ghadari ka muqadma shaheen sohbai ka rad e amal

غداری کا مقدمہ، شاہین صہبائی کا ردعمل۔۔

سینئر صحافی شاہین صہبائی نے اپنے خلاف غداری کے مقدمے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں اپنے صحافتی کیرئیر کے دوران اس طرح کی دھمکیوں کا سامنا رہا ہے۔ انہوں نے اس کیس کو بے ہودہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ کیا صرف حکومت  پر تنقید کرنے سے دہشت گرد بن جاتا ہے؟انہوں نے کہا کہ نومئی کو لوگوں کو تشدد پر اکسانے کے الزام پر ان کے اور دیگر صحافیوں کے غداری کا مقدمہ درج کیا گیا، ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے مقبول ترین رہنما کی گرفتاری کی دنیا نے مذمت کی اور سوشل میڈیا پر اپنے اپنے انداز میں تبصرہ کیا۔ تو کیا وہ سب بھی غداری کے زمرے میں تھے؟شاہین صہبائی کے مطابق عمران خان کی گرفتاری پر عوام نے جو ردعمل دیا بدقسمتی سے وہ غلط رخ اختیار کرگیا، انہوں نے نشاندہی کی کہ عمران خان کو تو اڑتالیس گھنٹے میں رہا کردیاگیا لیکن ان کے ہزاروں فالوورز گرفتار کرکے جیلوں میں ڈالا گیا، ان کی پارٹی پر ورچوئل پابندی لگادی گئی، میڈیا کو سنسرشپ کا نشانہ بنایاگیا، تمام ٹی وی چینلز پر عمران خان کے نام لینے پر پابندی لگادی گئی۔ شاہین صہبائی نے بتایا کہ اس قسم کے بے ہودہ مقدمات کوئی نئی بات نہیں، 1990 میں اسلام آباد میں پانچ صحافیوں کو اس وقت اٹھایا گیا جب وہ پاک بھارت سیکرٹری سطح کے مذاکرات کی بریفنگ سے باہر آئے۔ میں ان میں سب سے چھوٹا تھا۔ انہوں نے ہمیں گھنٹوں تک بے مقصد ڈرائیو کیا اور پھر خون اور پیشاب کے ٹیسٹ کے لیے ہسپتال لے گئے اور شراب پینے کے الزام میں کیس کردیا۔ انہوں نے ہمیں اپنے دوستوں اور اہل خانہ سے دور رکھا لیکن جب اسلام آباد کے صحافیوں نے زوردار احتجاج کیا تو 24 گھنٹوں میں وہ ہمیں ہتھکڑیاں لگا کر عدالت لے گئے جہاں سے ہمیں فوراً ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ شاہین صہبائی نے کہا کہ انہوں نے عدالت میں الزامات کا بھرپور طریقے سے مقابلہ کیا، اور چونکہ میڈیکل ٹیسٹ کے نتائج سے تمام الزامات جعلی ثابت ہوئے، ہم سب کو باعزت بری کر دیا گیا۔ 1992 میں نواز شریف کی دوسری حکومت کے دوران میرے گھر پر دوسرا حملہ ہوا اور تین نقاب پوش افراد اندر داخل ہوئے، میرے بچوں کو ماراپیٹا اور ہرممکن چیز لوٹ اور میرے بیٹے کو وارننگ دیتے ہوئے چھوڑ دیا کہ وہ مجھے لکھنے سے منع کرے۔ دوبارہ 2002 میں جب میں دی نیوز کا گروپ ایڈیٹر تھا تو ایک غیرضروری تصادم اس وقت شروع ہوا جب میں نےکامران خان کی ایک اسٹوری پر ذاتی طور پر معافی مانگنے سے انکار کردیا تھا، اس وقت کے ڈرٹی ہیری بہت مغرور تھے جنہوں نے جنگ گروپ کے تمام اخبارات کی تمام ادائیگیوں، اشتہارات اور فروخت کو روک دیا۔ میں اپنے موقف پر قائم رہا اور ڈرٹی ہیری سے ملنے کے بجائے استعفیٰ دے دیا۔شاہین صہبائی کے مطابق پانچ سال بعد اسلام آباد کلب میں اسی ڈرٹی ہیری نے مجھ سے معافی مانگی یہ لوگ جب ریٹائرڈ ہوجاتے ہیں یا یونیفارم اتارتے ہیں ہمیشہ پچھتاوا کرتے ہیں۔شاہین صہبائی نے تازہ ترین کیس کو مبہم قرار دیا، ایف آئی آر میں الزام لگایاگیا کہ میں نے تشدد یا دہشت گردی کیلئے اکسایا، اپنی پچاس سالہ فعال صحافت میں رہنے کے بعد  کوئی بھی پاگل دماغ اس طرح کے الزام کے بارے میں سوچ سکتا ہے جیسا کہ میں نے ہزاروں مضامین لکھے ہیں لیکن مجھ پر کبھی ایسا کوئی الزام نہیں لگایا گیا۔انہوں نے کہا کہ انہیں پورا یقین ہے کہ “ماضی کی طرح، چند ماہ یا اس سے بھی پہلے، وہ لوگ جو عوام اور خاص طور پر میڈیا کو مجبور کرنے کے لیے استعمال ہو رہے ہیں، وہ ہم سے پرائیویٹ طور پر اور ہاتھ باندھے معذرت او معذرت کے ساتھ ملیں گے۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں