ghair mulki film ki numaish ke khilaaf pakistani filmsaazo ki press conference

غیرملکی فلم کی نمائش کے خلاف پاکستانی فلمسازوں کی پریس کانفرنس

خصوصی رپورٹ۔۔

 آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی اور فلم پروڈیوسز ایسوسی ایشن کے مشترکہ تعاون سے فلم انڈسٹری کی موجودہ صورت حال پر اہم پریس کانفرنس آڈیٹوریم Iآرٹس کونسل کراچی میں کی گئی، جس میں صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ، اداکار جاوید شیخ،اداکار و ہدایت کار یاسر نواز، ندا یاسر،عدنان صدیقی،وجاہت روف ،شازیہ وجاہت،ستیش آنند،امجد رشید اور بدر اکرام نے بریفنگ دی، اس موقع پر صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے کہاکہ پاکستان سے باہر کی فلم لگا کر انڈسٹری کو تباہ کرنے کی سازش کی جا رہی ہے، یہ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے، ہماری حکومت کو پاکستانی ہونے کا ثبوت دینا چاہیے، آرٹس کونسل کراچی اس پالیسی کی مذمت کرتا ہے، حکمران فلم انڈسٹری کی ترقی کے لیے دعوے تو کرتے آ رہے ہیں،فلم انڈسٹری کو پرموٹ کرنے کے لیے تجاویز دی جاتی ہیں، کووڈ کی وجہ سے انڈسٹری بالکل ٹھپ ہو گئی تھی، دو سال بعد پانچ فلمیں ریلیز ہوئیں ہیں، پاکستانی فلمیں اچھا بزنس کر رہی تھیں، جس کی وجہ سے سنیما دوبارہ سر اٹھا رہا ہے اس سب کو برباد کرنے کے لیے باہر کی فلم لائی جا رہی ہیں، انہوں نے کہاکہ ہمارا مقصد یہی ہے کہ فلم انڈسٹری کو بچانے کی کوشش کی جائے، پاکستان فلم پروڈیوسرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین امجد رشید نے کہاکہ ہمارا مقصد پاکستان فلم انڈسٹری کو پرموٹ کرنا ہے، یہ انڈسٹری کے لیے نادر موقع تھا کہ دو سال بعد سینما اٹھ سکے، فارن فلم ہمارے بزنس کو تباہ کر دے گی، ہمارا موقف واضح ہے، ہم نے وفاقی حکومت سے آفیشل طور پر بات کرنے کی کوشش کی مگر کوئی رسپانس نہیں ملا، سینئر اداکار جاوید شیخ نے کہاکہ وزیر اعظم فوری طور پر اس مسئلے پر ایکشن لیں، اگر ہمارے ساتھ ایسا کیا گیا تو ہم آگے فلمیں کیسے بنائیں گے، ہمیں فلموں کے لئے تین چار دنوں کا وقت دیا جائے پہلے یہ گلہ تھا کہ ہماری فلمیں اچھی نہیں ہوتی لیکن اب ہماری فلموں کا معیار اب بلند ہوا ہے وزیراعظم سے اپیل کرتا ہوں کہ اس معاملے کا ازخود نوٹس لیں۔ عدنان صدیقی نے کہاکہ ”دم مستم“ بطور ہدایت کار و پروڈیوسر میری پہلی فلم ہے، یہ آسان کام نہیں ہم عمر بھر کی کمائی فلم بنانے میں لگاتے ہیں کیونکہ یہ ہمارا پیشن ہے، انہوں نے کہاکہ ہم فارن فلمز کے خلاف نہیں ہیں، ہم نے بھی فلمیں بنائی ہیں، جو بہت اچھی فلمیں ہیں، آپ ایک فارن فلم سے ایڈوانس بکنگ لے چکے ہیں، وہ فلم بعد میں بھی لگتی تب بھی اتنا ہی بزنس کرتی، ہم نے صرف ایک ہفتہ مانگا تھا، یاسر نواز نے کہاکہ کورونا سے پہلے شوٹنگ شروع ہوئی، تین چار روز بعد کورونا آگیا، پہلے سوچاکہ تین چار دنوں کا نقصان برداشت کرلیں لیکن پھر سوچا کہ اگر ہم ہی ایسا کریں گے تو ہماری فلم انڈسٹری آگے کیسے بڑھے گے، انہوں نے کہاکہ بہت سالوں سے جو لوگ سینما نہیں گئے وہ ہماری فلمیں دیکھنے گئے ہم سینماﺅں کو سپورٹ کررہے ہیں تو آپ بھی ہمیں سپورٹ کریں، ہماری فلمیں اتار کر باہر کی فلم لگادی گئی، اگر آپ ایک ہفتہ بھی نہیں دینا چاہتے تو نہ دیں، لیکن آپ ہماری فلمیں نہ اتاریں، ندا یاسر نے کہاکہ ہمارے پیچھے کسی سیٹھ کا ہاتھ نہیں ہے، ہم اپنی کمائی ان فلموں پر خرچ کر رہے ہیں، ہم کسی کے خلاف نہیں ،ہم اپنا حق مانگ رہے ہیں، ہم دو سال بعد فلمیں لے کر آئے ہیں ہماری فلمیں اتار دی گئیں، ہمیں لوگوں کے فون آرہے ہیں، ہمیں کھیلنے کے لیے میدان تو دیا جائے، بدر اکرام نے کہاکہ ہما ری اپیل تھی کہ ویک اینڈ کے تین دن دیے جائیں، ہمیں اس بات کی یقین دہانی بھی کرائی گئی تھی، ہم کسی فلم کو بین نہیں کرانا چاہتے، ہم نے پانچ فلمیں دیں ہیں جس کا بزنس بہت اچھا رہا، ہماری ساری فلموں کے ہاﺅس فل تھے، کل سے باہر کی فلم لگنے کے بعد ہمارے پچاس فیصد شو ڈراپ ہو گئے، ہمیں صرف چار دن چاہیے تھے جو ہمیں نہیں دیے گئے، وجاہت روف نے کہاکہ ہمارے ساتھ جو سلوک کیا گیا ہے آئندہ فلمیں بنانے سے پہلے سوچیں گے، ہم کسی فلم کے خلاف نہیں، ہماری اپیل صرف یہی ہے کہ ہمیں ہمارا ہفتہ مکمل کرنے دیا جاتا، پانچ پاکستانی فلموں کے ساتھ باہر کی فلم لگا کر ہماری حق تلفی کی گئی ہے، شازیہ وجاہت نے کہاکہ ہم نے اپنی فلموں کو پروموٹ کیا ہے، فلم بنانے پر بہت محنت کی، میڈیا نے ہماری پرموشن میں بڑا ساتھ دیا، امید ہے کہ میڈیا اس مسئلے پر بھی ہماری آواز بنے گا، فلم انڈسٹری سے صرف ہمارا ہی نہیں سینکڑوں افراد کا روزگار وابستہ ہے۔

دوسری طرف عید پر ریلیز ہوئیں پاکستان کی 5 بڑی فلموں کی شہرت کو ہالی ووڈ کی سُپر ہیرو فلم سے خطرہ پیدا ہوگیا ہے جس پر پروڈیوسرز اور اداکاروں نے اپنے خدشات ظاہر کیے ہیں۔پاکستانی فلم انڈسٹری کی بحالی پچھلی دہائی میں وقوع پذیر ہوئی ہے۔ اگرچہ حالات اب معمول پر آ رہے ہیں اور اس عید الفطر پر 5 پاکستانی فلمیں ریلیز ہوچکی ہیں جن میں ’گھبرانا نہیں ہے‘، ’پردے میں رہنے دو‘، ’دم مستم‘، ’چکر‘ اور ’تیری باجرے دی راکھی ہیں‘۔تاہم مذکورہ بالا پاکستانی فلموں کے ساتھ ہالی ووڈ کی بھی ایک بڑی فلم ریلیز ہوئی ہے جس کا نام ’ڈاکٹر اسٹرینج، دی ملٹیورس آف میڈنس‘ہے۔اس میگا ہالی وڈ ریلیز کی وجہ سے پاکستانی فلموں کو اسکرین سے ہٹایا جا رہا ہے تاکہ ڈاکٹر اسٹرینج کو ’جگہ‘ دی جا سکے۔ اس سے پاکستانی پروڈیوسرز پریشان ہیں اور انہوں نے کراچی آرٹس کونسل میں اس حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار بھی کیا ہے۔ندا یاسر اور شازیہ وجاہت نے بھی شائقین سے پاکستانی سینما کو سپورٹ کرنے کی اپیل کی ہے اور انسٹاگرام پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔دوسری طرف شائقین نے سوشل میڈیا پر پاکستانی فلم سازوں کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور کہا ہے کہ ڈائریکٹرز کو ایسی فلمیں بنانی چاہیئں جو ہالی وڈ کا مقابلہ کر سکیں اور ایک ساتھ بہت سی فلمیں ریلیز کرنا بھی غیر افادی ہے کیونکہ لوگ تمام فلمیں دیکھنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔(خصوصی رپورٹ)۔۔

ghair mulki film ki numaish ke khilaaf pakistani filmsaazo ki press conference

chaar hurf | Imran Junior
chaar hurf | Imran Junior
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں