تحریر: فریحہ ندیم۔
جیو نیوز کے ملازمین کی تعداد پورے پاکستان میں ہزاروں میں ہے ۔ ان میں سے کئی ایسے ہیں جن کی تنخواہیں بیس سے پچیس ہزار کے درمیان ہیں ۔مثلاً مانیٹرنگ ڈیپارٹمنٹ ،آرکائیو ،ٹی ایم ڈی اور اسی طرح دوسرے شعبے ہیں جہاں ملازمین بیس سے پچیس ہزارروپے میں کام کررہے ہیں۔فرض کیجئے آپ کی تنخواہ بیس ہزار ہے او ر آپ کو تین ماہ سے تنخواہ نہ ملی ہو اب ذرا سوچئے کہ گزاراکیسے ہوگا ۔مسئلہ جیو پر کام کرنے والے اینکر ز،ڈیپارٹمنٹ ہیڈ اور بڑے عہدوں پر قیمتی مراعات لینے والوں کا نہیں ہے ۔ان کی لا کھوں میں تنخواہ ہے اور سب ہی کا کہیں نہ کہیں اپنا سائیڈ بزنس چل رہاہے۔ کسی نے اسکول، کسی نے نائی کی دکان تو کسی نے ہوٹل کھول رکھا ہے ،کوئی ٹائلز کا کاروبارکررہا ہے تو کسی نے سرکاری اسپتال میں پانی کا سیٹ اپ لے رکھا ہے، باقی تفصیلا ت ہیں ۔البتہ اس میں کوئی حرج بھی نہیں ۔ بلکہ ان بڑے عہدوں پر فائز افراد نے اچھا ہی کیا جو کاروبار شروع کردیئے کیوں کہ کچھ معلوم نہیں کب کوئی ادریس بختیار بن جائے اورجیو نیوز سے نکال دیا جائے ۔لہٰذا ہمیں جیونیوزمیں رہتے ہوئے کاروبار کرنے والوں پر تنقید نہیں کرنا چاہئے بلکہ ان کی حوصلہ افزائی کرنا چاہئے ۔تو میں عرض کررہی تھی کہ یہ لوگ تو اپنا گزربسر بہت اچھے انداز میں کرلیں گے بے شک چھ ماہ تک تنخواہ نہ آئے لیکن آپ ایک لمحے کیلئے سوچئے تو صحیح وہ مزدور جس
کی تنخواہ بیس ہزار روپے ہے اس کا کیا حال ہوگا ،جیو نیوز میں بیس سے پچیس ہزاروالوں کو آخر ی تنخواہ فروری کی دی گئی تھی ۔ مئی کا مہینہ شروع ہوچکا ہے لیکن ابھی تک مارچ کی تنخواہ بھی ادا نہیں کی گئی ۔رمضان کاپہلا عشرہ تقریباً گزر گیا لیکن یہ بیس ہزار والے جیو کے مزدور تنخواہوں سے محروم ہیں ،یہ خون کے آنسوپینے پر مجبور ہیں ،ان کی صدائیں سننے والا کوئی نہیں کیوں کہ جب ملازمین شعبے کے سربراہ سے پوچھتے ہیں تو ڈیپارٹمنٹ ہیڈ کا جواب ہوتا ہے کہ ابھی شکیل الرحمان صاحب پر برا وقت ہے ہمیں تھوڑا صبرکرنا چاہئے ۔سوال یہ ہے کہ جب بیس ہزاروالے ملازم کا بچہ دودھ مانگے تو کیا بچے کو باپ یہ کہے کہ بیٹا ابھی میرا مالک اندر ہے تمہیں تھوڑا صبر کرنا چاہئے ،افطاری میں بچے پھل مانگیں تو انہیں باپ کہے کہ بیٹا نمک سے روزہ کھول لو ابھی میرا مالک اندر ہے ۔سوال تو ایک اور بھی ہے ۔ جب میرشکیل الرحمان جیل کی سلاخوں کے پیچھے نہیں تھے تو کیاتنخواہیں وقت پر آرہی تھیں ؟ نہیں بالکل نہیں ۔لہٰذا میرشکیل الرحمان کی گرفتاری کا بہانہ بناکر تنخواہیں نہ دینا ایک اور غلط بیانی ہے ۔ کیوں کہ اشتہارا ت میرشکیل کی گرفتاری سے پہلے بھی چل رہے تھے اور اب بھی چل رہے ہیں۔جیو نیوز میں مارکیٹنگ ٹیم میں کام کرنے والے ایک کارکن کا دعویٰ ہے کہ جیونیوز پر ماہانہ 15کروڑ روپے کے اشتہار ات چلتے ہیں اس کے علاوہ جو ”مہم“کی دولت ہے اس کا کوئی حساب نہیں۔ذرائع کا دعوی ہے کہ جیو نیوز انتظامیہ نے فیصلہ ہے کہ بیس سے پچیس ہزاروالوں کومئی میں صرف ایک تنخواہ دی جائے گی یعنی یہ ملازمین عید بغیر پیسوں کے گزاریں گے کیوں کہ جو رواں ماہ تنخواہ آئے گی اس سے ملازمین کریانے والے اوردوست رشتے داروں کاادھاراداکریں گے ۔ظاہر سی بات ہے بیس پچیس ہزار روپے جس بندے کی تنخواہ ہو اور اور تین ماہ کی تنخواہ بیک لاک پر ہو ایساملازم تو ادھار کے بل پرہی بچوں کاپیٹ پال سکتا ہے۔
اب اگراِن جیوملازمین کے بیوی بچے نئے کپڑوں کی فرمائش کریں تو یہ کہیں کہ خیال کروابھی میرا مالک جیل میں ہے ۔کبھی کبھی ہم تھوڑے سے منافعہ کے لئے بہت بڑانقصان کرابیٹھتے ہیں ۔کہیںایسا تو نہیں کہ میرشکیل الرحمان پر اتنا مشکل وقت اِن ملازمین یا اُن کے بچوں کی بددعا کانتیجہ ہے ؟جب کسی جیو کے ملازم نے بیوی کو خرچہ مانگنے پر ڈانٹا ہو اوراس کی نظر جیو نیوز پر چلتے ہوئے اشتہاروں پرپڑی ہو تو جیو کے مالک کیلئے اس کے دل سے کوئی آہ نکلی ہوجس نے عرش ہلادیاہو، کہیں ایسا تو نہیں کہ بیس ہزاروالاملازم دفترسے گھر آرہا ہواس کی بائیک کاٹائرپنچرہواہو اور اس کی جیب میں پنچرلگوانے کے ستر روپے بھی نہ ہوں اور بے بسی کے عالم میں اس نے اللہ سے فریاد کی ہو کہ یا اللہ اب میرے مالکان کو تو ہی دیکھ ۔۔۔اللہ کے عذاب کاایک طریقہ یہ بھی ہے کہ وہ دوظالموں کو آپس میں لڑا دیتا ہے ۔ میر شکیل اوران کے فرزندمیرابراہیم ان بیس ہزارروپے والے مزدوروں کو تنخواہیں دینے کے حکم نامے پر جلد دستخط کردیں ورنہ یادرکھیں غریب کی آہ سلطنتیں تباہ کردیتی ہے پھر آپ تو صرف ایک میڈیا گرو پ کے مالک ہیں۔(فریحہ ندیم)۔۔
(یہ تحریر جیوکی ایک ورکر کی ہے جس کا نام بدل کا شائع کررہے ہیں، اس تحریر کے مندرجات سے عمران جونیئر اور اس کی پالیسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔۔ اگر کوئی تحریر سے اختلاف رکھتا ہے تو اپنا موقف ہمیں لکھ کر بھیج سکتاہے اسے بھی ضرور شائع کریں گے۔۔علی عمران جونیئر)۔۔