تحریر: محمد عامر ہاشم خاکوانی
آج کچھ دیر کے لئے جیو سوپر کا سپورٹس پروگرام دیکھا جس میں خاتون اینکر کے ساتھ سابق کرکٹر سکندر بخت اور جنگ کراچی کے سینئر سپورٹس رپورٹر عبدالماجد بھٹی بطور تجزیہ کار موجود تھے۔ توقع اور اندازہ پہلے ہی تھا ،مگر ایک بار پھر صدمہ ہوا کہ دونوں تجزیہ کار انتہائی متعصبانہ ، زہریلے ، یک رخے تبصرے کرتے رہے۔
سکندر بخت کے گھٹیا پن کی انتہا کو پہنچے تعصب اور سراپا منفی شخصیت کا بخوبی اندازہ تھا۔ انہوں نے ایک بار پر قومی کرکٹ ٹیم کے کوچ ، چیف سلیکٹر مصباح الحق کی پریس کانفرنس کے ہر جملے کا غلط مطلب نکالنے کی کوشش کی۔ ماجد بھٹی صاحب الا ماشااللہ اس میں بھرپور ہاتھ بٹا رہے تھے۔
مجھے حیرت اس پر ہوئی کہ ایک بڑے چینل کی انتظامیہ آخر کس طرح ایک اوسط درجے کے سابق کرکٹر اور ایک سپورٹس رپورٹر کو یوں لائسنس ٹو کِل دے سکتی ہے؟کیا انہیں نظر نہیں آ رہا کہ ایک بڑے کھلاڑی اور قومی ٹیم کے کوچ کے خلاف کس طرح یک طرفہ زہریلی مہم چلانے کی کوشش ہو رہی ہے؟ چینل تو ناظرین کا ہے، لاکھوں ، کروڑوں لوگ اسے دیکھتے ہوں گے ان میں بے شمار مصباح یا کسی اور کھلاڑی کے حامی ہوں گے۔ فخرزماں کے خلاف بھی سکندر بخت خوب بولتے رہے۔ انہیں عابد علی سے کیا ہمدردی ہوسکتی تھی، کبھی اس کے حق میں بات نہیں کی، صرف فخر کو ڈی ویلیو کرنے کے لئے عابد علی کی حمایت بھی کر ڈالی۔
بات تنقید کی نہیں۔ کسی بھی کھلاڑی ، کوچ پر تنقید ہوسکتی ہے، اصل نکتہ یہ ہے کہ توازن برقرار رکھا جائے، چینل کو بیلنس تجزیے اور رپورٹنگ کرنی چاہیے اور اگر اس کا کوئی تجزیہ کار یا رپورٹر ذاتی مفاد، پسند ناپسند یا کسی بھی لسانی، علاقائی وجہ سے شدید تعصب ، یک طرفہ، یک رخے پروگرام کر رہا ہے تو انہیں روکنا چاہیے۔
سکندر بخت کی اپنی کیا ساکھ یا حیثیت ہے، دراصل وہ جیو سوپر کی بدنامی اور ڈس کریڈٹ کا باعث بن رہے ہیں۔میں سوچ رہا تھا کہ اس قسم کے پروگرام پر ناظرین کس طرح اپنا احتجاج ریکارڈ کرا سکتے ہیں ؟(محمد عامر ہاشم خاکوانی)۔۔
(مصنف کی تحریر میڈیابائٹس پر شائع ہوئی تھی جس سے عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر)