تحریر: وسعت اللہ خان۔۔
دو ہزار دس سے دو ہزار بیس تک کے دس برس میں انڈیا میں غداری کے آٹھ سو سولہ مقدمے درج کیے گئے۔ان میں سے پینسٹھ فیصد پرچے مئی دو ہزار چودہ میں مودی سرکار بننے کے بعد کاٹے گئے۔ایسے ایسے غدار گرفتار ہوئے کہ اصل غداروں نے بھی دانتوں تلے انگلیاں دبا لیں۔
مثلاً گجرات کے ایک صحافی پر اس لیے غداری کا پرچہ کاٹ دیا گیا کیونکہ اس نے اپنے ایک مضمون میں پیش گوئی کی تھی کہ جلد ہی گجرات کی ریاستی قیادت بدلنے والی ہے۔یو پی میں جب ایک صحافی نے ریپ ہونے والی ایک لڑکی کے گھر جا کر حقیقت جانے کی کوشش کی تو وہ بھی آرٹیکل ایک سو چوبیس اے کے تحت دھر لیا گیا۔ریاست منی پور میں ایک رپورٹر نے جب سوشل میڈیا پر بی جے پی کے ایک صوبائی رہنما کی بیوی کی پوسٹ کا جواب دیا تو وہ بھی غداری میں پکڑا گیا۔ایک شہری نے فیس بک پر ایک مودی مخالف کارٹون شئیر کیا تو اس کے ساتھ بھی یہی بیتی۔
ماحولیاتی تحریک سے وابستہ بائیس سالہ کارکن دیشا روی گریٹا تھون برگ کا ٹویٹ شئیر کرنے پر پولیس کے ہاتھوں پرچہ کٹوا بیٹھی۔ریاست کرناٹک کے ایک اسکول میں جب بچوں نے شہریت کے نئے قانون سے متعلق ڈرامہ پیش کیا تو ایک دس سالہ بچی کے منہ سے ادا ہونے والے ایک جملے کے جرم میں اس کی ماں کو پکڑ لیا گیا اور اسکول کی پرنسپل اور عملے پر غداری کا پرچہ ہوگیا۔
پاکستان میں ایک سابق وزیرِ اعلیٰ ایوب کھوڑو اور سابق وزیرِ اعظم حسین شہید سہروردی سمیت چوہتر برس میں متعدد سیاسی رہنما ، سماجی و سیاسی کارکن ، صحافی ، ادیب اور دانشور آرٹیکل ایک سو چوبیس اے کے غدار بنے۔ چند ماہ قبل مسلم لیگ نون کی لاہور میں نکلنے والی ایک ریلی کے بعد لگ بھگ ڈھائی سو لوگوں پر یہ قانون ٹھوک دیا گیا۔سندھ کی جامشورو یونیورسٹی کے ہاسٹلز میں سہولتوں کی کمی پر وائس چانسلر دفتر کے باہر احتجاج کرنے والے طلبا اور لاہور میں طلبا یونینوں کی بحالی کے لیے جلوس نکالنے والے بیسیوں نوجوان بھی غداری کے پرچے میں پھنس گئے۔گویا قانون نہ ہوا اندھے کی لاٹھی ہو گئی جیسے چاہے گھمادی۔
اس برس جنوری میں پاکستانی سینیٹ کی قانون و انصاف سے متعلق قائمہ کمیٹی میں سینیٹر رضا ربانی کی جانب سے آرٹیکل ایک سو چوبیس اے کو قانون کی کتابوں سے نکالنے کا پیش کردہ بل منظور کیا جانا تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔ انڈین سپریم کورٹ کا جانے مانے صحافی ونود دعا کو غداری کے الزام سے بری کرنا بھی خوشی کی خبر ہے۔
ونود دعا پر گزشتہ برس مارچ میں اس وقت غداری کا پرچہ کاٹا گیا جب انھوں نے اپنے یو ٹیوب چینل پر کوویڈ لاک ڈاؤن کے سبب بھارت کے مختلف علاقوں میں پھنس جانے والے لاکھوں مزدوروں کی تکلیف کا ذمے دار سرکاری پالیسیوں کو قرار دیا۔انھیں بری کیے جانے کے سپریم کورٹ کے فیصلے میں ایک بار پھر یہ اصول دھرایا گیا ہے کہ سرکاری پالیسیوں اور حکمتِ عملی پر کڑی سے کڑی تنقید بھی غداری کے دائرے میں نہیں آتی۔ ایسی تنقید جو سدھار کی نیت سے کی جائے ایک صحت مند سماج کی نشانی ہے۔
حکومتیں بھی جانتی ہیں کہ ایسے قانون پھٹیچر ہو چکے ہیں۔کوئی بھی اعلیٰ عدالت ان کے تحت بنائے گئے زیادہ تر مقدمات ایک سماعت میں ہی خارج کر دے گی۔مگر ضمانت ہوتے ہوتے ملزم کو کم ازکم دباؤ میں تو رکھا ہی جا سکتا ہے۔اس کی ناک تو رگڑی جا سکتی ہے۔
چنانچہ ایسے قوانین کتابوں سے خارج کرنے کا کسی بھی سرکار کا دل نہیں چاہتا۔دل بس تب چاہتا ہے جب سرکاری پارٹی اپوزیشن کی بنچوں پر جا بیٹھتی ہے۔(بشکریہ ایکسپریس )۔۔