تحریر: محمد نواز طاہر
میری وجہ سے میرے گھر میں اختلافات تھے، لڑائیاں تھیں ، جھگڑا تھا، نفاق تھا ، سبھی ’شریک ‘خوش تھے ، سبھی کو سمجھا بجھا کر ایک پیج پر لانے اور حالات سدھارنے کیلئے میری کوشش کامیاب دکھائی نہیں دے رہی تھی جبکہ ’شریک‘ بغلیں بجاتے لڈیاں ڈالتے میری کاشت کی ہوئی ساری فصل اٹھا لے جارہے تھے اور یہ کوئی سمجھ نہیں رہا تھا ، جو سمجھ رہا تھا ، وہ اپنی غلطی ،کوتاہی پر شرمندگی کے بجائے نازاں تھا ، کبھی کبھی ’ناز کا اجر ’نخرے ‘ سے بھی حاصل کرتا تھا جبکہ یہ’ اعزاز‘ یا ’ اضافی’ اعزازیہ ‘ لینے کے عوض بے نکتے کی بھی سنا کرتا تھایا سنا کرتا ہے ، ، میرے لئے ان دونوں صورتوں میں کڑھنے کے ماسوا کچھ نہیں تھا، دلبرداشتہ ہو کر خود کشی کا سوچا تو خواب میں خود کشی کا نظارادیکھا ، جس کا مختصر الفاظ میں بیان یہ ہے کہ خود کشی کے بعد مردہ حالت میں سبھی چہرے مطمئین اور مجھ پر لعن طعن کرتے دکھائی دیئے ، کسی کو یہ احساس نہیں تھا کہ خود کشی کیوں کی ؟ احتجاجی موت کو گلے کیوں لگایا ؟ بلکہ اس کا اگلا منظر یہ تھا کہ چند لوگ بڑی شان و شوکت سے تشریف لارہے تھے جن کا استقبال کیا جارہا تھا اور اوقات سے بڑھ کر مہنگے کھانے پیش کرکے اپنی معاشی نمائش کی جارہی تھی ، مردہ بول نہیں سکتا لیکن میں یہ سب محسوس کررہا تھا اور بول رہا تھا جس کی آواز صرف میں ہی سن رہا تھا ، زیادہ زور سے بولا تو آنکھ کھل گئی ، نتیجہ یہ اخذ کیا کہ موت گلے لگا کر احتجاج ریکارڈ کرانا انتہائی جہالت ،کمزوری ، پسپائی اور شکست ماننا ہے ، حالات کا مقابلہ تو صرف زندہ رہ کر ہی کیا جاسکتا ہے اور بُرے وقت کو شکست دی جاسکتی ہے ۔۔ یہی سوچ کر ں نے دو تین سال کی علیحدگی اور کنارہ کشی کے بعد نئے عزم کے ساتھ اپنے خاندان ( پی ایف یو جے ) میںدوبارہ لوٹ آیا اور بہتری کیلئے سرگرمیاں شروع کردیں۔
جو لوگ کشتی میں پانی کا نظارہ کرتے ہیں اور پانی کے کھلاڑی کہلاتے ہیں جنہیں پانی کا کھلاڑی کہلانے کے طور پر جاننے والے تیراق بھی سمجھ لیتے ہیں ، جب کبھی وہ پانی میں اترتے ہیں تو نہ تجربہ کاری کی وجہ سے ڈوب جاتے ہیں ، جن کی قسمت اچھی ہوتی ہے انہیں غوطے کھاتے ہوئے کوئی بر وقت دیکھ کر ڈوبنے سے بچا بھی لیتا ہے ۔ پاکستانی ہر قسم کی جمہوریت اور جمہوریت پسندوں یا جمہوریت پسندی کا لبادہ اوڑھنے والوں کی بھی قریب قریب یہی حالت ہے ،ٹریڈ یونین کارکنوں اور لیڈروں کی اس سے بھی ابتر حالت ہے اور میڈیا انڈسٹری کے ٹریڈ یونینسٹ کہلانے والے تو بہت ہی پتلی حالت میں ہیں ، حالات کی ابری جنرل ضیاء کے مارشل لاءسے شروع ہوتی ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ ابتر سے ابترتر ہوتی گئی ، کارکن دو ، پھر تین اور پھر مسلم لیگی کی طرح کئی دھروں میں بٹ گئے ، سبھی کے سبھی مسلم فرقوں کی طرح حق پر اور کامل مسلمان و مو من ہونے کے دعویدار ہیں ، دیکھنے والوں کو ان میں کوئی میر صادق اور کوئی میرجعفر دکھائی دیتا ہے جبکہ سبھی کا ایک جیسا ہونا ، یا انہیں قراردینا بھی مناسب اور ممکن نہیں ۔ جو چمک دکھائی دیتی ہے ، پانی ہے یا سراب ؟ یہ تو دور نہیں بلکہ شعور سے دیکھ کر فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے ورنہ پیاسا تو بھاگ بھاگ کر ہانپ جائے گا اور پھر ٹوٹ کر گر جائے گا ۔
پاکستانی کی صحافتی تنظیموں کی تقسیم پر پرانے ( جو چند لوگ رہ گئے ) نوحہ پڑھتے ہیں ، گریہ کرتے ہیں ، افسردہ ہیں اور نفاق ختم کرکے اتحاد ترغیب دیتے ہیں ، اس ضمن میں کوششیں بھی کی گئیں جو تاحال کامیاب نہیں ہوسکیں تاہم اب اس آواز کو اپنے انداز میں سن کر ایک قدم اٹھایا جارہا ہے جس کی ابتدا لاہور ( پنجاب یونین آف جرنلسٹس ) سے کی جارہی ہے ۔ جس میں ایک گروپ ( جس کا میں خود بھی حصہ ہوں ) سب سے پہلے اپنی نفی کرکے اور کشتیاں جلا کرقدم بڑھا ہے رہا ہے جبک تحفظات بھی بہت ہیں اور اعتماد کی فضا ماضی کے تناظر میں آئڈیل ہرگز قرار نہیں دی جاسکتی ۔
یہ کوششیں جن حالات ، خیالات ، جذبات اور شرائط میں کی جارہی ہیں بس یوں سمجھ لیں کہ بہت سے نتائج ابھی خلا میں ہیںجہاں اندھیرے کا راج بھی ہے ،مطلع ابر آلود بھی ہے لیکن طلوع کا یقین بہر حال کامل ہے ، یوں سمجھیں کہ خدشات ، تحفظات کے باوجود گہرے پانی میں چھلانگ لگا دی گئی ہے یعنی ہاتھ پاﺅں پوری طرھ آزاد نہیں ہیں اور پُل سے گہرے دریا میں چھلانگ لگا دی ہے اور پانی تک پہنچنے سے پہلے خود کشی والا خواب بھی نشرِ مکرر کی طرح کھلی آنکھوں کے سامنے دماغ کے پردہ سکرین پر ہے ۔۔ دیکھتے ہیں کہ گہرا پانی کیا سلوک کرتا ہے ۔(محمد نوازطاہر)۔۔