تحریر: ملک محمد سلمان
گندم خریداری اور کسانوں کی بدحالی پر ہر کوئی مگر مچھ کے آنسو بہا کر موجودہ اور نگران گورنمنٹ کو برا بھلا کہہ رہا ہے۔مجھے جوڈیشری سے ایک دوست کی کال آئی کہ بھائی آپ کے آرمی میں بہت سارے دوست ہیں کسی کرنل یا برگیڈئیر کو کہہ کہ پاسکو سے باردانہ دلوا دیں۔ میں نے اس سے کہا کہ آرمی افسران سول معاملات میں سفارش یا مداخلت نہیں کرتے اور ویسے بھی اس چھوٹے سے کام کیلئے سنئیر آرمی افسران کو کہہ کر کیوں شرمندہ ہونا ہے۔ بھائی صاحب نے میری بات کاٹتے ہوئے کہا کہ یہ چھوٹا کام نہیں ہے ایک لاکھ بوری باردانہ کا مطلب پانچ دن میں سیدھی سادھی 2 سے 3 کروڑ کی دھیاڑی ہے کسانوں سے ستائس سو میں خرید کر گورنمنٹ کو انتالیس میں سیل کردینی ہے۔میں نے اس سے معذرت کی کہ میرے تعلقات کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ میں کسی دوست کو کام نہیں کہتا اور اس طرح کی دھیاڑیوں والا کام تو ہرگز نہیں کہتا۔اس دوست کی مہربانی کہ اس نے صاف صاف بتادیا کہ پر بوری 2سے 3ہزار تک کمائی ہے۔ورنہ ایسی بیسوں کالز روزانہ آرہی تھی کہ فلاں اسسٹنٹ کمشنر یا ڈپٹی کمشنر اور پاسکو کو چھوٹی سی کال کر کے ہزار بوری کا تو کہہ دیں۔ایک چوہدری صاحب تو اچھے خاصے ناراض ہوئے کہ ایسے تعلقات کا اچار ڈالنا ہے جو چھوٹا سا کام بھی نہ کرسکیں۔ان منگتوں کو غریبوں کا حق کھاتے ہوئے کوئی خوف خدا نہیں آتا۔ جہاں پر ان منگتوں کا ذکر ہورہا ہے وہیں حق تلفی اور امانت میں خیانت کرنے والے حرام خوروں کا تذکرہ بھی ضروری ہے کیوں کہ متعدد مقامات سے ناقابل تردید شواہد کے ساتھ خبریں ہیں کہ رشوت اور کک بیک کے عوض انتظامی افسران اور پاسکو ملازمین بھی کسانوں کو باردانہ دینے کی بجائے سینکڑوں ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں بوریاں ذخیرہ اندوز مافیا کو اٹھوا رہے ہیں۔ میں حیران ہوں کہ چوہدری اور نواب صاحبان کاٹن کا سوٹ زیب تن کرکے اور افسران تھری پیس پینٹ کوٹ میں ملبوس ہو کر غریب کسانوں کا حق کھا کر کس منہ اور بے ضمیری کے ساتھ چودھراہٹ اور افسری کے دعوے دار ہیں۔ ارباب حکومت اور احتسابی اداروں کی بے بسی لمحہ فقریہ ہے۔میرے دیس کے غریبو! یہاں کا المیہ ہے کہ ہر بااثر بندہ آپ کا حق کھا کر بڑے تعلقات والا بن کر احتساب سے بالا تر ہوجاتا ہے۔ وزیر اعظم اور وزراء اعلیٰ کو چاہئے کہ ایک غیر جانبدار کمیٹی بنا کر تحقیقات کی جائیں اور خرد برد میں ملوث انتظامی افسران کے ساتھ ساتھ سفارشی کالز کرنے والے بھیکاریوں کے نام بھی پبلک کیے جائیں تاکہ عوام کو خبر ہو کہ ان کی حق تلفی میں کون کون سے ہستیاں ملوث ہیں۔(ملک محمدسلمان)۔۔