aglay iqtedaar ki jang

گندم مافیا کا راج، آٹے کا بحران

تحریر: علی انس گھانگھرو

سندھ سمیت ملک بھر میں اس وقت آٹے کا بحران شدت اختیار کر گیا ہے جس وجہ سے آٹے کا کلو کم از کم ایک سو تیس روپے کلو فروخت ہو رہا ہے. آٹے کی بوری جو 55. سوروپے میں خریدی گئی تھی وہ 12 ہزار تک پہنچ گئی ہے. بدقسمتی سے ملک میں نہ گندم کی شارٹیج ہے نہ ہی گندم ذخیرہ ہوئی ہے بلکہ گندم مافیا جو حکومت میں شامل ہے وہ جان بوجھ کر عوام کا خون چوس رہی ہے اور  پیسہ  کما رہی ہے. سندھ بھر میں اس سال ایک کروڑ 40 لاکھ گندم کی بوریاں خریدی گئی تھی. فی گندم کی بوری 5500 سو میں خریدی گئی ہے جو کہ اس وقت 12 ہزار سے زائد میں بک رہی ہے. عوام کو مشکلات سے نکالنے کیلئے ریلیف دینے کے بجائے الٹا آٹا مہنگا کرکے نوالہ بھی چھیننے کی کوشش کی جا رہی ہے. سندھ کے بعد پنجاب، بلوچستان اور اب کے پی کے میں بھی پرائیویٹ آٹا 130 روپے سے زائد کلو فروخت ہو رہا ہے. سرکاری نرخوں پر ملنے والا سستا آٹا غائب ہوگیا ہے اور غریب کی پہنچ سے دور ہے. گندم مافیا آٹا کس طرح مہنگا کرکے فائدہ اٹھاتی ہے! مجھے ایک اہم ذمہ دار سیاسی رہنما نے بتایا کہ ہر ماہ سندھ حکومت مختلف فلور ملز کو دس ہزار سے 12 ہزار تک گندم کی بوری کا کوٹہ دیتی ہے. فلور مل مالکان سرکاری کوٹہ والی ایک بوری پر پانچ سے دس ہزار روپے کما رہے ہیں. مل مالکان سے ایک بوری پر 300 روپے کمیشن لیکر کوٹہ جاری کیا جاتا ہے. ڈپٹی ڈائریکٹر اور ڈی ایف سی فی بوری پر 200 روپے مزید اپنی کمیشن لے رہے ہیں، جس وجہ سے آٹا مہنگا ہوجاتا ہے. ملز مالکان کو گوڈائون کیپر 200 روپے چارج کرکے گندم کی بوری لے جانے کی اجازت دیتا ہے. ایک بوری ملز تک پہنچتے 800 سے ایک ھزار تک کمیشن ادا کرکے پہنچ جاتی ہے. اس پر مزید ظلم کہ مل مالکان چار ہزار سے پانچ ہزار نفع خوری کر رہے ہیں. لیکن سندھ حکومت کی بے خبری سمجھ سے باہر ہے. کیونکہ زیادہ تر فلور ملز ان کے لوگوں کی ہیں. 5500 سو والی  بوری 12 ہزار میں لیکر فروخت ہو رہی ہے. ایک ایک فلور ملز والا ایک ایک مہینہ میں حکومت سے ملنے والی گندم پر کروڑوں روپے نفع کما رہا ہے. اس سال ایک کروڑ 40 لاکھ گندم کی بوریاں خریدی گئی تھی. فی گندم کی بوری 5500 سو میں خریدی گئی ہے جو کہ اس وقت 12 ہزار سے زائد میں بک رہی ہے. ایک کروڑ چالیس لاکھ بوری پر تین سو کے حساب سے کمیشن 30 فیصد ہے. جس کو روکنے کے فوری اقدام کی ضرورت ہے. صرف وزیر خوراک کی آفس کی کمیشن ایک ارب 26 کروڑ روپے سے زائد کی بنتی ہے. ڈپٹی ڈائریکٹر اور ڈی ایف سی سمیت فوڈ سپروائزر، گوڈائون کیپر کی کمیشن بھی تقریباً اتنی ہی بنتی ہے. جب سرکاری گندم پر ڈھائی ارب سے زائد کی کرپشن ہو تو عوام کو خاک گندم یا آٹا سستا فراہم ہوگا. سرکاری ریٹ ہے 65 روپے جبکہ فی کلو مل رہا ہے 130 رپیہ. میڈیا رپورٹس کے مطابق بلوچستان میں آٹے کا بحران سندھ کی طرح شدت اختیار کرگیا ہے. بلوچستان حکومت کے پاس گندم کا سٹاک تقریباً ختم ہوگیا ہے. آٹا مارکیٹ سے غائب ہونے کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔

بتایا جا رہا ہے کہ بلوچستان حکومت کے پاس گندم کے ذخائر ختم ہونے کو ہیں . مارکیٹ میں 20 کلو کا تھیلا 300 روپے تک مہنگا کر دیا گیا، چند دن پہلے تک 20 کلو کا تھیلا 2300 روپے میں دستیاب تھا. اب 2500 روپے میں فروخت ہو رہا ہے. کہیں تو ریٹ 2600 روپے تک بتایا جا رہا ہے ۔صوبائی حکومت 20 کلو کا تھیلا 1470 روپے میں فراہم کرنے کا اعلان کر چکی ہے لیکن حکومت کے پاس آٹا وافر مقدار میں نہیں. کوئٹہ کی 18 فلور ملز کو یومیہ 25 ہزار بوری گندم کی ضرورت ہے. پاسکو سے صرف اڑھائی لاکھ بوری گندم خریدی جو کم پڑ گئی. 9 سے 10 لاکھ بوری گندم کا بندوبست نہ کیا گیا تو آٹا مارکیٹ سے ختم ہو جائے گا۔ دوسری جانب پنجاب میں بھی آٹے کا بحران سنگین ہوگیا ہے. میڈیا رپورٹس کے مطابق پنجاب میں سرکاری آٹے کی اضافی رقم پر سندھ اور خیبرپختونخواہ میں فروخت کرنے کا انکشاف سامنے آیا ہے. جس کے بعد 1295 روپے والا سرکاری تھیلا 2400 روپے میں مل رہا ہے. پنجاب بھر میں آٹا شارٹ ہوگیا ہے، جبکہ لاہور میں چکی کے آٹے کی قیمت تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ بحران کے باعث لاہور میں چکی کا آٹا 140 روپے فی کلو جبکہ دس کلو کا تھیلا 1400 اور بیس کلو کا تھیلا 2800 روپے میں فروخت کیا جانے لگا ہے۔

 دیکھا جائے تو پاکستان کا سب سے بڑا المیہ، غربت، مہنگائی، بے روزگاری، بھوک افلاس تو ہے ہی، لیکن یہ سب کیوں ہو رہا ہے. اس کی اہم وجہ جڑ کیا ہے؟ اس کا حل کیا ہے، اس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے. جس کے پاس حل ہے وہ خود اس عمل میں ملوث ہیں. غریب طبقہ مزدور دو وقت کی روٹی کے لئے پریشان ہے. جب ملک چلانے والا طبقہ اشرافیہ نہیں چاہیں گے کوئی بہتری ممکن نہیں ہے. صوبائی وزیر شرجیل میمن صاحب روزانہ ٹی وی چینل پر آکر کہتے ہیں کہ سرکاری سستا آٹا 65 روپے کلو فروخت ہو رہا ہے. عوام کو چاہیے کہ وہ سستا آٹا خریدیں لیکن انہی کوئی بتائے کہ وہ آٹا انسان تو دور کی بات جانوروں کے کھانے کے قابل بھی نہیں ہے. سخت سردی میں مرد خواتین غریب 10 کلو آٹے کے حصول کیلئے لائن میں لگ کر بیٹھے رہتے ہیں اور شام کو مایوس ہوکر واپس چلے جاتے ہیں. اس گندم مافیہ کے آگے سب کیوں خاموش ہیں. لوگ کس جرم تمنا کی سزا کاٹ رہے ہیں حکومت، انتظامیہ آخر کیوں خاموش ہے، آخر اس ملک میں کب تک عوام کے ساتھ اس طرح کا سلوک ہوتا رہے گا۔.

لیکن یاد رکھیں جب روٹی مہنگی ہوتی ہے تو دو چیزیں سستی ہوتی ہیں ایک عزت دوسری غیرت.ترک کہاوت ہے کہ دسترخوان بغیر روٹی کے ادھورا ہوتا ہے. خالی سوکھی روٹی پڑی ہو تو پیٹ بھر جاتا ہے،! ترکی میں خلافت عثمانیہ کے دوران صرف روٹی کے دام میں اضافہ ہوا، تو ریاست کی جانب سے پورے استنبول میں لوگوں کو گھروں میں روٹی مفت فراہم کی گئی. اس کے بعد ایک ہی دن میں گندم مافیا نے گھٹنے ٹیک دیئے تھے. ہمارے حکمرانوں میں انسانیت نام کی کوئی چیز نہیں ہے. اربوں کھربوں روپے کے اثاثے بنانے والوں کو کیا پتا کہ آٹا کتنے کلو کا ہے اور جب گھر میں آٹا نہیں ہوتا تو کیا منظر ہوتا ہے؟

کم از کم شہید بھٹو کی پارٹی والوں سے یہ امید نہیں تھی جن کا نعرہ ہے روٹی کپڑا اور مکان ہے! لیکن ان کو کیا کہا جائے جو متاثرین کی امداد تک کھا جاتے ہیں، غریبوں کی مچھردانیاں فروخت کرتے ہیں، ٹینٹ اور پلاسٹک تک کھا جاتے ہیں اور ڈکار تک نہی دیتے! نیب سکھر کے رپورٹس کے مطابق نیب سکھر نے محکمہ خوراک سے 15 ارب روپے کی رقم واپس کرکے قومی خزانے میں جمع کرا چکی ہے. یہ رقم محکمہ خوراک کے وزراء، افسران، ملز مالکان اور بیوپاریوں سے واپس لی گئی تھی. نیب نے گندم خرید کر رقم واپس نہ کرنے، گندم گم کرنے اور کرپشن کی مد میں تفتیش کرکے لوٹی گئی واپس کی گئی ہے اور متعدد کیسز زیر سماعت ہیں شاید نیب ایکٹ 2022 کے بعد زیادہ تر کیسز ختم ہو جائیں گے. یو تو صرف ریجنل سکھر کی رپورٹ ہے پورے پاکستان میں کیا نہ کیا ہوگا..

حکمرانوں سے جب آٹا مہنگا ہونے کی شکایت کی جاتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ چاول کھالیں، یا کہا جاتا ہے کہ پیسٹری کھائیں، جو مزدور ہاری، کسان روزانہ 3 سو روپے یا پانچ سو روپے کی اجرت پر مزدوری کرتا ہے بھلا وہ آج کے دور میں اپنے بچوں کا پیٹ سوکھی روٹی سے کیسے بھر سکتا ہے؟

اس وقت سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اور وفاق میں پیپلز پارٹی سمیت پی ڈی ایم جماعتوں کی مشترکہ حکومت ہے، عوام کو مہنگائی بیروزگاری، بھوک بدحالی سے نکال نہیں سکتے تو کم از کم آٹا ہی سستا دیدو تاکہ لوگ ایک یا دو وقت سوکھی روٹی کھا سکیں۔۔(علی انس گھانگھرو)۔۔

ارشدشریف تصاویر لیک، پیمرا سے رجوع کرنے کا فیصلہ۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں