ghalat khabar par koi maafi nai mangta

غلط خبر پر کوئی معافی نہیں مانگتا، چیف جسٹس پاکستان۔۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ غلط خبر پر کوئی معافی تک نہیں مانگتا، بس فون اٹھایا اور صحافی بن گئے کہ ہمارے ذرائع ہیں، کسی کے کوئی ذرائع نہیں، ہم کچھ کرتے نہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ بس پتھر پھینکے جاؤ، بیرون ملک ایسا ہوتا تو ہتک عزت میں جیبیں خالی ہو جاتیں۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق سپریم کورٹ میں صحافیوں کو ہراساں کرنے کے خلاف کیس کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔چکوال سے تعلق رکھنے والے درخواست گزار راجہ شیر بلال، ابرار احمد اور ایم آصف ذاتی حیثیت میں عدالت پیش ہوئے اور درخواست گزار کمرہ عدالت میں درخواست دائر کرنے سے ہی مکر گئے۔درخواست گزاران کا موقف تھا کہ ہم نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر ہی نہیں کی۔سپریم کورٹ میں صحافیوں کو ہراساں کرنے کیخلاف ازخود نوٹس  کیس میں چکوال سے تعلق رکھنے والے درخواست گزار کمرۂ عدالت میں درخواست دائر کرنے سے مکر گئے۔سپریم کورٹ میں کوڈ آف کنڈکٹ تشکیل دینے کی 2022میں درخواست دائر کی گئی تھی۔درخواست گزاروں نے مؤقف اختیار کیا کہ ہم نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر ہی نہیں کی،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ کسی نے آپ کا نام اور رہائشی پتہ کیسے استعمال کیا،کیا آپ بغیر اجازت درخواست دائر کرنےوالوں کیخلاف ایف آئی آر کٹوائیں گے،درخواست گزار نے کہاکہ اگر آپ کی سرپرستی ہوگی تو ہم ایف آئی آر کٹواد یں گے۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہم کیوں سرپرستی کریں؟کوئی سچ نہیں بولتا،ہم جانچ کیلئے معاملہ پنجاب فرانزک لیبارٹری کو بھجوا دیتے ہیں۔ ایڈووکیٹ حیدر وحید نے کہاکہ مجھے ایڈووکیٹ آن ریکارڈ نے ہدایات دی تھیں۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ غلط خبر پر کوئی معافی تک نہیں مانگتا، غلطیاں تو جیسے صرف سپریم کورٹ کے جج ہی کرتے ہیں،ہم کچھ کرتے نہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں بس پتھر پھینکتے جاؤ، بیرون ملک میں ایسا ہوتا تو ہتک عزت کیس میں جیبیں خالی ہو جاتیں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہم کیوں سرپرستی کریں، ٹی وی پر بیٹھ کر ہمیں درس دیا جاتا ہے کہ عدالتوں کو کیسے چلنا چاہیے، پہلے ہم پر بمباری کی جاتی ہے پھر عدالت میں پیش ہو کر کہتے ہیں کیس ہی نہیں چلانا۔عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ملک کو تباہ کرنے کیلئے ہر کوئی اپنا حصہ ڈال رہا ہے، سچ بولنے سے کیوں ڈرتے ہیں، غلط خبر پر کوئی معافی تک نہیں مانگتا،غلطیاں تو جیسے صرف سپریم کورٹ کے جج ہی کرتے ہیں، ہم کچھ کرتے نہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ بس پتھر پھینکی جاؤ۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں