تحریر: سید عارف مصطفیٰ
موجودہ تبدیلی سرکار کی کارگزاریوں نے ویسے تو تبدیلی کے مفہوم کو ہی تبدیل کرکے رکھ دیا ہے لیکن جس شعبے میں سب سے زیادہ تبدیلی آتی دیکھی گئی ہے وہ میڈیا کا شعبہ ہے اور اس نے بڑی مشقت سے جمہوری دور میں بھی میڈیا کوبدترین آمریت کے دور کی یاد دلادی ہے ۔۔ اور یہ سب کچھ بالکل جنگی بنیادوں پہ ہوا ہے اور حکومتی مورچوں سے آئے روزپالیسی کے نام ایسی گولہ باری معمول بنتی جارہی ہے کہ جسکے نتیجے میں اہل صحافت کے زخم گہرے ہوتے جاتے ہیں ۔۔ اسکے ان میڈیا اقدامات کی زد میں یوں تو زیادہ تر چینل آئے ہیں لیکن جسکا جتنا حجم ہے اس پہ اسکے اثرات کی شدت اتنی ہی زیادہ ہے سو اگر اس وقت جیو نیوز والے سب سے بڑھ کر شدید ابتلاء کی زد میں ہیں تو حیرت کیسی ۔۔۔ یہاں مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ جیو کے ملازمین نے بلاشبہ اپنی بساط کے مطابق اپنے ادارے کا بھرپور ساتھ دیا ہے لیکن بحران طویل تر ہوجانے پہ انکے صبر کا پیمانہ بھی چھلک پڑا ہے اور بالآخر وہ اپنی کئی ماہ کی تنخواہوں کی وصولی کے لیئے احتجاج کا رستہ اختیار کرنے پہ مجبور ہوگئے تھے -اب اچھی بات یہ ہوئی ہے کہ جیت میز کی ہوئی ہے اور مالکان اور احتجاجی کمیٹی نے مفاہمت کی راہ اختیار کی ہے اور وہ ایک سمجھوتے پہ راضی ہوکے اس پہ دستخط کرچکے ہیں یوں یہ بحران وقتی طور پہ تو ٹل گیا ہے اور ان حریف سازشیوں کی ناکامی ہوئی ہے کہ جواس بحرانی صورتحال کا فائدہ اٹھا کے جیو نیؤز پہ ہی کلہاڑا چلانے کے درپے تھے اور ان میں سے کچھ نے تو نے یقینناً جیو کے ہمدردوں کا چولا بھی پہن رکھا ہوگا کیونکہ وہ اس کی آڑ میں وہ اس مقام پہ قابض ہونا چاہتے تھے کہ جسے وہ کھلی مسابقت اور تماتر کوششوں کے باوجود معیار پہ سمجھوتے کرنے کے باعث تاحال حاصل نہیں کرپائے ہیں ۔۔
جہانتک ملازمین کے کی اہمیت کی بات ہے تو انکی حیثیت کسی بھی ادارے میں ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہوتی ہے اور انکے بغیر جیو تو کیا کوئی بھی ادارہ کچھ بھی نہیں اوریہ بات جیو کے مالکان بھی یقینناً بخوبی سمجھتے ہی ہیں جبھی انہوں نے انکے مطالبات کو بھی اہمیت دی ہے – یہاں یہ پہلو بھی مدنظر رکھا جانا چاہیئے کہ جیو کو درپیش مالی خسارہ کس حد تک سنگین ہے اور کس حد تک نہیں اس پہ تو شاید اختلاف رائے ہوسکتا ہے لیکن اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ جیو کے ادارے نے کبھی بھی اور کسی بھی مرحلے پہ ملازمین کو تنخواہوں کی مد میں واجب الاداء رقوم کے ہونے سے تو کبھی انکار نہیں کیا تھا اور یہ اس معاملے کا نہایت مثبت پہلو ہے – اب جبکہ تنخواہوں کی ادائیگی کی بابت مفاہمت ہوگئی ہے تو یہی وہ موقع ہے کہ اس ادارے کو درپیش حقیقی مسائل کی گہرائی اور وجوہات جاننے کی کوشش کی جائے اور اس بحران سے نپٹنے میں ادارے کے ساتھ کھڑا ہوا جائے تاکہ حکومت کے ظالمانہ اقدامات سے اس ادارے کی ٹوٹتی کمر کو اندرونی سہارا مل سکے اور موجودہ بحرانی حالات میں مسائل کو حل کرنے کے لیئے ہمیشہ بات چیت کا سہارا لیا جائے جس کا مرکزی جذبہ دونوں ہی فریقین کے لیئے ون ِون پوزیشن تک پہنچنا ہو – ویسے بھی جب تک بحران کے اسباب موجود رہینگے یہ پھر کبھی زندہ ہوسکتا ہے اور اب اس سے نپٹنے کے لیئے جامع اور دیرپا حکمت عملی اپنانی ہوگی-
اس مجؤزہ نئی حکمت عملی کے حوالے سے میں جیو کے ارباب بست وکشاد سے یہ بھی کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اس چینل کے مالکان اب صرف نشریاتی آمدنی پہ اکتفاء و انحصار کرنے کے بجائےاے آر وائی اور دنیانیوز و جی این این وغیرہ کی مانند دیگر زرائع آمدنی کے حصول کی طرف توجہ دیں کیونکہ حکومتی تیور صاف بتارہے ہیں کہ وہ میڈیا کے لیئے نت نئی طرح کی مصیبتیں کھڑی کرتی ہی رہے گی کیونکہ 9 ماہ کی حکومتی پالیسیوں یہ بالکل واضح ہوچکا ہے کہ تبدیلی سرکار کو اختلاف رائے برداشت نہیں اور وہ آزادیء اظہار کو پسند نہیں کرتی اور اس لیئے وہ مستقبل میں بھی حریت فکر پہ مبنی اشاعت و نشریات کا گلا گھونٹنے کے لیئے آئندہ بھی ہمہ اقسام ہتھکنڈے اپناتی ہی رہے گی ۔۔۔ اس لیئے اب جیؤ جنگ گروپ کو بھی نئے معاشی امکانات تلاش کرنے ہونگے اوراس سلسلے میں اسے پہلے اپنی مضبوطیاں بھی پہچاننی ہونگی جس میں سرفہرست اسکی تجربہ کار و مستعد افرادی قؤت ہے تو دوسری طرف اسکے ملک گیر رابطے اور پہنچ کی سہولتوں کا آزمودہ و مؤثر نظام ہے لہٰذآ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس وسعت اور ہمہ گیری سے بھرپور فائدہ اٹھایا جائے اور اس افادی پہلو کو بہتر معاشی حکمت عملی کے ساتھ ہم آہنگ کردیا جائے – جسکے لیئے اسکا اپنا وسیع اشتہاراتی و کلاسیفائیڈ نظام بھی بہت مددگار ثابت ہوسکتا ہے – نیز اگر بہترین گراؤنڈ ورک کے ساتھ پرکشش معاشی منصوبے تیار اور پیش کیئے جائیں اور اچھی قابل و ہنرمند پروفیشنل ٹیم فرنٹ پہ موجود رکھی جائے تو سرمائے کی قلت کو اسٹاک شیئرز سے باآسانی پورا کیا جاسکتا ہے- اس حوالے سے ضرورت اس امر کی ہے کہ اسٹاک مارکیٹ کی بدولت اب کئی نئے کاروبار کھڑے کیئے جائیں اور متعدد معاشی امکانات کھوجے جائیں جیسا کہ ریئل اسٹیٹ اور کار فنانسنگ اور جنرل لیزنگ کے کاروباروغیرہ ۔۔۔ ان نئے کاروباروں کے لیئے اسٹاک مارکیٹ کے علاوہ بیرونی سرمایہ کاری بھی حاصل کی جائے –
نئے کاروباروں میں قدم رکھتے ہوئے اگر ناکامی کا خدشہ دامنگیر ہے تو پھر کم منفعت کے ساتھ مگر محفوظ کامیابی تو یقینناً انہی کاروباروں میں ممکن ہے کہ جن سے اس ادارے کا پہلے سے کافی واسطہ اور تعلق رہا ہے اور اس ضمن میں ادارے کی اپنی ایڈور ٹائزنگ ایجنسی کا قیام عمل میں لایا جانا ایک مناسب اقدام ہوگا اور ایک یا زائد ایڈورٹائزنگ ایجنسیاں بھی انہی وسائل میں قائم کی جاسکتی ہیں- اسی طرح ایک اور کام پبلشنگ کا بھی ہے اور ماضی میں ادارہء جنگ نے پبلشنگ کی دنیا میں بہت دھوم مچائی تھی لیکن بعد میں ڈیجیٹیل میڈیا آتے ساتھ اس جانب توجہ ہی نہ رہی ۔۔۔ ادارہ اب اس پبلشنگ کے منفعت کام کو ملک گیر پیمانے پہ اپنے انہی وسائل کے اندر پھر سے بحال اور جاری کرسکتا ہے -نیز وقتاً فوقتاً اوپن مارکیٹ میں کرائے پہ اپنے اسٹوڈیوز اور تکنییکی معاونت فراہم کرکے بھی خطیر منفعت حاصل کی جاسکتی ہے – گویا محض میڈیائی آمدنی پہ انحصار کیئے جانے کی سوچ کو بھی بدلنا ہوگا اور انہی دستیاب وسائل اور اسی افرادی قؤت سے کئی دیگر شعبوں میں بہت سے بہتر نتائج کے حصول کے لیئے کاوشیں کرنی ہونگی یوں ملازمین کی چھانٹی کی ضرورت بھی نہیں رہے گی ،،، یہ سب خواب اپنی تعبیر پاسکتے ہیں بس ایک ولولہء تازہ اور طاقتور وژن کی ضرورت ہے اور یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ اب ان نئے رستوں پہ سفر کرنے ہی میں اس ادارے کی بقاء کا راز مضمر ہے اور اس بقاء کے لیئے اب سب کو مل جل کے جدوجہد کرنی ہوگی اور عزم اور حوصلے سے ادارہ جنگ اور جیو کو ایک کامیاب تخلیقی گروہ ہی نہیں ایک کامیاب بزنس فیملی میں بھی ڈھالنا ہوگا- (سید عارف مصطفی)۔۔
عمران جونیئرڈاٹ کام اور اس کی پالیسی اس تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر۔۔