تحریر: جویریہ صدیق۔۔
کبھی کبھی دل کرتا ہے کہ دل اور دماغ میں بھی ڈیلیٹ کا کوئی بٹن ہوتا۔ ہم برے حادثات اور سانحات کو ڈیلیٹ کرکے صرف خوشیاں اپنی میموری میں سیو کر سکتے۔ مگرزندگی بہت مشکل ہے‘ دکھوں کی عمر کافی لمبی ہوتی ہے اور خوشیوں کی بہت چھوٹی۔ ہمیں اپنی خوشیوں پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور غموں اور تکالیف پر صبر کرنا چاہیے۔ صبر میں یقینا بہت طاقت ہے۔ غم انسان کو توڑ کر رکھ دیتے ہیں مگر صبر جینے کا حوصلہ دیتا ہے۔ ہم سب اپنے اپنے غموں سے لڑرہے ہیں۔ کبھی قدرت کی جانب سے ہم پر آزمائشیں آتی ہیں تو کبھی کم ظرف انسانوں کی سازش ہم سے ہماری ساری خوشیاں چھین لیتی ہے۔ قتل ہو یا حادثات‘ نوجوان انسان کی موت ہر دردِ دل رکھنے والے کو رُلا دیتی ہے۔
ڈاکٹر شیر افگن نیازی معروف سیاستدان تھے‘ لگتا تھا کہ سارا آئین ان کو زبانی یاد ہے۔ ایک دن ان کا جوان بیٹا ٹریفک حادثے میں چل بسا‘ حادثے کے وقت اس کی گاڑی کا ایئر بیگ نہیں کھلا۔ وہ اپنی باقی زندگی یہ کیس لڑتے رہے کہ کار میں موجود حفاظتی ایئربیگ کیوں نہیں کھلا۔ شہلا رضا جو معروف سیاستدان ہیں‘ انہوں نے اپنے دونوں بچے ایک ٹریفک حادثے میں کھو دیے تھے۔ ان کے بچے نوجوان تھے اور ان کی زندگی کی خوشیوں کا محور بھی۔ ایک لمحے میں سب کچھ چلا گیا۔ مجھے پہلی باران کی زندگی کا یہ سانحہ ان کے ایک انٹرویو سے پتا چلا‘ یہ جان کر بہت افسوس اور رنج ہوا۔ دل کیا ان کو گلے لگاکر روئوں اور بہت دیر تک روتی رہوں۔ سوشل میڈیاپر ان کے مخالفین اس حوالے سے بھی ان کو رنج دیتے ہیں۔ مجھے معاشرے کے اس رویے کی سمجھ نہیں آتی کسی کے غم‘ دکھ پر اس کو کیسے تکلیف دی جا سکتی ہے۔ اسلام آباد میں کچھ سال قبل ایک کار بس سے ٹکراگئی‘ اس حادثے میں ایک بیوروکریٹ کا ایک بیٹا جان سے گیا تو دوسرا مفلوج ہو گیا۔ ان کا ہنستا بستا گھر تباہ ہوگیا۔ لوگوں نے اس واقعے کی فوٹیج سوشل میڈیا پر شیئر کر دی۔ جب ان کے والد نے اپنے بیٹوں کے حادثے کی فوٹیج دیکھی ہوگی تو ان پر کیا گزری ہوگی؟ ہمارے ملک میں غموں‘ سانحات اور حادثات کی ریکارڈنگ کرکے وٹس ایپ اور سوشل میڈیا پر پھیلا دی جاتی ہے اور اس پر ہٹس‘ لائکس اور شیئرز لیے جاتے ہیں۔ سوشل میڈیا والوں کیلئے سانحہ بھی کمائی کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ یہ لوگ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ جب یہ ریکارڈنگ ان کے لواحقین تک پہنچتی ہوگی تو ان کے دل پر کیا بیتتی ہو گی۔
میں بطور رپورٹر نیشنل اسمبلی بھی کور کرتی رہی ہوں‘ وہاں متعدد بار پیپلز پارٹی کی روبینہ قائم خانی سے ملاقات ہوئی۔ جہاں ایک طرف گھریلو ذمہ داریاں نبھا رہی ہوتیں‘ وہاں دوسری طرف سیاست کے رموز پر بھی مکمل دسترس ہوتی۔ ایک بار وہ اپنا بیٹا اسمبلی میں لے کر آئیں۔ اس وقت اس کی عمر آٹھ یا نو سال ہوگی۔ وہ خوب شرارتیں کرتا تھا۔ ایک بار وہ اپنے بیٹے کو چینل کے دفتر بھی لے کر آئیں اور مجھے کہنے لگیں: جب تک میں ٹی وی پر لائیو ہوں‘ اس کو اپنے ساتھ بٹھا لو‘ یہ بہت شرارتی ہے۔ اس میں ایک ماں کی فکر عیاں تھی۔ میں نے کمپیوٹر آن کر دیا تاکہ وہ گیمز کھیلتا رہے۔ کچھ سال بعد وہ بچہ ایک ہولناک ٹریفک حادثے میں دنیا سے چلا گیا۔ میں نے اس دن ایک ماں اور ایک سیاستدان‘ دونوں کو ٹوٹتے دیکھا۔ اس بچے کے ٹریفک حادثے کی فوٹیج اور تصاویر بھی نشر کی گئیں۔ معلوم نہیں کہ روبینہ قائم خانی نے وہ دیکھی یا نہیں‘ اللہ کرے کہ نہ ہی دیکھی ہوں۔ ماں کا دل بہت حساس ہوتا ہے‘ وہ بچے کو ایک کاٹنا چبھنے پر بھی تڑپ جاتی ہے‘ اس کی جدائی تو اس کو زندہ درگور کر دیتی ہے۔ میاں افتخار کا نام سیاسی حلقوں میں جانا پہچانا ہے۔ ان کے اکلوتے بیٹے میاں راشد کو دہشت گردی نگل گئی۔ انہوں نے بہت صبر سے اس دکھ کا مقابلہ کیا۔ اسی طرح ہارون بلور کی شہادت پر ہر آنکھ اشکبار تھی‘ ان کی بیوہ ثمر اب ان کے مشن کو آگے لے کر چل رہی ہیں۔ جب میں ان کو پورے وقار‘ متانت اور صبر سے کام کرتا دیکھتی ہوں تو دل میں ان کا احترام مزید بڑھ جاتا ہے۔ قمرزمان کائرہ کا بیٹا بھی ٹریفک حادثے میں دنیا سے چلا گیا تھا۔ دھان پان سا بچہ نوعمری میں ہی اپنے پیاروں کو چھوڑ گیا۔ ہر حساس دل اس حادثے پر دل گرفتہ تھا۔ ارشد شریف تو اس کے جنازے میں بھی گئے۔ وہ ہمیشہ کہتے تھے کہ جیا! خوشی میں انسان وقت کی کمی کا بہانہ کرکے شرکت سے قاصر ہوسکتا ہے لیکن غمی میں نہیں۔ جس کے گھر بھی وفات ہوتی‘ اس سے تعزیت اور اس کی دلجوئی ضرور کرتے۔ وہ دوسرے شہروں میں بھی جاکر تعزیت کرتے اور شام کو اپنا لائیو پروگرام کرتے۔ جنازے‘ قل اور قرآن خوانی میں شرکت کرتے اور مجھ سے بھی کہتے کہ دوست احباب سے پتا کرو کہ ان کے گھر میں کسی چیز کی ضرورت تو نہیں۔ ان کی کوشش ہوتی کہ فوتیدگی والے گھر میں کھانا‘ دودھ اور پھل ہم ہی پہنچائیں۔ایسے بھلائی کے کام وہ بہت خاموشی سے کرتے تھے۔ اب چونکہ وہ دنیا میں نہیں تو ان کے اچھے کاموں کا یاد کرنا ہم سب پر لازم ہے۔
میں پہلے ڈیڈ باڈی‘ فوتیدگی والے گھر یا قبرستانوں سے ڈرتی تھی لیکن جب اپنے پیارے وہاں جا بسیں تو آپ کو دل مضبوط کرنا پڑتا ہے۔ آپ کو نہ چاہتے ہوئے بھی بڑا بننا پڑتا ہے‘ اپنے جذبات اور ارمانوں کو کچل کر سب کچھ کرنا پڑتا ہے۔ اب میں جنازوں کے پاس بیٹھ کر قرآن شریف پڑھ رہی ہوتی ہوں۔ ارشد شریف کو جس وقت تدفین کیلئے لے کرجانا تھا تو مردہ خانے میں ان کے کان میں سورۃ الملک اور سورۃ یٰسین میں نے خود پڑھی تھی۔ اردگرد پانچ‘ چھ میتیں اور بھی تھیں مگر میرا پیارا ارشد وہاں موجود تھا تو مجھے مردہ خانے میں بالکل ڈر نہیں لگا۔ وہاں منفی درجہ حرارت تھا‘ روشنی بھی خاصی کم تھی لیکن مجھے ارشد سے اکیلے میں باتیں کرنی تھیں اور ان کا ہر اس چیز پر شکریہ ادا کرنا تھا جو بھلائیاں انہوں نے میرے ساتھ کیں۔ دنیا کی ہر آسائش مجھے دی‘ کبھی زمانے کی گرم‘ سرد ہوا نہیں لگنے دی۔ قائداعظم انٹرنیشنل اور پمز کے ڈاکٹرز نے میرا بہت خیال رکھا اور مجھے ارشد کی باڈی میں وہ علامات بھی دکھائیں جو اکثر شہیدوں میں ہوتی ہیں مگر دل کو قرار کہاں آتا ہے۔ اپنا پیارا ہر وقت یاد آتا رہتا ہے اور کبھی بھول نہیں سکتا۔ میں کوشش کرتی ہوں کہ مزید نہ روئوں‘ دل لگا کر کام کروں مگر انسان بہت کمزور ہے اور دکھ اس کو توڑ دیتے ہیں۔ لوگوں نے مجھے بھی ارشد کی وہ تصاویر بھیجیں جو کبھی شیئر نہیں ہونی چاہیے تھیں۔مجھے ان کی گاڑی کی اور ہسپتال سے تصاویر بھیجی گئیں۔ ارشد گولیوں سے چھلنی تھے‘ ہر طرف خون تھا۔ یا اللہ صبر! وہ تصاویر میرے شعور اور لاشعور پر نقش ہوگئیں۔ کسی کا قتل ہو جائے یا کوئی حادثے میں ہلاک ہو جائے‘ اس کی تصاویر یا وڈیوز پولیس ریکارڈ کا حصہ تو ہوسکتی ہیں لیکن ان کو میڈیا‘ سوشل میڈیا پر نشر نہیں ہونا چاہیے۔ کسی کو ہم سے یہ نہیں پوچھنا چاہئے کہ یہ تمہارے عزیز کی لاش ہے‘ یہ اسی کی میت ہے‘ کیا یہ وہی ہے؟ ایسی باتیں لواحقین کو مزید توڑ دیتی ہیں۔ ابھی طارق فضل چودھری کے جواں سال بیٹے کا کار حادثے میں انتقال ہوا ہے۔ وہ اور میرے والد بہت اچھے دوست رہے ہیں۔ میرے والد‘ جوآج کل علیل ہیں‘ اس خبر کو سن کر مزید رنجیدہ ہوگئے۔ عنزہ ان کے سامنے بڑا ہوا تھا۔ بہت سے لوگوں نے اس حادثے کی وڈیو بھی سوشل میڈیا پر شیئر کر دی‘ اس کی جان بچانے کیلئے جب سی پی آر دیا جارہا تھا تو کسی نے اس کی بھی وڈیو بنا لی۔ پاکستانی عوام دردِ دل رکھتے ہیں‘ کسی کے ساتھ حادثہ ہوجائے تو اس کی مدد کے لیے آجاتے ہیں مگر ایک افسوسناک پہلو یہ ہے کہ کچھ لوگ ساتھ میں وڈیوز بھی ریکارڈ کرلیتے ہیں۔ ابھی تو شاید غم کی شدت سے نڈھال انکل طارق فضل اور آنٹی نے وہ وڈیوز نہ دیکھی ہوں لیکن جب ان کی نظر پڑے گی تو ان کے دل کے مزید ٹکڑے ہوجائیں گے۔
میرے والدین سوشل میڈیا کا استعمال ارشد شریف پر بنائی گئی چیزیں دیکھنے کیلئے کرتے ہیں۔ جب بھی کسی رِیل یا پوسٹ میں گولی لگا جسدِ خاکی دیکھتے ہیں تو زار و قطار رونے لگتے ہیں۔ ارشد ان کا بیٹوں جیسا بہت لاڈلا داماد تھا۔ کاش کہ ہمارے پیارے ہم سے ایسے جدا نہ ہوتے۔ جب کوئی پیارا اچانک چلا جائے تو پیچھے رہ جانے والے زندہ درگور ہوجاتے ہیں۔ کہنے کو تو ہم جی رہے ہیں لیکن زندہ نہیں ہیں۔(بشکریہ دنیانیوز)۔۔
غموں کی ریکارڈنگ کیوں ؟
Facebook Comments