کے لیے میں ہمیشہ تیار رہتا ہوں، پر اتنی رقم کا فوری انتظام میرے لیے ممکن نہ تھا۔ میں ابھی تک حیرت زدہ تھا کہ آخر ماجرا کیا ہے۔ میں نے اس کی جانب دیکھا اور پوچھ ہی لیا کہ اچانک اتنی رقم کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
اس نے جواب دیا کہ مجھے جامعہ کراچی سے اپنی ڈگری حاصل کرنی ہے، کیونکہ میں آگے پڑھنا چاہتا ہوں۔ کیا تمہیں ابھی تک ماسٹرز کی سند نہیں ملی؟ نہیں بھائی، کیونکہ گھریلو حالات درست نہ تھے، والد صاحب سرکاری نوکری ایمانداری سے نبھا کر ریٹائر ہو چکے ہیں، میں اپنی فیس ادا نہیں کر پایا، اس لیے جامعہ کراچی کی انتظامیہ نے میری ڈگری روک رکھی ہے۔
میرے ٹی وی چینل میں بھی مجھ سے ڈگری کا مطالبہ کیا جا رہا ہے اور میں ایم فل میں داخلہ لے کر آگے پڑھنا چاہتا ہوں۔ دو سال سے میں نوکری کرکے بزرگ والدین کو پیسے دیتا ہوں اور کچھ رقم پس انداز کر لیتا تھا تاکہ ڈگری کا حصول ممکن ہوسکے۔ آپ تو جانتے ہی ہیں میں ٹی وی چینل کے علاوہ بھی ایک جگہ نوکری کررہا ہوں تاکہ والدین اور چھوٹے بہن بھائیوں کو پال سکوں۔ مشکل یہ ہے کہ فیس کی رقم کے ساتھ لیٹ فیس سرچارج بھی لگ چکے ہیں۔ ایک بڑی رقم دینے کے بعد ہی ڈگری ملے گی۔
کیا جامعہ کراچی میں اسکالرشپ وغیرہ نہیں دی جاتی؟ میں نے پوچھا۔ پوچھنے کی وجہ یہ تھی کہ میں صحافت کے ساتھ خود بھی درس و تدریس کے شعبہ سے منسلک ہوں اور مختلف یونیورسٹیوں میں نہ صرف لیکچر دیتا ہوں بلکہ وزیٹنگ فیکلٹی کی حیثیت سے بطور معلم پڑھاتا بھی ہوں۔ دو سال پیشتر امریکا کی معروف یونیورسٹی آف لوئیزیانہ ایٹ لیفیٹ میں بھی بلاوے پر لیکچر دے چکا ہوں۔
میڈیا اور کمیونیکیشن کے حوالے سے قائم عالمی تنظیم امریکن کمیونیکیشن ایسوسی ایشن کا ممبر ہونے کی حیثیت سے دنیا کی معروف یونیورسٹیوں کے پروفیسر حضرات سے مستقل رابطہ رہتا ہے۔ اس لیے واقف ہوں کہ دنیا بھر کی معروف یونیورسٹیوں کا اصل مقصد کمائی کے دھندے کے بجائے علم کا فروغ ہوتا ہے۔ اس باعث وہاں نیڈ بیسڈ اسکالرشپس طلبا کو مہیا کی جاتی ہیں۔ وہ طالب علم جو فیس ادا نہیں کرپاتے انھیں اسکالرشپ کی مدد سے تعلیم جاری رکھنے کے مکمل مواقع ہر وقت میسر ہوتے ہیں، تاکہ غربت کے باعث تعلیم کا سلسلہ منقطع نہ ہونے پائے۔
بہرحال میرے سوال کے جواب میں اس نے انکار میں سر ہلاتے ہوئے اداسی سے کہا کہ اگر جامعہ کراچی کی انتظامیہ کو احساس ہوتا تو شاید وہ اسکالرشپ کے نام پر ہی لیٹ فیس کی مد میں لگایا گیا سود معاف کردیتے۔میں سوچنے پر مجبور تھا کہ ایک جانب ہم شرح خواندگی میں کمی کا رونا روتے رہتے ہیں اور دوسری جانب جامعہ کراچی جیسی معتبر سرکاری یونیورسٹی میں غریب طلبا کا استحصال کیا جاتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ انتظامیہ کی جانب سے نوکریوں کے حصول کی خاطر طلبا کے لیے ایچ آر پلیسمنٹ سینٹر تک قائم نہیں، جو اداروں اور جامعہ کے درمیان پل کا کام کرے۔ 2013 میں الیکشن کے دوران جامعہ کے کچھ طلبا نے مجھ سے رابطہ کیا تاکہ وہ کسی ٹی وی چینل کے الیکشن سیل میں تربیت حاصل کرسکیں۔
میں نے ایک نجی ٹی وی کے الیکشن سیل انچارج سے اس حوالے سے درخواست کی تو انھوں نے بتایا کہ ہمیں چینل انتظامیہ کے احکامات ہیں کہ جامعہ کراچی کے طالب علموں کے بجائے صرف پرائیویٹ یونیورسٹیوں کے ہی طلبا کو نوکری پر رکھا جائے۔ واضح طور پر یہ جامعہ کراچی کی ناقص پالیسیوں کا نتیجہ تھا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ ماضی میں مرحوم ڈاکٹر فیروز احمد کی اہلیہ نادرہ احمد نے شعبہ ابلاغ عامہ کی ترقی کے لیے فنڈز جمع کیے جس میں جرمنی میں مقیم تارکین وطن نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اورسابق وزیراعظم نے ایک کروڑ روپے دیے۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ وہ رقم شعبہ ابلاغ عامہ کے بجائے جامعہ کراچی کے خسارے کو پورا کرنے کے نام پر نجانے کہاں غائب کر دی گئی۔ نادرہ احمد اس شعبے کو جدید طرز پر بنانا چاہتی تھیں، جہاں ابلاغ عامہ کے ماہرین کو ایڈوائزری بورڈ میں شامل کرنا مقصود تھا، جیسے کہ ریڈیو، ٹی وی، ایف ایم کے تجربہ کار لوگ تاکہ طلبا موجودہ دور کے ابلاغ عامہ سے حقیقی طور پر آشنا ہو سکیں۔
ان خاتون کی نیک نیتی کے احترام میں جامعہ کراچی میں موجود مضبوط لابی نے انھیں گھر کی راہ دکھا دی اور خوش فہمی کا شکار طلبا زمانہ قدیم کا نصاب پڑھنے پر مجبور ہوئے۔ ایک ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ نے جب نصاب میں بہتری کے لیے کوشش کی تو انھیں بھی نوکری سے ہاتھ دھونا پڑگئے۔شعبہ ابلاغ عامہ کے اکثر استاد وہ ہیں جن کا صحافت یا ابلاغ عامہ کا ذاتی تجربہ نہیں۔ محض ڈگری حاصل کی اور نوکری کی خاطر قوم کے مستقبل سے کھیلنا شروع کردیا۔ پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں بھی اکثریت ایسے استادوں کی ہے، حتیٰ کہ کئی یونیورسٹیوں میں ابلاغ عامہ کے ڈیپارٹمنٹ ہیڈز بھی فیلڈ کا ذاتی تجربہ نہیں رکھتے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کا نصاب نیا ضرور ہے لیکن امریکا و یورپ کے مصنفین کی لکھی گئی کتابوں سے طلبا کو صحافت سکھانے کی کوشش کی جاتی ہے، یہ سوچے بغیر کہ وہاں کی معاشرتی و صحافتی اقدار، روایات اور ماحول مختلف ہے۔ یہ طلبا جب صحافت کے میدان میں قدم رکھتے ہیں تو اکثر ناکام ہوجاتے ہیں۔ ظاہر ہے جب جامعہ کراچی میں شعبہ ابلاغ عامہ میں توسیع نہیں کی جائے گی تو اکثر طلبا کاروبار کی نیت سے قائم نجی یونیورسٹیوں میں داخلے پر مجبور ہوتے ہیں۔ذرائع اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ جامعہ کراچی کے کچھ اساتذہ کے تحقیقی مقالے اس لیے کچرے کی نذر ہوئے کہ وہ کہیں سے چوری کرکے چھاپے گئے تھے۔ اس اہم موضوع پر قلم اس لیے اٹھایا کہ شاید نئے پاکستان میں جامعہ کراچی میں نیا نصاب بھی رائج کردیا جائے، جسے پڑھانے کے لیے لابیوں سے بالاتر نئے اورتجربہ کار اساتذہ رکھے جائیں۔ غریب اور ضرورت مند طلبا کے لیے نئی اسکالر شپس متعارف کروائی جائیں تاکہ اس صحافی نوجوان کی طرح جامعہ کا کوئی غریب طالب علم در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور نہ ہو.۔۔(بشکریہ ایکسپریس)