تحریر: علی عمران جونیئر۔۔
جیو نیوز کے کے ملازمین نے بڑے بڑے دعوے کیے لیکن مالکان کے سامنے وہ دعوے اور ملازمین کی بنائی ہوئی کمیٹی مٹی کا ڈھیر ثابت ہوئی۔۔ پپو کے مطابق جیو کی تالہ بندی جو ملازمین نے صبح دس بجے کی تھی وہ تو اسلام آباد میں موجود اعلی افسر نے 12 بجے ہی ختم کروا دی، حالانکہ وہ گذشتہ جمعہ کو تمام ڈپارٹمنٹ کے ملازمین کے سامنے کہہ چکے تھے کہ متفقہ طور پر بنائی گئی کمیٹی جو فیصلہ کرے گی میں اس کی مکمل حمایت کرونگا اور اس کے ساتھ ہوں، اگر تمام تنخواہیں ایک ساتھ ادا نہیں کی گئیں تو سب سے پہلے میں استعفی دونگا، استعفے دینے کے ایسے ہی دعوے کراچی میں ایم ڈی اظہر عباس بھی کررہے تھے، لیکن درپردہ یہی اعلی افسران کارکنان کو ڈرا بھی رہے تھے کہ مارکیٹ میں نوکریاں ویسے ہی نہیں ہیں، ہم نہیں چاہتے کہ آپ بیروزگار ہوں، ہم تو آپ کی نوکریاں بچانے کیلئے رکے ہوئے ہیں ورنہ کب کے چھوڑ چکے ہوتے وغیرہ وغیرہ۔۔
پپو کے مطابق جمعہ کو اسلام آباد میں کارکنان کی میٹنگ میں ایک سینئر اینکر نے تو یہ تک کہا تھا کہ اگر گرفتاری کی نوبت آتی ہے تو سب سے پہلے وہ گرفتاری دیں گے، جب بات گرفتاری تک کی ہوچکی تھی تو اعلی افسر کا ہڑتال کو غیر قانونی کہہ کر تالے کھلوانے کا کیا مطلب ہوا؟ جب اعلی افسر نے اپنی اور ورکرز کی بنائی ہوئی کمیٹی کے ہر فیصلے کی حمایت کرنی تھی اور یہ طے کیا گیا تھا کہ تالہ بندی ہوگی تو انہوں نے سب سے پہلے کمیٹی کے فیصلے کو واپس کیوں کروایا؟ پپو کے مطابق یہ بہت گہرا راز ہے، اس کے پیچھے بڑے مفادات ہیں۔۔جسے فی الحال راز ہی رہنے دیں۔۔۔
پپو کا کہنا ہے کہ میٹنگ کے دوران میر شکیل الرحمان نے کہہ دیا تھا کہ ان کے پاس دینے کو پیسے نہیں، جب کمیٹی کے ارکان نے انہیں پرانے وعدے یاد دلائے تو انہوں نے کہا کہ آپ حکومت سے میرے پیسے جو کہ ایک ارب روپے کے لگ بھگ ہیں وہ دلوا دیں تو میں آپ کی تنخواہ ادا کردیتا ہوں، پپو کے مطابق کمیٹی ارکان نے کہا کہ آپ نے کبھی منافع میں تو ملازمین کو شیئر نہیں دیا تو وہ نقصان میں کیوں حصہ دار بنیں، اس پر میر شکیل نے کراچی بیورو چیف فہیم صدیقی کو کہا کہ جیو میں آنے سے پہلے تمہارا کیا لائف اسٹائل تھا اور اب کیا ہے، تمہارے خاندان والے تمہارے ٹھاٹھ باٹھ دیکھتے ہیں، یہ سب جیو نے ہی تو دیا ہے، یہی تو شیئر ہے ملازمین کا رہن سہن اتنا اوپر اٹھا دیا، پپو کا کہنا ہے کہ اس میٹنگ میں کچھ لوگ ڈبل پالیسی پر عمل پیرا رہے۔۔ وہ بظاہر تو مالکان کی مخالفت کررہے تھے لیکن درپردہ وہ کارکنان کو اور کمیٹی کو بھی پریشر میں لے رہے تھے، ان کے تمام سوال وہ تھے جن کہ جواب پہلے سے طے شدہ تھے یا سب ہی لوگ جانتے تھے۔۔
پپو کے مطابق سات رکنی وہ کمیٹی جس میں چار افراد اسلام آباد سے، دو کراچی سے اور ایک لاہور سے تھا یہ تمام افراد مالکان سے میٹنگ سے قبل اپنے ورکرز اور ملازمین سے کہہ کر آئے تھے کہ اگر ساڑھے تین تنخواہیں ادا نہیں کی جاتیں تو جیو کی اسکرین بلیک ہوجائے گی، کوئی شخص کام نہیں کرے گا، لیکن اس کے برعکس جب میر شکیل اور میر ابراہیم کے ساتھ کمیٹی کی میٹنگ ہوئی تو کمیٹی کے ہی کچھ ارکان نے اسکرین بلیک ہونے کی مخالفت کردی۔
پپو کے مطابق میر شکیل الرحمان نے کبھی قرآن کی قسم کھائی تو کبھی اپنے بیٹے میر ابراہیم پر ہاتھ رکھ کر قسم کھائی اور کبھی کلمہ طیبہ مبارک پڑھ کر قسم کھائی کہ ان کے پاس ملازمین کو دینے کیلئے پیسہ نہیں لیکن دو سیشنز میں ہونی والے تقریبا دو گھنٹے طویل مذاکرات کا اختتام اس بات پر ہوا کہ عید سے قبل ملازمین کی دو تنخواہیں ادا کردی جائیں گی، یعنی دو یا تین جون تک فروری اور مارچ کی تنخواہیں ادا کردی جائیں گی، لیکن میر شکیل نے واضح کہا کہ وہ جون میں کوئی تنخواہ ادا نہیں کریں گے، مطلب جولائی تک پھر تین مہینے اپریل، مئی اور جون کی تنخواہیں نیچے لگی ہونگی۔ یعنی کھایا پیا کچھ نہیں، گلاس توڑا بارہ آنا۔۔پپو کے مطابق مذاکرات تو مالکان اور کمیٹی ارکان کے درمیان ہونا طے پائے تھے لیکن ان مذاکرات میں ایک اعلی افسر بھی موجود تھے، اب یہ نہیں معلوم کہ وہ کس کی طرف سے تھے، کیونکہ اپنے فیصلے کا اختیار تو وہ پہلے ہی ملازمین کی کمیٹی کو دے چکے تھے یہ کہہ کر کہ کمیٹی جو فیصلہ کرے گی میں اس پر عمل کرونگا۔پپو کا کہنا ہے کہ جب مذاکرات میں ہی وہ لوگ بیٹھے ہوں جن کے مفادات جیو نیوز اور چینل مالکان سے وابستہ ہوں اور چینل سے الگ ہوکر ان کی کوئی اوقات نہ ہو تو وہ بھلا کیا مذاکرات کریں گے، بس سب ہی اپنی نوکری پکی کرکے خوشی خوشی اٹھ گئے۔۔
مذاکرات کا جو چار سطر کا اعلامیہ جاری ہوا اس میں بھی ایک کمیٹی ممبر کے دستخط موجود نہیں ہیں، اس بارے میں جب کراچی میں پپو نے تھوڑی بہت سن گن لی تو معلوم ہوا کہ مذاکرات کے دوران ان صاحب کے کچھ دوست ان سے ملنے آئے تو وہ مذاکرات چھوڑ کر ان کے ساتھ باہر چلے گئے اور پھر لوٹ کر ہی نہیں آئے، یعنی جو صاحب کراچی سے اسلام آباد مالکان سے مذاکرات کرنے اور ملازمین کی تنخواہ مانگنے گئے تھے وہ اپنے نجانے کب کے بچھڑے دوستوں سے ملنے چلے گئے اور اس بات کی بھی پرواہ نہیں کی کہ ملازمین کیلئے کیا فیصلہ ہوتا ہے۔۔
مذاکرات کے اعلامیے کی اخلاقی حیثیت تو ہوسکتی ہے لیکن قانونی کوئی حیثیت نہیں، کیونکہ وہ ایک سادے پیپر پر جاری کیا گیا، پپو کا کہنا ہے کہ جو شخص پہلے بہت بڑی بڑی قسمیں اٹھائے کہ دینے کو پیسے نہیں اور پھر دو تنخواہیں دینے پر مان جائے اس پر کتنا بھروسہ کیا جاسکتا ہے؟ پھر جو شخص اپنے ماضی کے تمام وعدوں سے مکر جائے اور بولے کے وہ وعدے نہیں تھے بلکہ میں نے کہا تھا کوشش کرونگا، اور کوشش تو ناکام بھی ہوسکتی ہے۔پپو کے مطابق مالکان سے مذاکرات میں دیگر مطالبات جیسے گریجویٹی، تنخواہوں میں کٹوتی کی واپسی، پراویڈنٹ فنڈ اور دیگر پر سرے سے کوئی بات ہی نہیں کی گئی۔۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ملازمین جنوری کی آدھی تنخواہ ملنے کے بعد دو تنخواہوں کا سوچ کر خوش بھی ہیں اور کنفیوز بھی، کیونکہ کسی کو بھی بھروسہ نہیں کہ عید سے پہلے دو تنخواہیں آجائیں گی، البتہ ہائیر مینجمنٹ اپنا پرانا والا کردار ادا کرنے میں مصروف ہے، کراچی سے پشاور تک لوگوں کو ڈرایا دھمکایا جارہا ہے کہ عید کے بعد بڑے پیمانے پر رائٹ سائزنگ ہوگی جو کہ مالکان کا حق ہے۔ یعنی مالکان کا حق تو یاد ہے، ملازمین کا کوئی حق ہی نہیں۔۔
حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ جس دن یعنی پیر کے روز ہڑتال کی گئی اسی رو زایک جید صحافی اور صحافی رہنما نے واٹس ایپ گروپ میں پروگرام رپورٹ کارڈ کی ریکارڈنگ کے لئے اپنی موجودگی کا میسیج کیا اور کہا کہ وہ ریکارڈنگ کے لئے حاضر ہیں۔۔ مذاکرات کے دوران ہی کمیٹی کے چار ارکان اور دیگر لوگ جو ورکرز اور دیگر بیوروز کی نمائندگی کررہے تھے مالکان کے سامنے بیٹھ کرجب بات چیت کررہے تھے تو ان میں سے صرف کمیٹی کا ایک رکن ہی تھا جس نے بہت سخت لہجہ اختیار کیا، باقیوں کا رویہ معذرت خواہانہ تھا۔۔ جب ایک موقع پر میرشکیل نے کہا کہ چینل خسارے میں ہے چھانٹیاں کرنا ہونگی تو سخت لہجے والے کمیٹی کے رکن نے کہا کہ چھانٹی کیوں کرینگے آپ کو جب خسارہ ہورہا ہے تو بند کیوں نہیں کردیتے ؟؟ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ایک طرف تو جیواور جنگ کے مالک بحران کا رونا رورہے ہیں ، خسارے کی رٹ لگائے ہوئے ہیں دوسری طرف جب پیمرا نےنئے چینلز کے لائسنس جاری کئے تو پی بی اے کے ذریعے اسے ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا ۔۔یعنی میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھوتھو۔۔ یہ چاہتے ہیں کہ قیامت تک ان کی اجارہ داری رہے، دیگر کاروباری گروپ اس میدان میں نہ اتریں۔۔ کسی اور کو میڈیا انڈسٹری میں آنے کا کوئی حق نہیں صرف ان کی اجارہ داری رہے اور یہی ریس کے گھوڑے بنے رہے، کنگ میکر بنے رہیں۔۔ سوچنے کی بات ہے کہ نئے چینل کے لائسنس خریدنے والوں نے انتیس کروڑ کے لائسنس لئے ہیں تو وہ کتنی سرمایہ کاری مزید کریں گے؟ کتنے صحافیوں کو روزگار ملے گا؟؟ نئے چینلز آنے کا صاف مقصد ہوگا کہ جس قسم کا میڈیا بحران پی بی اے نے کھڑا کیا ہے اس کی تو ہوا نکل جانی ہے۔۔ جب بیروزگار میڈیا ورکرز کو جابس ملیں گی، تنخواہیں وقت پر ملیں گی تو پھر کیسا میڈیا بحران اور کون سی پی بی اے؟؟ (علی عمران جونیئر)۔۔
(نوٹ: اس تحریر کے حوالے سے اگر کمیٹی کے کسی رکن، مذاکرات میں موجود کسی بھی جیوملازم کو یا جیونیوز سے تعلق رکھنے والے کسی بھی ورکر ،افسر یا عہدیدار کو اختلاف ہویا جیوانتظامیہ یا پھر ان کا کوئی ترجمان بھی اپنا موقف دینا چاہے تو اپنا موقف ہمیں لکھ کر بھیج سکتا ہے، ہم اسے بھی شکریہ کے ساتھ شائع کریں گے۔۔علی عمران جونیئر)