اسلام آباد ہائیکورٹ نے مقتول بیرسٹر فہد کے اہل خانہ کی چیف جسٹس کے نام اپیل کا اشتہار شائع کرنے پر توہین عدالت از خود نوٹس کیس میں ایڈورٹائزنگ ایجنسی اور اپیل کنندہ کو بھی نوٹس جاری کر دیا ہے۔ عدالت نے دی نیوزکے ایڈیٹر انچیف کو بیان حلفی جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے عدلیہ مخالف اشتہار کی اشاعت کے عمل کی تفصیلات طلب کر لی ہیں۔ دوران سماعت جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دئیے کہ ایک جج کے بارے میں اشتہار چھپا جو ایک کیس کا ٹرائل کر رہے ہیں ، ججز کو دباؤ میں لانے کا یہ ایک نیا طریقہ ہے ، ایڈیٹر اور پبلشر بہرحال اس کا ذمہ دار ہوتا ہے ، بتایا جائے یہ اشتہار کس طرح دفتر تک پہنچا اور کون کون اس کی اشاعت کے عمل میں شامل تھا؟ اپنی نیک نیتی ثابت کرنے کیلئے یہ چیزیں جمع کرائیں ، توہین عدالت از خود نوٹس کیس کا مقصد سزا دینا نہیں ، مستقبل میں چیزوں کی درستگی ہے۔ عدالت نے بیرسٹر فہد قتل کیس کے ملزم ارشد ملک کے بھائی کی توہین عدالت کی درخواست پر تمام فریقین کو ذاتی حیثیت میں طلب کرتے ہوئے دونوں کیسز کی سماعت 13جون تک ملتوی کر دی۔ گزشتہ روز سماعت کے موقع پر دی نیوز کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمن اور ایڈیٹر عامر غوری پیش ہوئے۔ عامر عبداللہ عباسی ایڈووکیٹ نے اپنے معاون رانا وسیم اسلم ایڈووکیٹ و دیگر کے ہمراہ دی نیوز کی پیروی کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ ایڈیٹر کی جانب سے وضاحت اور بیان حلفی جمع کرا دیا گیاہے جبکہ میر شکیل الرحمن رات ہی دبئی سے آئے ہیں ، ان کا جواب بھی جمع کرا دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ایڈورٹائزنگ ایجنسی کی جانب سے اشتہار کی اشاعت کے بعد اسی انداز میں معذرت بھی چھاپی گئی ہے۔ ہم نے غلطی تسلیم کی ہے۔ اس سے ہمیں سیکھنے کا موقع ملا ہے۔ ہم نے معاملے کی انکوائری بھی شروع کر دی ہے۔ جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ججز کو دباؤ میں لانے کے لئے اشتہار کی اشاعت ایک نیا طریقہ ہے ، ججز فیصلے اشتہارات سے نہیں کرتے۔ انہوں نے استفسار کیا جس ایڈورٹائزنگ ایجنسی نے اشتہار دیا اس کا سربراہ کون ہے؟ عامر عبداللہ عباسی ایڈووکیٹ نے بتایا کہ ایڈورٹائزنگ ایجنسی کے سربراہ سید مسعود ہاشمی ہیں ، اخبار میں شعبہ اشتہارات ہوتا ہے اور جو ایڈورٹائزنگ ایجنسیوں کو ڈیل کرتا ہے۔ جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ایڈورٹائزنگ ایجنسی سے اشتہار کی اشاعت تک کسی ایک کو تو ذمہ دار قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اشتہار میں چیف جسٹس آف پاکستان ، چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اور ایڈیشنل سیشن جج کے نام شامل ہیں ، اگر ٹرائل کورٹ کے جج کے خلاف کوئی ثبوت ہیں تو پیش کئے جائیں، اگر ثبوت نہیں تو پھر یہ غلط بات ہے ، الزام لگنے پر ٹرائل کورٹ کا جج دباؤ میں آ سکتا ہے۔ پی ایف یو جے کے سابق صدرافضل بٹ نے کہا یہ پہلا کیس ہے کہ اشتہار کے ذریعے ایسا ہوا، ورنہ کورٹ رپورٹرز کو حساسیت کا علم ہوتا ہے۔ امید ہے کہ آئندہ ایسا نہیں ہو گا۔ دوران سماعت فہد ملک قتل کیس کے ایک ملزم ارشد ملک کے بھائی انصر محمود سے عدالت نے استفسار کیا کہ اس معاملے پر عدالت از خود نوٹس لے چکی ہے ، آپ کی درخواست کیسے مختلف ہے؟ اس پر انصر محمود ایڈووکیٹ نے کہا کہ اخبار میں اشتہار کی اشاعت کے علاوہ الیکٹرانک میڈیا میں بھی مقتول کی والدہ کی پریس کانفرنس اور انٹرویو ہوئے جس پر دیگر افراد کو بھی فریق بنایا ہے۔ عدالت کے استفسار پر انصر محمود ایڈووکیٹ نے بتایا کہ اشتہار بعد میں شائع ہوا ، الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا پر مقتول کی والدہ کی پریس کانفرنس پہلے چلی اور پروگرام نشر ہوئے۔ انصر محمود نے کہا کہ 27مئی کو عدالت نے فیصلہ سنانا تھا جو نہیں سنایا جا سکا ، ٹرائل کورٹ کے جج پر الزام کی صورت میں ملزمان کا فیئر ٹرائل کا حق متاثر ہو گا۔ اس پر عدالت نے انصر محمود کی جانب سے دائر توہین عدالت کی درخواست پر جواد سہراب ملک ، ملک طارق ایوب ، ملیحہ ملک ، ایڈیٹر انچیف جنگ جیو گروپ میر شکیل الرحمن ، ایگزیکٹو ڈائریکٹر جنگ جیو گروپ میر ابراہیم رحمن ، جیو پاکستان پروگرام کے میزبان عبداللہ سلطان اور ہما امیر شاہ ، رپورٹر جیو نیوز ایاز اکبر یوسف زئی ، ایڈیٹر دی نیوز عامر غوری ، دی نیشن کے رپورٹر اسرار احمد ، ایڈیٹر انچیف ڈیلی دی نیشن رمیزہ نظامی اور چیئرمین پیمرا محمد سلیم بیگ کو بھی نوٹس جاری کرتے ہوئے انہیں ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا۔ اس موقع پر عامر عبداللہ عباسی ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ میر شکیل الرحمن دبئی سے کیس میں حاضری کیلئے آئے ہیں جہاں وہ اپنا علاج کرا رہے تھے ، علالت کے باعث ان کیلئے بار بار سفر کرنا ممکن نہیں ہے لہٰذا انہیں حاضری سے استثنیٰ دیا جائے۔ اس پر جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دیدیں۔ عدالت نے اخبار میں اشتہار کی اشاعت کے طریقہ کار اور ایڈورٹائزنگ ایجنسی کی مکمل تفصیلات طلب کرتے ہوئے ایڈورٹائزنگ ایجنسی اورینٹ اور اپیل کنندہ کو بھی 13جون کو عدالت طلب کر لیا ہے۔
جیونیوزکے مارننگ شواینکرزکی عدالت میں طلبی۔۔
Facebook Comments