تحریر: علی حسن۔۔
پاکستان کی قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر الہیٰ بخش سومرو کے انتقال کی خبر سوشل میڈیا اور پھر بعض اخبارات میں جمعرات اور جمعہ کے دن شائع ہوئی جس کی ذمہ دار ی نبھاتے ہوئے بعض ذرائع ابلاغ نے تردید کی۔ کیا اسی کو ذمہ دارانہ صحافت کہا جاتا ہے۔ الہیٰ بخش سومرو ملک کی کئی لحاظ سے نامور شخصیات میں شمار کئے جاتے ہیں۔ وہ صوبہ سندھ کے اپنے زمانے کے مشہور ضلع شکار پور کے سومرو خاندان کے چشم و چراغ ہیں۔ ان کے تایا اللہ بخش مرحوم سندھ کے قیام پاکستان سے قبل وزیراعلی رہے تھے ۔ اس زمانے میں وزیر اعلی کو پریمئر کہا جاتا تھا۔ اللہ بخش مرحوم کی وجہ سے ہی سندھ میں سومرو خاندان مشہور ہوا۔ مولا بخش ان کی والد تھے۔ ستر کے انتخابات میں جب بھٹو کا طوفان تھا وہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے ۔ مولا بخش کے چھوٹے بیٹے افتخار سومرو مارشل لاء دور میں صوبائی وزیر مقرر ہوئے تھے ۔ مولا بخش کے چھوٹے بھائی رحیم بخش سومرو صوبائی سیاست میں سرگرم رہے تھے اور وزیر بھی تھے۔ ان کے بیٹے جنید بھی جنرل ضیاء کے دور میں سیاست میں متحرک تھے۔ جنید کا جوانی میں ہی انتقال ہو گیا تھا۔
شکار پور کے سومرو گھرانہ کی تفصیل اس لئے دی گئی کہ الہیٰ بخش کوئی ایسی ویسی شخصیت نہیں تھے۔ اسی خاندان کی دیگر شخصیات میں سندھ کے سابق گورنر محمد میاں سومرو بھی ہیں۔ ان کے بڑے بھائی احمد میاں سومرو جیکب آباد بلدیہ کے چیئر مین ہونے کے ناطے پورے پاکستان میں صفائی ستھرائی کرنے کا صدارتی ایوارڈ حاصل کر چکے تھے۔ اس دور میں سابق مشرقی پاکستان میں پاکستان کا حصہ تھا۔
اس سے بڑھ کر ایک اور اہم واقعہ یہ ہے کہ الہی ٰ بخش صاحب کی رفیق حیات محترمہ پروین کا بدھ چوبیس جنوری کو انتقال ہوا تھا۔ ان کی تدفین والے روز ہی ہی الہی ٰ بخش صاحب کے انتقال کی خبر شائع کی گئی۔ کیا کسی نے تصدیق کرنے کی زحمت کی تھی۔ کیا کسی نے یہ گوارا کیا تھا کہ ان کی بے بنیاد موت کی خبر کی تصدیق کر لی جائے کہ خاندان الہیٰ بخش صاحب کی رفیق حیات کی موت کی وجہ سے پہلے ہی ذہنی اذیت اور غم میں مبتلا ہے۔ کیا کوئی ذریعہ نہیں تھا کہ تصدیق کی جاتی۔ کیا یہ غیر ذمہ داری نہیں تھی؟ در اصل بات یہ ہے کہ رپورٹر ، سب ایڈیٹر ، نیوز ایڈیٹر اور ایڈیٹر حضرات میں جستجو کا جذبہ سرے سے ہی ختم ہو گیا ہے ۔ اگر جستجو کی جاتی تو شکار پور ایک فون کر کے ہی کسی بھی صحافی سے سومرو گھرانہ کے فون نمبر حاصل کر لئے جاتے اور تصدیق کی جاتی۔ ہماری غیر ذمہ داری کے سبب پہلے سے غم میں مبتلا خاندان مزید غم کا شکار نہ ہوتا اور الہیٰ بخش کے طول و عرض میں پھیلے دوست احباب نام نہاد غم کا شکار نہیں ہوتے۔
صوبہ سندھ کے صحافیوں کا الہیٰ بخش سومرو صاحب کے ساتھ ایک دیرینہ تعلق بھی رہا ہے۔ جیکب آباد کے ایک صحافی چھبیس سالہ شاہد سومرو کو بجارانی خاندان کے ایک بیٹے وحید علی نے اکتوبردوہزار دو میں ان کے گھر کے دروازے پر گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔جب متاثرہ خاندان پولس اور عدالت سے قانونی مدد حاصل نہیں کر سکا تو حیدرآباد اور سکھر کے صحافیوں نے مرحوم سندر خان سندرانی جو چیف سردار تھے ، کی سربراہی میں منعقد ہونے والے ایک جرگہ میں شرکت کی تھی ، اس جرگہ میں الہیٰ بخش سومرو بھی صحافیوں کی طرف سے پیش ہوئے تھے۔اکتوبر دوہزار تین میں ہونے والے جرگہ کے فیصلہ کے بعد قتل کے ذمہ دار وحید علی بجارانی کے والد شیر محمد بجارانی جو میر ہزار خان بجانی کے بڑے بھائی تھے، جرمانہ کی رقم ادا کی تھی جو صحافیوں نے الہیٰ بخش صاحب کے حوالے کی تھی تاکہ شاہد کی بیوہ کو رقم دی جائے۔ چھبیس سالہ شاہد تین بچوں کا والد تھا۔
صحافت سے جڑے زیادہ تر افراد نے بھی سوشل میڈیا پر انحصار کرنا شروع کر دیا ہے۔ ان کے رپورٹر اور سب ایڈیٹر مطالعہ نہیں کرتے ہیں۔ ان کی معلومات صفر ہیں۔ اس کے بعد رونا رویا جاتا ہے کہ پرنٹ میڈیا اپنی افادیت اور اہمیت کھو گیا ہے۔ کیوں نہ ایسا ہو؟ چینل کی خبروں پر انحصار کر کے خبر دینا تو اخبار شائع کرنا کوئی کمال کی بات نہیں ہے۔ دنیائے صحافت سے وابستہ افراد کو اپنے رویہ اور طور طریقوں پر فوری نظر ثانی کی ضرورت ہے تاکہ پرنٹ میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا اپنی ساکھ بحال کرا سکے۔ جس زمانے میں سوشل میڈیاکا دور دور تک پتہ نہیں تھا اور فون کی سہولتیں بھی اس طرح موجود نہیں تھیں جیسی آج ہیں، لیکن کبھی کبھی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ ہو ہی جاتا تھا۔ پاکستان کے بڑے اخبار جنگ کراچی میں پیلز پارٹی کے رہنماء اور اس وقت کے سابق وفاقی وزیر سید قائم علی شاہ کی انیس سو اناسی میں موت کی بے بنیاد خبر شائع ہو گئی تھی۔ خیر پور کے رپورٹر راحت کاظمی (اب مر حوم) نے خبر شائع کر دی تھی کہ شاہ صاحب کا کراچی جاتے ہوئے سڑک کے ایک حادثہ میں انتقال ہو گیا ہے۔ دوسرے دن شاہ صاحب کسی مقدمہ میں وکالت کے سلسلے میں سندھ ہائی کورٹ کراچی پہنچے تو لفٹ مین جو خبر پڑھ چکا تھا وہ لفٹ چھوڑ کر چیختا ہوا بھاگ گیا۔ اس نے خیال کیا کہ شاہ صاحب مرحوم کی روح آگئی ہے۔ خود شاہ صاحب اس وقت تک اس خبر سے واقف نہیں تھے ۔ بعد میں تو ضلعی رپورٹر کو لینے کے دینے پڑ گئے۔ جنگ کے کل وقتی مالک میر خلیل الرحمان خبروں کے معاملہ میں کسی کو بھی رعایت دینے کے قائل نہیں تھے۔ سید قائم علی شاہ ہمیشہ در گزر سے کام لیتے رہے ہیں سو انہیں نے راحت کاظمی کو نہ صرف معاف کر دیا بلکہ میر صاحب سے سفارش کر کے ان کی جاتی ہوئی ملازمت کو بچالیا۔ راحت کاظمی کوانیس سو اٹھاسی کے لسانی ہنگاموں میں خیر پور میں ہی قتل کر دیا گیا تھا۔
میڈیا سے متعلق ایک اور خبر اسلام آباد کے ایک سینئر صحافی محترم پرویز شوکت مرحوم کی موٹ کی خبر تھی۔ پرویز شوکت پی ایف یو جے کے اپنے دھڑے کے سربراہ تھے۔ وہ جنگ رالپنڈی سے سالوں سے وابستہ رپورٹر تھے۔ سوشل میڈیا پر ان کے ساتھیوں اور احباب نے ان کی موت کی خبر تو دے دی ۔ متعلقہ اور غیر متعلقہ افراد نے اپنی عادت کے مطابق دھڑا دھڑ تعزیت کے دو الفاظ بھی دینا شروع کر دئے۔ کسی نے یہ جاننے کی جستجو نہیں کی کہ مرحوم کی موت کی آخر وجہ کیا تھی۔ پرویز شوکت نمونیا کا شکار ہوئے تھے ۔ ان کے پھیپڑوں میں پانی بھر گیا تھا ۔ علاج جاری ہی تھا لیکن وہ جان بر نہ ہوسکے۔ کسی کی موت کی خبر سے یہ معلومات غائب ہوں کہ موت کا سبب کیا تھا تو قاری کو تشنگی رہتی ہے۔ یہ تشنگی دور کرنا کس کی ذمہ داری ہے جب کہ انتقال کرنے جانے والے شخص کا تعلق صحافی برادری سے ہی ہو۔ پوری صحافی برادری کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ اپنے پیشے کی ساکھ کر خیال رکھنے کی خاطر پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کو پورا کرنے اور پوری طرح بنھانے کے لئے کچھ نہ کچھ کریں ورنہ یقین جانئے نام لینے والا بھی کوئی نہیں ہوگا۔(علی حسن)۔۔