تحریر: احسن اقبال، ایبٹ آباد۔۔
آج پوری دنیا ایک وباء کی لپیٹ میں آچکی ہے۔ ہر جانب افرا تفری کا عالم ہے۔ خوف وحراس کے اس عالم میں پوری دنیا سنسانی کا منظر پیش کر رہی ہے۔جہاں سیر و تفریح کے مقامات ویران ہو چکے ہیں،وہیں عظیم مقدس مقامات بھی اس سے کافی حد تک متاثر ہوئےہیں۔ بڑی بڑی طاقتیں گھٹنوں کے بل ہیں۔ کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہا کوئی مصنوعی وباء قرار دے رہا ہے تو کوئی قدرتی۔تجزیات اور تجربات کا بازار گرم ہے۔ ایک طرف غریب مزدور اور دیہاڑی دار طبقہ اس مرض کا شکار ہے، تو دوسری طرف شہزادہ چارلس اور برطانوی وزیر اعظم بورس جانس بھی اس وباء سے نہ بچ سکا۔
یہ تمام صورت حال ہمیں خدا کی طرف متوجہ کرنے کےلئے کافی ہے۔خدا کی رحمت کو متوجہ کرنے کا جو طریقہ میسر ہو وہ اپنانا چاہیے۔ انہی طریقوں میں سے ایک طریقہ انسانیت کی خدمت بھی ہے، چاہے وہ علاج کی صورت میں ہو، مال کی صورت میں ہویا کوئی بھی ایساقدم جو انسانیت کے تحفظ کے لئے ہو اٹھایا جائے وہ بھی اس میں داخل ہے۔لیکن یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ ایک انسان کے کچھ اعمال ایسے ہوتے ہیں جو صرف انسان اور اس کے رب تک ہی محدود رہیں تو باعث اجر و ثواب ہوتے ہیں۔ لیکن اگر آپ ان کا شوشا کر کے اپنی نمائش کی خاطر یہ کام سر انجام دے رہے ہیں تو یقینا ایسے اقدام پر میرا رب اس بات پر قادر ہے کے اس عمل پر جزاء کے بدلے سزا دے دے، اور وہ اعمال بجائے رحمت کے زحمت بن جائیں۔
اس سخت گھڑی میں ہمیں کچھ ایسی ہستیاں نظر آئی جو اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھ کر انسانیت کی بقاء کو اپنا مقصد بنائے ہوئے ہیں ہمہ تن، ہمہ وقت انسانیت کی خدمت میں مصروف ہیں۔ سب سے زیادہ یہی لوگ خراج عقیدت کے مستحق ہیں۔ جنہوں نے کبھی کسی مریض کا علاج کرتے ہوئے اپنی نمائش پر توجہ نہیں دی، اپنا پر چار نہیں کیا خاموشی سے اپنے مقصد میں لگے رہے یہاں تک کہ جان کی بازی ہار گئے ۔ جب وہ رخصت ہوئے تو تب جا کر دنیانے ان کا نام جانا اس کی مثال ڈاکٹر اسامہؒ شہید کی ہے۔ اور ڈاکٹر اسامہ کی طرح ہر وہ ڈاکٹر جو انسانیت کی خدمت میں مصروف ہے ہمیں ان سے پیار ہے۔
کچھ حضرات ایسے ہیں جنہوں نے وباء سے پیدا ہونے والے حالات کےپیش نظر ملک کے غریب ، بے یار و مدد گار طبقے کی مالی معاونت کی اور دیگر لوگوں کو اس وباء کا نشانہ بننے سے بچانے کی ہر ممکن تدبیر کی۔ ان میں ہماری فوج، پولیس ،میڈیا اور ہر سول آدمی جو جس انداز میں خدمت کر رہا ہے وہ بھی ان مخیر حضرات میں داخل ہے۔ اس لئے یہ لوگ بھی خراج عقیدت کے مستحق ہیں، اور خدا کی رحمت کو متوجہ کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔
مخیر حضرات کا ایک طبقہ ایسا بھی پایا جاتا ہے جو رحمت کے بجائے زحمت بن کر اس مشکل گھڑی میں ہمارے سامنے آیا ہے۔ سوشل میڈیا پر کچھ ایسی تصاویر دیکھنے کو ملتی ہیں جہاں ایک یا چند آدمی مل کر کسی کی مدد کر رہے ہیں ۔ان کے ساتھ ایک عدد یا بوقت ضرورت متعددکیمرہ مین اس نام نہاد امداد یا صدقات کے وقت موجود رہتے ہیں۔ اگر وہ کسی غریب کی ہتھیلی پر صابن کی ایک ٹکیہ بھی رکھتے ہیں تو کیمرہ مین فوراً مختلف اینگل سے تصویر شوٹ کرتے ہیں، اور میڈیا پر وائرل کر دیتے ہیں۔ جہاں ان کی سخاوت کا پر چار ہوتا ہے وہیں غریب کی غربت کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔
اب اگر ان حضرات کے اس معاملےکو سامنے رکھ کر اسلام کی تعلیمات پر ایک نظر ڈالی جائے تو ہمیں درس ملتا ہےکہ اس قسم کے تعاون میں اصل یہ ہے کہ راز داری سے کام کیا جائے یعنی چپکے سے کسی کی مدد کی جائے۔ جیسا کہ آپﷺ کا ارشاد مبارک ہے: تین شخصوں سے اللہ بہت محبت کرتا ہے، ان میں سے ایک وہ ہے جو کسی کی اس طرح مدد کرے کہ اللہ اور سائل کے علاوہ کسی کو خبر تک نہ ہو۔ اس کے علاوہ اور احادیث میں بھی ہمیں اس طرح کا درس ملتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود چند ایسے مواقع پر جہاں کوئی مصلحت ہو مثلا ترغیب دینا یا شکوک و شبہات کو دورکرنا ہووہاں شریعت اعلانیہ خرچ کی اجازت دیتی ہے۔لیکن جہاں بات نمائش کی حد کو چھونے لگے تو اس کی اجازت نہیں ملتی ، بلکہ یہ تعلیم ملتی ہے کہ اگر اچھا صدقہ دے سکتے ہو تو ضرور دو۔ لیکن ایسا صدقہ جس کے بعد تکلیف دی جائے اس سے بہتر ہے کہ اچھی بات کہہ لیا کرو۔
علماء فرماتے ہیں کہ چار وجوہات کی بنا پر خدا کی راہ میں دیا گیا مال ضائع ہو جاتا ہے: (۱)۔اللہ تعالی کی رضا مقصود نہ ہو۔ (۲)۔ریا یعنی شہرت مطلوب ہو۔ (۳)۔ احسان جتانا مقصود ہو۔ (۴)۔ صدقہ دے کر لینے والے کو کوئی بات کہہ کر تکلیف پہنچائی جائے۔ لہذا مال خرچ کرنے کا صرف ایک مقصد ہونا چاہیے اور وہ رب تعالی کی رضا؛ کیوں کہ قرآن میں ارشاد ہے: اے ایمان والو! اپنی خیرات کو احسان جتاکر اور ایذا پہنچاکر برباد نہ کرو، جس طرح کہ وہ شخص جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لیے خرچ کرے۔(البقرہ :۲۶۴)
اسی لئے التجا ہے ایسے مخیرحضرات سے جو کسی غریب کی ہتھیلی پر کچھ رکھنا چاہتے ہیں انہیں چاہیے کہ اپنی اس عظیم عبادت کو کھلونا اور اپنی نمائش کا ذریعہ بنا کر غریب کا مذاق نا اڑائیں اور مشکل کی اس گھڑی میں کوئی بھی ایسا طریقہ اپنانے سے گریز کریں جو آپ کی عبادت کو عقوبت کی طرف لے جائے۔ اس بات پر خدا کا شکر ادا کریں کہ اس نے آپ کو دینے والوں کی صف میں کھڑا کیا ہے۔(احسن اقبال،ایبٹ آباد)