سینئر صحافی ، کالم نویس اور تجزیہ کار ایازامیر کا کہنا ہے کہ ۔۔کچھ مہربان کہتے ہیں کہ تم تو ایسے ہی لکھتے رہتے ہو‘ تمہیں تو شریف خاندان سے کوئی بغض ہے۔ حضور! ہمارا کوئی جائیداد کا تنازع ہے کہ ہم بغض کے شکار ہوں گے؟ یہی لوگ یہاں کے حکمران ہیں‘ انہی کے بارے میں لکھا جائے گا۔ دنیانیوز میں تحریرکردہ اپنے کالم میں وہ مزیدلکھتےہیں۔۔ ہم کیا بل گیٹس یا ایلون مسک کے بارے میں لکھیں؟ عمران خان حکومت میں تھے تو ہم اُن کی تعریفوں پر تو نہیں لگے ہوئے تھے۔ اُس زمانے کے کالم دیکھ لیں‘ تنقید سے بھرے ہوں گے۔ کس حکمران یا طالع آزما کے بارے میں نہیں لکھا؟ صحافت نام ہی اس چیز کا ہے کہ جہاں سریا گردنوں میں ہو اُسے تھوڑا پگھلانے کی کوشش کی جانی چاہئے۔ صحافت یہ نہ کرے تو اُسے کوئی اور نام دے دیں‘ صحافت نہ کہیں۔ یہ جو انہوں نے ایچی سن کالج والی کارروائی ڈالی ہے‘ یہ موضوعِ سخن بنتا ہے کہ نہیں؟ اس سے ان کی کوئی نیک نامی ہوئی ہے؟ جتنا بھی سریا آپ کی گردن میں ہو اتنی عقل تو ہونی چاہئے کہ کون سی بات چلے گی اور کون سی نہیں۔ اتنی عقل بھی نہ ہو تو آپ کو دانشوری کا تمغہ پھرکسی نے دینا نہیں۔وزیراعلیٰ پنجاب کو بھی دیکھ لیں‘ لگتا ہے کہ فوٹو کھنچوانے کے علاوہ کوئی کام نہیں۔ جہاں جاتی ہیں ساتھ کیمرے گھوم رہے ہوتے ہیں۔ یہی مشغلہ لگتا ہے۔