تحریر: فرحت جاوید۔۔
‘مجھے جیو نیوز چھوڑے کافی عرصہ ہو چکا ہے مگر کچھ دن پہلے میں کراچی رشتہ داروں سے ملنے گئی تو سیاسی گفتگو شروع ہو گئی جو عمران خان کے حق میں تھی۔ میں سیاسی بات چیت میں نہیں پڑنا چاہتی تھی۔ میرے انکار پر مجھے یہ طعنہ دیا گیا کہ ’ہاں تم جیو میں رہی ہو نا، تم تو عمران خان کے خلاف ہی بات کرو گی۔یہ واقعہ مجھے ایک دوست نے سُنایا جو آج سے پندرہ سال پہلے صحافت کو خیرباد کہہ چکی ہیں، مگر اس سے پہلے وہ جیو نیوز سمیت پاکستان کے مختلف خبررساں اداروں سے منسلک رہی ہیں۔
مختلف بنیادوں پر پہلے سے منقسم پاکستانی معاشرے میں تقسیم اور خلیج بظاہر بڑھتی نظر آ رہی ہے اور چند حلقوں کا دعویٰ ہے کہ اس کی ایک بڑی وجہ ملک کے خبررساں ادارے ہیں جہاں خبر اور تجزیے کی بنیاد ’جو دکھتا ہے، وہی بِکتا ہے‘ جیسی سوچ ہے۔پاکستان میں اس وقت نوے کے لگ بھگ قومی اور علاقائی ٹی وی چینلز کام کر رہے ہیں جن میں ایک بڑی تعداد نیوز چینلز کی ہے۔ریٹنگ کی دوڑ میں سنسنی پھیلاتی، ہیجان پیدا کرتی خبروں کا بازار گرم رہتا ہے۔ سرِ شام سات بجے سے قیاس آرائیوں پر مبنی تجزیوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے جو رات گیارہ بجے تک جاری رہتا ہے۔ عمومی طور پر قیاس آرائیوں پر مبنی تجزیے اس وقت خطرناک شکل اختیار کر لیتے ہیں جب ملک کسی سیاسی عدم استحکام سے گزر رہا ہو۔
گذشتہ چند ماہ کے دوران پاکستانی میڈیا میں یکطرفہ رپورٹنگ، گمراہ کن تجزیوں اور قیاس آرائیوں پر مبنی فیک نیوز کی بھرمار نظر آئی ہے۔ اگر ہم سب سے زیادہ دیکھے جانے والے چینلز کی بات کریں تو دو نام نمایاں ہیں، جیو نیوز نیٹ ورک اور اے آر وائی نیوز۔ مگر انہی دونوں اداروں پر یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ مختلف سیاسی جماعتوں سے وابستگی کا اظہار ان کی خبروں اور تجزیوں میں اس قدر واضح ہے کہ درست معلومات تک رسائی ایک چیلنج ہے۔ آپ کسی بھی عوامی مقام پر چلے جائیں اور لوگوں سے پوچھیں کہ وہ کون سا چینل دیکھتے ہیں تو اکثریت انہی دو اداروں میں تقسیم نظر آئے گی۔ اور پھر شاید آپ کو یہ سوال کرنے کی ضرورت ہی نہ رہے کہ وہ کس سیاسی جماعت کی حمایت کرتے ہیں۔ آپ ان کی سیاسی وابستگی کا اندازہ خود ہی باآسانی لگا سکتے ہیں!
جب ہم نے لوگوں کی رائے جاننے کے لیے وفاقی دارالحکومت میں چائے کے ایک ڈھابے کا انتخاب کیا تو ہمارے اردگرد وہ لوگ موجود تھے جو سوشل میڈیا کا استعمال نہیں کرتے اور ان کا خبروں تک رسائی کا سب سے بڑا ذریعہ رات نو بجے کا خبر نامہ اور آٹھ بجے کا حالات حاضرہ کا پروگرام ہے۔ اس ڈھابے پر اپنی پسند کے چینلز (یعنی اے آر وائی اور جیو نیوز) اور ان پر سیاسی وابستگی کے الزامات کی بحث اس قدر بڑھی کہ ہمیں مداخلت کرنا پڑی کہ کہیں لوگوں میں لڑائی نہ ہو جائے۔آیئے ہم آپ کو ایک ایسے واقعے کی ہیڈلائنز دکھاتے ہیں جو دونوں چینلز کے ہر بلیٹن کا حصہ تھیں۔۔
جیو نیوز: ’پاکستان تحریک انصاف کے حمایتی شخص کا اسلام آباد کے ہوٹل میں پی ٹی آئی کے منحرف رکن نور عالم خان سے جھگڑا۔ پشتو میں گالیاں دیے جانے پر نور عالم خان اور ساتھیوں ندیم افضل چن، مصطفی نواز کھوکھر اور فیصل کریم کنڈی نے سمجھانے بجھانے کی کوشش کی۔‘
اے آر وائی نیوز: ’میریٹ ہوٹل میں نور عالم خان کو لوٹا کہنے پر بزرگ شہری پر تشدد ہوا ہے۔ شہری نے نور عالم خان پر جملہ کسا تو پیپلزپارٹی کے رہنما مصطفی نواز کھوکھر اور منحرف ارکان مشتعل ہو گئے۔‘
کیا آپ کو سمجھ آیا کہ کیسے ایک ہی واقعے کو دو مختلف انداز میں پیش کیا جانا بیانیہ تبدیل کر رہا ہے؟جن لوگوں نے اس خبر کو جیو نیوز پر سُنا، ان کی رائے میں پی ٹی آئی کے اراکین کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ اور جن لوگوں نے یہی خبر اے آر وائی نیوز پر سُنی، ان کے مطابق بزرگ شہری کے ساتھ زیادتی کی گئی۔یہ صورتحال تحریک عدم اعتماد اور عمران خان کی حکومت کے آخری دنوں میں دن بھر چلنے والی لائیو ٹرانسمیشنز میں دیکھی جا سکتی تھی۔ انہی دنوں دونوں چینلز پر بعض سینیئر صحافیوں نے قیاس آرائیوں پر مبنی ایسی غلط خبریں بھی دیں جو صارفین کے لیے ذہنی انتشار کا باعث بنیں۔مثلاً جیو نیوز پر کہا گیا کہ ’ووٹنگ کے دن پی ٹی آئی کے ہزاروں کارکنان پارلیمنٹ کے باہر جمع ہوں گے جبکہ عمارت کے اندر ہنگامہ آرائی کی جائے گی اور منحرف اراکین کو سندھ ہاوس سے نکلنے نہیں دیا جائے گا۔‘ تاہم بعدازاں یہ خبر درست ثابت نہ ہوئی۔اسی طرح اے آر وائی پر خبر دی گئی کہ ’ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی میں اتحاد برقرار رہنے کا فیصلہ کیا گیا ہے‘ مگر کچھ ہی دیر میں ایم کیو ایم نے پی ڈی ایم کا ساتھ دینے کے فیصلے کا اعلان کر دیا۔ایک ہی واقعے کی مختلف انداز میں رپورٹنگ یقینا ایڈیٹوریل پالیسیز پر ایک سوالیہ نشان ہے۔
ایسی ہی رپورٹنگ سے متعلق بی بی سی نے اے آر وائی اور جیو نیوز کی انتظامیہ سے رابطہ کیا۔اے آر وائی کے اسلام آباد کے بیوروچیف اور سینیئر صحافی صابر شاکر نے اس تاثر کو رد کیا کہ ان کی خبروں سے معاشرے میں پولرائیزیشن (تقسیم) ہو رہی ہے یا سنسنی پھیلائی جا رہی ہے۔ مگر انھوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ خبر دیتے وقت لوگوں کی خواہش کو بھی دیکھا جاتا ہے۔صابر شاکر کہتے ہیں ’جو صحافیوں کا کام ہے وہ رپورٹ کر رہے ہیں۔ جو نظر آ رہا ہے ہم وہی رپورٹ کرتے ہیں۔ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایک خبر مختلف زاویے سے دکھائی گئی۔ جیو پر کچھ اور اے آر وائی پر کچھ اور زاویہ ہو سکتا ہے۔ جیو ایک دوسری ویو پر چل رہا ہے، انھیں فلور کراس کرنے پر لوٹا کریسی نظر نہیں آ رہی تھی۔اس موضوع پر سینیئر صحافی اور جیو نیوز کے پروگرام کیپیٹل ٹاک کے میزبان حامد میر نے بھی بی بی سی سے بات کی۔ وہ کہتے ہیں کہ کسی بھی خبر کی اینگلنگ یا ایک خاص انداز میں پیش کرنا ادارے کی انتظامیہ کی حمایت کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ’اگر اے آر وائی کے مالکان کے عمران خان سے تعلقات ہوں گے تو ان کی خبروں کا جھکاؤ عمران خان کی جماعت کی طرف ہو گا۔ اسی طرح جیو کے مالکان کے مسلم لیگ نواز سے تعلقات ہوئے تو ادارے کی خبروں میں اسی جماعت کے حق میں ہونے کا تاثر ملے گا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پاکستان جیسے ملک میں اخبارات اور ٹی وی اتنے آزاد نہیں کہ نیوز روم میں بیٹھا آدمی یا صحافی اپنی مرضی سے کوئی ٹکر چلا لے۔ ہاں اینکر ایک پوزیشن لے سکتا ہے۔تاہم صابر شاکر نے جیو نیوز پر یہ الزام ضرور لگایا کہ گذشتہ دو مہینوں کے درمیان سیاست سے متعلق خبروں پر جیو نیوز ایک ایجنڈے پر کام کرتا رہا ہے۔ کچھ ایسا ہی الزام جیو کی جانب سے اے آر وائی پر بھی لگایا جاتا ہے۔ اسی بارے میں بات کرتے ہوئے جیو نیوز سے حامد میر کہتے ہیں کہ جیو کو اس دوڑ میں سنگل آوٹ کرنا غلط ہے کیونکہ ماسوائے اے آر وائے، جیو اور دیگر ادارے تصویر کے دونوں رخ دکھاتے ہوئے متوازن رپورٹنگ کرتے ہیں۔وہ کہتے ہیں ’جیو اور اے آر وائی کا کوئی مقابلہ نہیں ہو سکتا کیونکہ اے آر وائی تو صرف پی ٹی آئی کی ترجمانی کر رہا ہے۔ جبکہ جیو ہمیشہ تصویر کے دونوں رخ دکھاتا ہے۔حامد میر نے یہ تسلیم کیا کہ جیو کے بارے میں ’یہ تاثر موجود ہے کہ یہ مسلم لیگ ن کو سپورٹ کرتا ہے، تاہم نیوز گیدرنگ آپریشن اور جیو منیجمنٹ سے تعلق نہیں، عمران خان کے دور حکومت میں جیو نیوز نے مجھے آف ایئر کیا ہوا تھا تو اس کا کیا مطلب تھا؟تاہم حامد میر نے یہ بھی واضح کیا کہ ان کا ادارے کی ایڈیوریل پالیسی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
جیو کی ایڈیٹوریل پالیسی سے متعلق بات کرنے کے لیے انتظامیہ سے متعدد بار رابطہ کیا گیا مگر انھوں نے جواب دینے سے انکار کر دیا۔جیو انتظامیہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر یہ ضرور بتایا کہ جیو نیوز کی خبروں اور ان سے متعلق ایڈیٹوریل پالیسی کی بنیاد پاکستان کا آئین ہے، اور جیو ہمیشہ جمہوریت اور جمہوری روایات کی حمایت کرتا ہے۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ جیو نیوز سے متعلق مسلم لیگ ن کی حمایت کا الزام غلط ہے کیونکہ ہمارے پروگراموں میں اگر مسلم لیگ ن کی طرف جھکاؤ رکھنے والے لوگ پینل کا حصہ ہوں تو پی ٹی آئی کی حمایت والے پینلسٹ بھی موجود ہوتے ہیں۔اس سوال پر کہ تبصروں میں تو اظہار رائے زاویہ اور بیانیہ تبدیل کر سکتے ہیں، کسی واقعے کی رپورٹنگ پر اینگلنگ کیونکر کی جائے، صابر شاکر نے تسلیم کیا کہ تجزیوں، تبصروں میں ’عوام کیا سننا چاہتی ہے‘ کو ذہن میں رکھا جاتا ہے۔ لیکن حامد میر نے کہا کہ جیو نیوز پر ہونے والے تبصروں میں کسی بھی صورتحال یا خبر کے تمام رُخ دکھائے جاتے ہیں۔ہم نے دونوں چینلز کے ان سینیئر صحافیوں سے یہ سوال بھی کیا کہ ان کی خبروں اور تجزیوں میں سنسنی پھیلانے کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے؟حامد میر نے کہا کہ ’متوازن صحافت کے لیے ضروری ہے کہ کسی جماعت، ادارے یا گروپ کے ایجنڈے پر نہ چلیں۔‘ لیکن انھوں نے خود اپنے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ انسانی حقوق، جمہوریت اور آزادی صحافت سے متعلق ایک رائے رکھتے ہیں اور وہ اس رائے پر ہمیشہ کھڑے رہتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ سنسنی خیز خبروں سے دور رہنے کے لیے ضروری ہے کہ صحافی ’کسی پارٹی کے ترجمان نہ بنیں۔ آپ کا ایجنڈا یہ نہیں ہونا چاہیے کہ فلاں ادارہ غلط ہے اور فلاں پارٹی صیحیح ہے۔ اگر آپ ایجنڈا پر صحافت کریں گے، جیسا کہ بی بی سی، جیو اور اے آر وائی پر بھی الزام ہے، تو ایجنڈے کے تابع صحافت نہیں ہونی چاہیے۔اسی سوال کا جواب صابر شاکر نے کچھ ان الفاظ میں دیا ’اپنے اعصاب پر قابو رکھنا چاہیے۔ ظاہر ہے خبریں فیڈ ہوتی ہیں، ایک سیاسی جنگ چل رہی ہوتی ہے تو اپنے اعصاب پر قابو رکھنا چاہیے۔ اور جو بھی خبر آ رہی ہے اس کا جائزہ لیں کہ اس میں کتنی صداقت ہو سکتی ہے۔ اس لیے زیادہ سے زیادہ چیک اسی وقت ہو سکتا ہے۔ لیکن دوسری طرف ناظرین بھی تو ہیں انھوں نے بھی تو کچھ دیکھنا ہے نا۔ اور وہ کمنٹری پسند بھی کرتے ہیں۔صابر شاکر کہتے ہیں کہ رپورٹنگ پر ’اتنا چیک تو ضرور ہے کہ ہم آئین اور قانون کے خلاف نہ جائیں اور اگر ایسا ہو تو نوٹس آ جاتا ہے۔ لیکن ابھی تک ان واقعات کی کوریج سے متعلق کسی قسم کا کوئی نوٹس نہیں آیا۔
بی بی سی نے اسی بارے میں میڈیا پر کام کرنے والی غیرسرکاری تنظیم میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی کی شریک بانی صدف بیگ سے بات کی۔ وہ کہتی ہیں کہ حالیہ کچھ ہفتوں میں قیاس آرائیوں پر مبنی خبریں نشر کی گئیں جو کسی بھی اچھے صحافی کے لیے نہایت مایوس کن صورتحال تھی۔ایک لفظ جو میں نے بار بار سُنا، وہ یہ تھا کہ اسلام آباد میں چہ میگوئیاں چل رہی ہیں، اسلام آباد کے ڈرائنگ رومز میں سرگوشیاں چل رہی ہیں۔ سرگوشیاں اور چہ میگوئیاں اور افواہیں خبر نہیں ہیں۔ تو جب آپ ان افواہوں کو خبر بنا کر پیش کرتے ہیں اور دو بڑے چینلز بالکل متضاد خبروں کو بیش کرتے ہیں تو اس کے ساتھ یہ سابقے استعمال کرتے ہیں کہ یہ سرگوشیاں ہیں، اور افواہیں ہیں اور ان کی کوئی تصدیق نہیں ہوئی ہے تو آپ عوام میں ایک انتشار پیدا کر رہے ہیں۔ صدف بیگ کہتی ہیں کہ میڈیا ہاؤسز کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان کی خبریں اور ریٹنگ کی دوڑ معاشرے میں کیا تباہی لا رہی ہے۔(بشکریہ بی بی سی اردو)۔۔