ایف بی آر نے مبینہ ٹیکس چوری کیس میں اے آر وائی کمیونی کیشنز سے 99 کروڑ 20 لاکھ روپے طلب کئے ہیں جبکہ میڈیا ہائوس پر یہ الزام بھی عائد کیا گیا ہے کہ اس نے ٹیکس چوری الزام سے بچنے کے لئے سمجھوتے کی دستاویزات میں رد و بدل کیا۔ ٹیکس چوری ایک سال کے لئے کی گئی ہے۔ جس پر مجموعی جرمانہ 5 ارب روپے سے تجاوز کر سکتا ہے۔ دوسری جانب مذکورہ میڈیا ہائوس کا الزام ہے کہ ایف بی آر مفروضوں پر مبنی تحقیقات میں ملوث ہے۔ تفصیلی تحقیقات کے بعد ایف بی آر کے عائد کردہ الزامات کے مطابق اے آر وائی اپنے گوشواروں میں کروڑوں کی ٹیکس چوری سے متعلق گمراہ کن حقائق کی وضاحت میں ناکام رہا۔فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے اعلیٰ عہدیدار نے پیر کے روز کہا ہے کہ ایف بی آر کو ٹی وی چینل کے خلاف مبینہ ٹیکس چوری سے متعلق تحقیقات میں کسی قسم کے دبائو کا سامنا نہیں ہے۔نمائندہ جنگ نے چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی سے رابطہ کیا اور اے آر وائی کے خلاف مبینہ ٹیکس چوری کیس سے متعلق پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ کسی کےخلاف مخصوص کیس سے متعلق بات نہیں کرنا چاہتے۔تاہم، جب اس نمائندے نے ایف بی آر کے رکن ان لینڈ ریونیو ز اور ترجمان ڈاکٹر حامد عتیق سرور سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ یہ گزشتہ ہفتے کا نہیں بلکہ یہ دو تین ماہ پرانا کیس ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ ایف بی آرمتعلقہ فریق کو نہیں دیکھتا بلکہ ہر کیس میرٹ پر دیکھا جاتا ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے کراچی سے حقائق چیک کیے ہیں ، جس سے معلوم ہوا ہے کہ یہ دو تین ماہ پرانا کیس ہےاور یہ متعلقہ فورمز پر کیس چل رہا ہے۔ ایف بی آر کے جاری کردہ نوٹس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جرمانے کی دیگر متعلقہ کارروائی علیحدہ استغاثہ دائر ہوگا۔چینل نے الزام عائد کیا کہ ایف بی آر بلاواسطہ انکوائریاں کررہا ہےاور یہ مفروضوں اور قیاس آرائیوں پر مبنی ہے۔ ایف بی آر کو 13 مئی اور 25 جون 2019ء کواپنے جوابات میں اے آر وائی نے الزام عائد کیا کہ ایف بی آر کی کارروائی مفروضوں اور سنی سنائی باتوں کی بنیاد پر ہے۔ تاہم داخل دستاویزات میں مبینہ رد و بدل کے الزامات کا میڈیا ہائوس نے کوئی واضح جواب نہیں دیا۔ ایف بی آر کی ٹیکس ڈیمانڈ مالی سال 2012-13ء سے متعلق ہے۔ تاہم ایف بی آر یہ معاملہ اس وقت سامنے لایا جب اس نے گزشتہ ٹیکس بیانات کا جائزہ لینا شروع کیا۔ جب غلط بیانی کا ثبوت مل گیا تو میڈیا ہائوس کو جائزے کا ترمیمی نوٹس دیا گیا۔ ٹیکس قوانین کے تحت 99 کروڑ 20 لاکھ روپے کا نوٹس جاری کیا گیا۔ اے آر وائی نے ایف بی آر کو اپنے جواب میں نتائج کو چیلنج کیا۔ ایف بی آر کی تحقیقات کے الزامات کثیرالجہتی ہیں۔ جس کے مطابق آف شور متعلقہ مشترکہ ملکیت میں اے آر وائی ایف زیڈ ایل ایل سی نے دیگر دو کمپنیوں اے آر وائی کمیونی کیشنز اور اے آر وائی فلمز ٹی وی پروڈکشنز ان کی ایسوسی ایٹ ہیں۔ تحقیقات کے مطابق ان تین کمپنیوں نے اپنی وصولیوں اور ادائیگیوں کو طے کرنے کے لئے سہ فریقی معاہدے کو استعمال کیا۔ گروپ کے ٹیکس جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ مقامی طورپر مواد کو برآمد کرنے کا دعویٰ کر کے ٹیکس استثنیٰ حاصل کیا گیا۔ تاہم یہی مواد اپنے دبئی میں قائم ادارے سے منگوا کر پاکستان میں ٹیلی کاسٹ کیا گیا۔ تینوں کمپنیاں پاکستان سے پروڈکشن خریدنے اوراے آر وائی کمیونی کیشنز کو فروخت کے حوالے سے سہ فریقی سمجھوتے میں شامل ہیں۔ سمجھوتے کے تحت ہر مالی سال میں 30 جون تک انہیں اپنے بقایاجات طے کرنے ہوتے ہیں۔ 26 اپریل 2019ء کو اے آر وائی نے ٹرانسمیشن کے اخراجات کی مد میں دو ارب 51 کروڑ 76 لاکھ 62 ہزار 391 روپے ظاہر کئے۔ جسے ایک نوٹس کے ذریعہ غلط پایا گیا۔ ایف بی آر کے مطابق پاکستان میں فعال اے آر وائی کمیونی کیشن نے ڈھائی ارب روپے ظاہر کئے جو پاکستانی ٹیکسوں سے مشروط ہیں۔ متحدہ عرب امارات میں قائم اے آر وائی ڈیجیٹل پاکستانی ٹیکسوں سے مستثنیٰ ہے لہٰذا ڈھائی ارب روپے پر کوئی ٹیکس ادا نہیں کیا گیا۔ تاہم ایف بی آر کو معلوم ہوا کہ مستثنیٰ ادائیگیوں کے دھوکے میں کاسٹ، پروڈکشن اور سروسز میں متعلق ٹیکسوں کی کٹوتیوں کے بغیر رقوم شامل کی گئیں۔ ایف بی آر کا موقف ہے کہ میڈیا ہائوس نے غلط استثنیٰ کے دعوے کئے اور واضح کیا کہ مذکورہ رقم قابل ٹیکس ادائیگی ہے۔ اے آر وائی کمیونی کیشنز نے اپنے دفاع میں مؤقف اختیار کیا کہ ایف بی آر نے دیگر میڈیا کمپنیوں کے ساتھ لاگت کا درست موازنہ نہیں کیا۔ ایف بی آر کا اپنی سفارشا ت میں کہنا ہے کہ شوکاز نوٹس کو غیرمؤثر بنانے کے لئے دستاویزات میں ردوبدل کیا گیا۔ اے آر وائی نے اپنے جوابات میں ایف بی آر سے انکم ٹیکس گوشوارے، آڈٹ شدہ حسابات اور دیگر کمپنیوں سے ایئر ٹائم شرح کے موازنے کی نقول مانگی ہیں جو فراہم کر دی گئیں۔ ایف بی آر ذرائع کے مطابق کراچی میں قائم مذکورہ ٹی وی چینل کے کراچی میں ہیڈکوارٹر کو نوٹس جاری کیا گیا۔ باوجود اس کے نوٹس واپس لینے کے لئے بااثر حلقوں کا شدید دبائو رہا۔ تاہم متعلقہ حکام نے دبائو کے آگے جھکنے سے انکار کر دیا۔ جب اس چینل کے نمائندوں سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ٹیکس نوٹس جاری کئے جانے کا انہیں کوئی علم نہیں ہے۔دریں اثناءایف بی آر کے رکن ان لینڈ ریونیو ز اور ترجمان ڈاکٹر حامد عتیق سرور سے جب فاسٹر طریقہ کار کے ذریعے ریفنڈز کے اجراء سے متعلق پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ 14لاکھ 60ہزار روپے کا پہلا چیک برآمد کنندگان مینوفیکچررز کے اکائونٹ میں جمع کرایا جاچکا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ایف بی آر کو اب تک 4اعشاریہ4ارب روپے ریفنڈز ادائیگی کے حوالے سے 1362درخواستیں موصول ہوچکی ہیں۔صرف 21دعویداروں کو جنہوں نے اینکس۔ایچ ظاہر کیے ہیں جو کہ ریفنڈز کی رقم کے حصول کے لیے لازمی ہیں ۔ان کا مزید کہنا تھا کہ صرف برآمدکنندگان مینو فیکچررز ہی فاسٹر طریقہ کار کے ذریعے فنڈر کا اجرا کرواسکیں گے، زیادہ تر کمرشل برآمد کنندگان نے اینکس ۔ایچ جمع کیے ہیں جو کہ فاسٹر طریقہ کار کے تحت ریفنڈز کے اہل نہیں ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اب تک فاسٹر طریقہ کار اس لحاظ سے فعال ہے کہ تمام ضروری طریقہ کار مکمل ہونے کے بعد چیک براہ راست برآمدکنندگان کے اکائونٹ میں 72گھنٹے کے اندر منتقل کردیا جاتا ہے۔
دوسری جانب اے آر وائی انتظامیہ کی جانب سے ٹیکس کے حوالے سے سامنے آنے والی خبروں کو جھوٹا قرار دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ ایڈیشنل کمشنر نے ادارے کا موقف سنے بغیر ہی جلد بازی میں چھٹی کے روز آرڈر جاری کیا۔اے آر وائی کمیونیکیشنز کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ایڈیشنل کمشنر نے جلد بازی میں چھٹی کے روز آرڈر جاری کیا، انہوں نے نہ تو قانونی تقاضے پورے کیے اور نہ ہی اے آر وائی کا موقف لیا ہے ۔ اے آر وائی کمیونیکیشنز نے 991 ملین روپے ٹیکس ڈیمانڈ کے خلاف اپیل دائر کر رکھی ہے۔بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اے آر وائی کے ٹیکس معاملات قانون کے عین مطابق ہیں، غیر قانونی ٹیکس ڈیمانڈ کے خلاف قانونی چارہ جوئی جاری ہے، اے آر وائی کو پاکستان کے قانونی نظام پر مکمل بھروسہ ہے ، امید ہے کہ کیس کا فیصلہ میرٹ پر ہوگا اور حق اور سچ کی فتح ہوگی۔اے آر وائی انتظامیہ نے ٹیکس کے حوالے سے چلنے والی خبروں کو جھوٹا قرار دیا اور کہا کہ جھوٹی خبروں کا مقصد کیس پر اثر انداز ہونا ہے۔ ’ وکلا کو جھوٹی خبریں چھاپنے والوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی ہدایت کردی گئی ہے۔خیال رہے کہ ایف بی آر نے مبینہ ٹیکس چوری کیس میں اے آر وائی کمیونی کیشنز سے 99 کروڑ 20 لاکھ روپے طلب کئے ہیں جبکہ میڈیا ہاﺅس پر یہ الزام بھی عائد کیا گیا ہے کہ اس نے ٹیکس چوری الزام سے بچنے کے لئے سمجھوتے کی دستاویزات میں رد و بدل کیا۔ روزنامہ جنگ کے مطابق ٹیکس چوری ایک سال کے دوران کی گئی ہے جس کے باعث اے آر وائی کو جرمانے کی رقم 5 ارب روپے سے تجاوز کرسکتی ہے۔(خصوصی رپورٹ)۔۔۔