عمران یات
علی عمران جونیئر
دوستو،پتہ نہیں کیوں ہر بقرعید پہ ہمیں ملکہ ترنم نورجہاں کی یاد آجاتی ہیں۔۔ جنہوں نے شاید اسی دن کیلئے گایا تھا۔۔”گائے“گی دنیا گیت میرے۔۔گلی کوچوں میں گھنگھروں کی چھم چھم، جانوروں کی بھاں بھاں، میں میں اور بھیں بھیں۔۔لڑکوں کی چیخیں اور نعرے دیکھ کر اسپین کی بل فائٹنگ کے میدان یاد آجاتے ہیں۔۔کسی نے مفتی صاحب سے فتوی لینے کی غرض سے سوال کیا۔ مفتی صاحب کیا فرماتے ہیں علمائے کرام بیچ اس مسئلے کے کہ۔۔ کیاعورت کی قربانی جائز ہے؟۔۔ مفتی صاحب نے سوال کو متعدد بار بہت دھیان سے، دلجمعی سے، تندہی سے اور توجہ سے پڑھا، پھر جواب لکھا۔۔ محترمی، اگر عورت کی قربانی جائز ہوتی تو میں کب کا اپنی زوجہ محترمہ کی قربانی دے چکا ہوتا۔۔جب آپ یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے، عید بس ایک دن کے فاصلے پر ہوگی، چاندرات کا اپنا ہی مزہ ہوتا ہے۔لیکن ہمیں بچپن سے عیدالفطر اچھی لگتی رہی ہے، کیوں کہ عیدالفطر کی چاند رات کا اپنا تجسس ہوتا ہے، اپنی”تھرل“ ہوتی ہے۔ کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ چاند رات کب ہوجائے۔ جب کہ اس عید کا تودس روز پہلے سے علم ہوتا ہے کہ فلاں دن عید ہے۔
مردم شماری میں کراچی میں رہنے والوں کی جو تعداد بتائی گئی ہے اس سے زیادہ تو کراچی والے جانوروں کی قربانی کردیتے ہیں، یقین نہ آئے تو عید کی چھٹیوں کے بعد شائع ہونے والے اخبارات میں لگنے والی خبریں دیکھ لیجئے گا۔۔کچھ دوستو کا اصرار تھا کہ مردم شماری پر مزید بات کی جائے، یہ موقع تو نہیں کہ موضوع سے ہٹ کر بات کی جائے لیکن کچھ قریبی احباب کی فرمائش پر مردم شماری پر ایک دو باتیں کرکے واپس اپنے موضوع پر چلتے ہیں۔۔ کہاجاتا ہے کہ جب مردم شماری ہورہی تھی تو سندھ کی عوام نے پرزور مطالبہ کیا تھا کہ ایک ٹیم گڑھی خدابخش بھی بھیجی جائے جو بھٹو کے مزار پر حاضری دے کر بھٹو کا بھی اندراج کرے کیونکہ بھٹو زندہ ہے۔۔ہمارے ایک دوست سے مردم شماری والوں نے پوچھا، فلیٹ اپنا ہے تو اس نے برجستہ جواب دیا، نہیں، قطریوں کا ہے۔۔مردم شماری والے ناراض ہوگئے کہنے لگے،جانتے ہوغلط بیانی کی سزا ہے۔۔دوست نے ترنت جواب دیا، اس سے پہلے کسی کو ملی ہے؟۔۔جس پر مردم شماری والوں نے اپنا فارم اس طرح لپیٹاجیسے فیصلہ محفوظ کیا ہو،اور پھر آگے چلے گئے۔۔آگے ایک اور دوست کا فلیٹ تھا،مردم شماری والوں نے بیل بجائی، وہ باہر نکلا، بیوی بچوں کا نام پوچھاگیا تو اس نے اپنی قمیض کے ٹوٹے ہوئے بٹن مردم شماری ٹیم کو دکھادیئے۔۔انہوں نے ہمارے دوست کو تسلیاں دیں، فارم میں کنوارہ لکھ کے چلے گئے۔۔پھر ہمارا گھر تھا، مردم شماری والوں نے دروازہ کھٹکھٹایا،بیل بج نہیں سکتی تھی کیونکہ وہ خراب نہیں بلکہ بجلی نہیں تھی۔۔ہم سے پوچھا کیا کرتے ہو، ہم نے جواب دیا، میڈیا سے تعلق ہے، جرنلسٹ ہوں۔۔ہمیں گلے لگا کر پیٹھ تھپکی،کہنے لگے، حوصلہ مت ہارنااور جاتے ہوئے خرچہ پانی دے گئے۔۔اب انہیں کیسے پتہ چلا کہ میڈیاورکرز کو تنخواہوں کا مسئلہ درپیش رہتا ہے۔۔ہمارے پیارے دوست کہتے ہیں کہ کراچی کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کو مردم شماری کے ذریعے کنٹرول کیاگیا ہے، مسجد میں ایک لڑکا باآواز بلند دعا مانگ رہا تھا،یارب میرے کاروبار میں برکت دے، پیچھے سے اس کا دوست چلایا،اوئے کوئی آمین نہ بولنا ورنہ سب ٹپک جاؤ گے، یہ کفن بیچتاہے۔۔
جنت میں قربانی کے بکروں کا فٹبال میچ ہورہا تھا،ایک جنتی نے اس میں اپنا بکرا تلاش کرنے کی کوشش کی تو دیکھا وہ گراؤنڈ سے باہر ایک اسٹول پہ بیٹھا ہے، جنتی اس کے قریب گیا اور کہا، تم میچ کیوں نہیں کھیل رہے، بکرے نے اسے گھورا اور پھر کہنے لگا۔۔ حضرت پہلے آپ کے گھر کے امریکن کچن میں موجود فریج کے اندر رکھی میری ران تو ختم کرنے کا کہہ دوپھر ہی کھیل سکتا ہوں، یہ کہہ کر اس نے جنتی کو اپنی تین ٹانگیں دکھائیں۔۔اس لئے پلیز قربانی کاگوشت ذخیرہ نہ کیجئے،اسے ضرورت مندوں میں تقسیم کریں۔۔ پاکستان غذائی قلت کے شکار سولہ ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ مشیر عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں غربت، مہنگائی کی وجہ سے عوام کو بنیادی خوراک تک رسائی نہیں۔اسی وجہ سے پاکستان میں پانچ سال سے کم عمر پینتالیس فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔اس لیے بحیثیت ایک مسلمان ہماری ذمہ داری ہے کہ کھانے کی ناقدری سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی سمجھائیں تا کہ اضافی خوراک اس انسان کے پیٹ میں چلی جائے جو خالی ہے۔۔اور یہی عیدقرباں کا فلسفہ بھی ہے۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔کعبے کے چکر لگانے سے لوگوں کو دیئے گئے چکر معاف نہیں کئے جائیں گے،سوچئے گا ضرور۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔