geo news ne excellence award haasil karlia

جیودباؤبرداشت کرنا جانتا ہے۔۔

تحریر: عبید بھٹی۔۔

جن کو لگتا ہے کہ حامد میر کو جیو انتظامیہ نے کسی اور کی مرضی پر پروانہ تھمایا ہے، دباؤ بہت تھا، انتظامیہ تو حامد میر کو اگلے دس سال بھی نوکری پر رکھنا چاہتی تھی، ان کو بتاتا چلوں کہ جنگ گروپ میں ایک ایسی خاصیت ہے جو کسی اور میڈیا ہاوس میں نہیں، یعنی “اسٹیبلشمنٹ کے سامنے بھی اکڑ جانا”، آگے آپکو ثبوت کے طور پر ایک واقعہ سنتا ہوں۔۔

جنگ گروپ انتطامیہ اپنے ملازمین کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے، میر شکیل اور بالخصوص میر ابراہیم ورکر دوست بندے ہیں، سیٹھ کلچر نہیں جیسا انڈسٹریز چلانے والے نئے میڈیا اونرز کا ہے، میڈیا ورکرز کے نزدیک مالکان کا ورکر دوست رویہ کتنا معنی رکھتا ہے یہ کوئی بھی کارپوریٹ سیکٹر کا ورکر بخوبی اندازہ کرسکتا ہے، جنگ گروپ انتظامیہ اپنے ورکرز کو کسی کے کہنے پر نوکری سے فارغ نہیں کرتے، خود البتہ کئی کئی ماہ تنخواہیں نہ دیں وہ الگ بات ہے۔

بہت سے لوگ آج تک کہتے ہیں کہ طلعت حسین کو بھی اسٹیبلشمنٹ نے نکلوایا تھا، جو کہ درست نہیں، طلعت حسین کی کریڈیبلٹی اور مقبولیت 2014 سے 18 تک بتدریج نیچے گری، اس بات کا ثبوت اسکا یوٹیوب چینل ہے، اگر وہ اتنا ہی مقبول ہوتا، قابل اور عوام کا پسندیدہ ہوتا، تو یوٹیوب پر سالوں اور مہینوں پرانی وڈیوز پر زیادہ نہیں 1 لاکھ ایوریج ویوز ضرور ہوتے، عوام اب ٹی وی شوز نہیں دیکھتی، کسی کو سیاسی ایشوز اور تجزیوں میں دلچسپی ہو تو وہ اپنے موبائل پر ہی چینلز کے فیسبک یا یوٹیوب پیج پر مطلوبہ شو دیکھ لیتا ہے، ٹی وی ویسے ہی عنقریب مرنے والا ہے، اور بالخصوص سیاسی شوز تو اپنی موت آپ مرنے والے ہیں، بہت سے مر بھی چکے ہیں، ایجنڈے اور خواہشات پر مبنی جھوٹے تجزیوں نے عوام کو بیزار کردیا ہے، سوشل میڈیا کی وجہ سے عوام خود بہت بڑی تجزیہ کار بن چکی ہے، خیر یہ ایک الگ موضوع ہے۔۔

واقعے کا سال مجھے صحیح سے یاد نہیں، 2010 سے 15 کے درمیان کا واقعہ ہے، کیونکہ 2015 میں جب میں نے میڈیا جوائن کیا تو وہاں دوستوں سے اس واقعے کا علم ہوا،

جنگ گروپ کے مظفر آباد سے نمائندے نے کوئی ایسی خبر دی جو ادارے کے مزاج اور پالیسی کے خلاف تھی، نتیجتا جنگ گروپ پر بہت دباو آیا کہ بندہ فارغ کیا جائے، کئی ماہ یہ مطالبہ رہا، مگر میر شکیل الرحمان نے انکار کر دیا کہ بندہ نہیں نکالا جاسکتا، کچھ عرصہ آف ایئر کرلیں گے لیکن نکالیں گے نہیں، اور کچھ عرصے بعد وہ بندہ واپس ڈیوٹی پر آگیا، واقعے کی سند میرے میڈیا کولیگز ہیں، ذاتی طور پر اسکی سند کی تصدیق و تردید نہیں کرسکتا۔

اس سے میں نے یہ اخذ کیا کہ مظفر آباد والے معمولی نمائندے کیلیے اگر میر شکیل اس طرح ڈٹ سکتا ہے تو طلعت حسین اور حامد میر ( اگر کسی ادارے کی طرف سے کوئی دباو آیا بھی ہو ) تو بہت اوپر کی چیزیں ہیں، انکے لیے کیوں نہیں، جن کی ذاتی حیثیت سلیبریٹیز جیسی ہے، پاور کوریڈورزمیں رسائی اور تعلقات ہیں، سیاسی جماعتوں سے قریبی مراسم ہیں، بیانیے بنا کر دیتے ہیں، پی آر مہمات چلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اسلیے میری ذاتی رائے یہی ہے کہ موقع دیکھ کر انتظامیہ نے حامد میر کے بوجھ کو ہلکا کرلیا ہے، کیونکہ سب سے بڑا روپیہ ہے، یعنی کاروبار۔۔۔۔(عبید بھٹی)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں