khusra qanoon | Imran Junior

’’گائے‘‘ گی دنیاگیت میرے۔۔

دوستو،پتہ نہیں کیوں ہر بقرعید پہ ہمیں ملکہ ترنم نورجہاں کی یاد آجاتی ہیں۔۔ جنہوں نے شاید اسی دن کیلیے گایا تھا۔۔’’ گائے ‘‘گی دنیا گیت میرے۔۔گلی کوچوں میں گھنگھروں کی چھم چھم، جانوروں کی بھاں بھاں، میں میں اور بھیں بھیں۔۔لڑکوں کی چیخیں اور نعرے دیکھ کر اسپین کی بل فائٹنگ کے میدان یاد آجاتے ہیں۔۔بقرعید ایسی عید ہوتی ہے جس کا پہلے سے سب کو علم ہوتا ہے کیوں کہ چاند دس روز پہلے ہی نظر آجاتا ہے۔۔ اس بار بھی کل عید ہے، اور اپنی اوٹ پٹانگ باتیں اسٹارٹ لینے سے قبل آپ تمام احباب کو پیشگی عید مبارک۔۔

بقر عید تو دراصل مردوں کا تہوار ہے۔ بکرا منڈی جانا ، پھر ان کا جانوروں کی تفصیلات حاصل کرنا، کیا عمر ہے کہ ہمارے یہاں قربانی کا جانور اور محبوب دونوں بالی عمر کے ہی پسند کیے جاتے ہیں، کوئی شرعی عیب تو نہیں ؟چاہے خودمیں جتنے بھی عیب کیوں نہ ہوں، قربانی کے جانور میں کوئی عیب نہیں ہونا چاہئے ورنہ دنیا تْھو تْھو کرے گی، منہ کھلوا کر دانت گننا خاصا خطرے کا کام ہوتا ہے کہ اس سے پہلے کہ آپ جانور کے دانت گنیں کہیں جانور آپ کی انگلیاں نہ گننے لگ جائے۔ اس لیے قربانی ان جانوروں کی ہوتی ہے جو کبھی مکتب نہ گئے ہوں۔ پھر چلا کر دیکھنا کہ الہڑ مٹیار کی طرح چلتا ہے کہ نہیں۔ لیکن اس چال میں چلن کا بانکپن ہونا چاہئے، ورنہ کہیں ضعف چلن کی وجہ سے مسائل کھڑے ہوجائیں، خاص طور پہ گائیوں کا ضعف چلن ہمارے یہاں غیرت کا مسئلہ بن سکتا ہے جس میں قانون بھیگی بلی بن کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ پھر قیمت کا تعین اور اس پہ بحث۔ اسکے بعد اپنی حد سے باہر جاتا دیکھ کر اسے چھوڑنا، اپنی حد میں آتا دیکھ کر سوچنا کہ مبادا اس سے اچھا کوئی اور جانور مل جائے اور دوسرے کی حد میں جاتا دیکھ کر تاسف میں پڑنا کہ سال بھر اس نے ہم سے بہتر مال بنایا۔ اس طرح پوری بکرا منڈی کا ایک سیر حاصل تجزیہ جس کے بعد آپ محض میں میں اور بھیں بھیں سن کر بتا سکتے ہیں کہ یہ کسی سرائیکی دکاندار کا جانور ہے یا سندھ کے میدانوں سے آیا ہے۔ آیا خالص پاکستانی جینز رکھتا ہے یا کسی فرنگی ملک کے شاندار جینز میں بھی حصے دار ہے۔ یہاں بہت سارے سوالات کھڑے ہوتے ہیں مگر انہیں بٹھا دیتے ہیں کہ عید پہ قربانی بے زبان ، معصوم، ‘سیدھی’ سادی گائیوں ،بکروں، چھتروں،اور بکریوں کی جائز ہے ہماری نہیں۔۔

باباجی فرماتے ہیں اس بار ہونے والی مردم شماری میں کراچی میں رہنے والوں کی جو تعداد بتائی گئی ہے اس سے زیادہ تو کراچی والے جانوروں کی قربانی کردیتے ہیں، یقین نہ آئے تو عید کی چھٹیوں کے بعد شائع ہونے والے اخبارات میں لگنے والی خبریں دیکھ لیجئے گا۔۔ اس والی عید پہ تو خواتین جیسے کچن میں نظربند ہوجاتی ہیں۔۔ اس کے لیے وہ یا تو سال بھر کی جمع کی ہوئی ترکیبیں آزماتی ہیں یا پھر انکی اس بوریت کو دور کرنے کے لیے مختلف برانڈز کے تیار مصالحوں سے پرچون کی دکانیں بھر جاتی ہیں۔ اس سے پھوہڑ عورتیں ہی نہیں سگھڑ مرد بھی بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں اور اپنی سلیقہ مندی کی داد پاتے ہیں۔۔ ایک صاحب نے کئی گھنٹے تک منڈی میں گھومنے پھرنے کے بعد ایک بکرا پسند کرہی لیا۔۔پھر بیوپاری سے بکرے کے خاندان، اس کی نسل، شجرہ نسب پر سیرحاصل گفتگو کی،بیوپاری تمام سوالوں کے جواب سکون سے دیتا رہا، صاحب اچانک بولے، وہ تو سب ٹھیک ہے مگر بکرے کے سینگ بہت چھوٹے ہیں، جس پر بیوپاری نے تپ کر کہا، آپ نے کیا اس کے سینگ پر کپڑے لٹکانے ہیں۔۔مشتاق یوسفی فرماتے ہیں عاشق اور بکرے طبعی موت نہیں مرتے،دونوں کی قربانی ہوتی ہے۔۔کچھ بکرے بظاہر تو بہت صحت مند دکھائی دیتے ہیں لیکن حقیقت میں یہ ’’ سیریلیک‘‘ بکرے ہوتے ہیں، ان کے گوشت کا کوئی فائدہ نہیں، بکرا جتنا اونچالمبا ہو، گوشت اتنا ہی ڈھیٹ اور بدمزہ ہوتا ہے۔۔عطاالحق قاسمی فرماتے ہیں۔۔ میں ایک دنبے کے پاس گیا تو پتا چلا اسے مار مار کر دنبہ بنایا گیا ہے۔۔اونٹ کو اکبرالہ آبادی مسلمان سے تشبیہہ دیتے تھے کیونکہ مسلمان کی طرح اس کی بھی کوئی کل سیدھی نہیں ہوتی اور مسلمان کی طرح یہ بھی صحرا کا جانور ہے۔۔ جس طرح ہر مسلمان کی پیٹھ پر عظمتِ رفتہ کا کوہان ہوتا ہے اس کی پیٹھ پر بھی ہوتا ہے۔۔اگرچہ چھوٹی ہے ذات بکری کی، لیکن دودھ یہ بھی دیتی ہے۔ عام طور پرصرف دودھ دیتی ہے لیکن مجبور کریں تو کچھ منگنیاں بھی ڈال دیتی ہے،جن ملکوں میں بہت انصاف ہو ان میں شیر اور بکریاں ایک گھاٹ پر پانی پینے لگتی ہیں، اس میں فائدہ یہ ہے کہ شیر پانی پینے کے بعد وہیں بکری کو دبوچ لیتا ہے، اْسے ناشتے کے لیے زیادہ دور نہیں جانا پڑتا۔

جنت میں قربانی کے بکروں کا فٹبال میچ ہورہا تھا،ایک جنتی نے اس میں اپنا بکرا تلاش کرنے کی کوشش کی تو دیکھا وہ گراؤنڈ سے باہر ایک اسٹول پہ بیٹھا ہے ، جنتی اس کے قریب گیا اور کہا ، تم میچ کیوں نہیں کھیل رہے، بکرے نے اسے گھورا اور پھر کہنے لگا۔۔ حضرت پہلے آپ کے گھر کے امریکن کچن میں موجود فریج کے اندر رکھی میری ران تو ختم کرنے کا کہہ دوپھر ہی کھیل سکتا ہوں، یہ کہہ کر اس نے جنتی کو اپنی تین ٹانگیں دکھائیں۔۔اس لیے پلیز قربانی کاگوشت ذخیرہ نہ کیجئے،اسے ضرورت مندوں میں تقسیم کریں۔۔ پاکستان غذائی قلت کے شکار سولہ ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ مشیر عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں غربت، مہنگائی کی وجہ سے عوام کو بنیادی خوراک تک رسائی نہیں۔اسی وجہ سے پاکستان میں پانچ سال سے کم عمر پینتالیس فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔اس لیے بحیثیت ایک مسلمان ہماری ذمہ داری ہے کہ کھانے کی ناقدری سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی سمجھائیںتا کہ اضافی خوراک اس انسان کے پیٹ میں چلی جائے جو خالی ہے۔۔اور یہی عیدقرباں کا فلسفہ بھی ہے۔۔

اوراب چلتے چلتے آخری بات۔۔۔کعبے کے چکر لگانے سے لوگوں کو دیئے گئے چکر معاف نہیں کیے جائیں گے،سوچئے گا ضرور۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں