تحریر: ایک جیووالا۔۔۔
منگل کی شام روز مرہ کے جھمیلوں سے فارغ ہوکر جگری دوست سے گپ شپ کے ارادے سے نکلا اور سیدھا مقررہ کوئٹہ وال چائے کے ہوٹل جا پہنچا ۔ اپنے دوست کو ہوٹل میں وقت سے پہلے دیکھ کر کچھ حیرانی تو ضرور ہوئی مگر خوشی بھی ہوئی کہ چلو آج انتظار کے کٹھن مرحلے سے گزرنا نہیں پڑے۔ دوست سے ملاقات کرکے احساس ہوا کہ حسب معمول والا جوش وخروش کچھ ماند پڑگیاہے۔ ضرورت سے زیادہ چہرے پر نظر آنے والی پریشانیاں صاف کہہ رہی تھیں کہ ضرور کوئی مشکل آن پڑی ہے۔ اپنے دوست سے اس کی مشکل اور پریشانیوں سے متعلق پوچھا کافی کریدا تو دوست نے بتایا کزشتہ تقریبا نو سال سے جیو میں جاب کررہاہوں۔ ملک کے معاشی حالات پہلے ہی انتہائی دگرگوں ہیں اوپر سے اس کو جواز بناکر ادارے نے پانچ سال سے تنخواہوں میں ایک روپے کا بھی اضافہ نہیں کیا۔ اللہ اللہ کرکے ستائیس ہزار میں بمشکل تیس دن گزارا ہوتا ہے۔ بظاہر تو ستائیس ہزار روپے کی رقم کافی معلوم ہوتی ہے مگر جب موٹر سائیکل کا خرچ ماہانا 6 سے 7 ہزار روپے ہو۔ بجلی گیس کا بل اور پانی کے ٹینکر کا بھتہ نکال دیا جائے تو مشکل سے 16 ہزار روپے باقی بچتے ہیں جس میں مہینے کے تیس دن کا گزارا کرنا پلس غمی خوشی، آنا جانا سارے اخراجات اسی 16 ہزار میں پورے کرنے ہوں تو بندہ چکرا جاتاہے۔
دوست نے اپنی بات جاری رکھی اور بولا: گزشتہ دسمبر میں چھ سال بعد ادارے نے تنخواہوں میں اضافے کی نوید سنائی تو اللہ کا بے شمار شکر ادا کیا کہ چلو دیر آید درست آید کے مصداق ادارے کو اپنے ورکرز کا خیال تو آیا۔ سوچا کہ چلو ایک طویل اندھیری رات کا خاتمہ قریب ہے۔ ایسے ایسے مشکل دن گزارے کے دو دو ماہ بغیر تنخواہ کے، ادھار پر گزارا کیا، لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہوئے۔ مگر ملکی حالات سمیت ادارے کے برے وقت میں بھی اپنا پیٹ کاٹ کر ساتھ دیا۔ ہمیشہ ادارے کے شانہ بشانہ کھڑے رہے۔ مگر ساری امیدیں ساری خوشیاں اور خواب خاک میں اس وقت مل گئے جب سیلری انکریمنٹ کا لیٹر ہاتھ میں آیا۔
میں نے کہا کہ چلو یار پانچ چھ سال بعد ہی سہی کم از کم چھ سات ہزار تو بڑھائی ہی ہوگی تنخواہ، تو وہ بولا: ارے نہیں بھائی لیٹر کھولا تو دیکھا ادارے نے یہ احسان کیا ہے کہ دس پرسنٹ کے حساب سے دوہزار سات سو روپے کا اضافہ کیا ہے۔ میرا دل تو خون کے آنسو رونے لگا کہ یارچھ سال بعد تنخواہ میں اضافہ ہوا اور وہ بھی صرف ستائیس سو روپے؟ مطلب پانچ سال پہلے اشیاء خوردو نوش کی قیمتوں اور آج کی قیمتوں میں جو اضافہ ہوا ہے اس کے مقابلے میں تنخواہ صرف ستائیس سو روپے بڑھانا زیادتی نہیں ہے؟ کیا یہ میرے جیسے چھوٹے چھوٹے ورکروں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف نہیں؟ کیا ادارہ سمجھتا ہے کہ ستائیس سو روپے بڑھاکر اس نے مجھ جیسے ورکرز پر بہت بڑا احسان کیا ہے؟ کیا ایسا نہیں ہوسکتا تھا کہ وہ ورکرز جن کی تنخواہیں پہلے ہی مہنگائی کے تناسب سے تیس ہزار روپے سے بھی کم ہیں ان کا کچھ خیال کیا جاتا؟ جو سفید ہاتھی پہلے ہی ادارے کو دونوں ہاتھ سے لوٹ رہے ہیں، جن کی تنخواہیں پلس مراعات سن کر خون کھول اٹھتا ہے ان کے مقابلے میں کم از کم چھوٹے ورکروں کا تو کچھ خیال کیا ہوتا۔
میں نے درمیان میں اسے جھوٹی تسلیاں دیں مگر ظاہر ہے تسلیوں سے مسئلے اور مشکلات تو دور نہیں ہوتیں۔ اس نے کہا: یہ بات سب جانتے ہیں گزشتہ تین سالوں میں جو مہنگائی بڑھی ہے اس نے نچلے طبقے کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ ایسے میں چھ سال بعد تنخواہوں میں اضافہ ہونا بڑی دل لگی کی بات معلوم ہوتا ہے مگر اضافے کے نام پر لولی پاپ پکڑا کر یہ سمجھنا کہ مشکل وقت میں ادارے نے ورکرز پر احسان کیا ہے سراسر ظلم اور نا انصافی ہے۔ اللہ کرے کہ ادارے کے مالکان اور ذمہ داران کو کم از کم یہ احساس ہوجائے کہ تیس ہزار روپے میں ان کے ورکرز کا گزارہ کیسے ہورہا ہے؟ کس طرح وہ اپنی سفید پوشی برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالی سب کو نیک ہدایت دے۔ میں اپنے دوست کو صرف تسلی ہی دے سکتا تھا وہ بھی جھوٹی، کیوں کہ میں خود جانتا ہوں کہ صرف تسلیوں سے پیٹ نہیں بھرتا۔میں سمجھتا ہوں صرف میڈیا ہی نہیں تمام بڑے اداروں کو جن کی آمدن کروڑوں اربوں روپے ہے، انہیں اپنے نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے ورکرز کا بھی کچھ نہ کچھ خیال رکھنا چاہیے۔ یہی ورکز کسی بھی ادارے کی ریڑھ کی ہڈی ہوتے ہیں۔(ایک جیو والا)۔۔