ایک اور خبر کے مطابق بیٹی کی شادی کا میک اپ نہ کرنے اور ایڈوانس رقم واپس نہ کرنے پر شہری نے کنزیومر پروٹیکشن کورٹ جنوبی کی عدالت میں زارا سیلون کے خلاف عدالت میں درخواست دائر کردی۔۔عدالت نے سیلون کی جانب سے جواب جمع کرانے کی مہلت طلب کرنے پر 7 جنوری کو جواب طلب کرلیا ہے۔ کنزیومر پروٹیکشن کورٹ جنوبی کی عدالت میں سماعت کے موقع پر درخواست گزار کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا تھا کہ کورونا سے پہلے میری بیٹی کی شادی طے تھی، ہم نے شادی کے میک اپ کیلئے بیوٹی سیلون زمزمہ برانچ میں بکنگ کرائی، بکنگ کیلئے رقم بھی ایڈوانس میں دی تھی، جیسے ہی لاک ڈاؤن ہوا سیلون بھی بند ہوگیا، سیلون بند ہونے کی صورت میں بیٹی کی شادی سادگی میں کی، جب پیسے واپس لینے گیا تو سیلون انتظامیہ نے منع کردیا، سیلون مالکان نے یہ کہہ کر واپس کردیا کہ ہم کسی بھی صورت میں پیسے واپس نہیں کرتے، جب میری بیٹی کا میک اپ ہی نہیں کیا گیا تو وہ پیسے کس حساب سے رکھ رہے ہیں۔ شہری کی جانب سے استدعا کی گئی کہ بیوٹی سیلون پر بھاری جرمانہ عائد کیا جائے۔
شادی کی خواہش کے بعد شادی کے لئے میک اپ تک کی خبریں آپ نے پڑھ لیں، اب شادی کے بعد کا سین بھی سنیئے۔۔بھارتی ریاست بہار میں بیوی کے تشدد اور گالیوں سے پریشان ہوکر اپنی موت کا ڈرامہ رچانے والے شوہر کو پولیس نے گرفتار کرلیا۔بھارتی میڈیا کے مطابق سال نو کے موقع پر 37 سالہ پردیب کمار لاپتہ ہوگیا تھا جب کہ اس کے بستر اور کمرے کے فرش پر خون کے دھبے کے نشانات تھے جس پر اہلیہ 33 سالہ کماری پرتیبہ نے پولیس میں گمشدگی کی رپورٹ درج کرائی تھی۔پولیس کو تحقیقات کے دوران گھر سے آدھا کلومیٹر کے فاصلے پر خون کے داغوں والی خالی بوتل ملی جو کہ پردیب کے بستر پر لگے خون کے دھبوں جیسی ہی تھے اس بوتل کی مدد سے پولیس نے پڑوسی ضلع غازی پور سے پردیب کو بازیاب کرلیا۔پردیب کمار نے پولیس کو بتایا کہ یہ سارا ڈرامہ اپنی بیوی سے نجات حاصل کرنے کے لیے رچایا کیوں کہ وہ مجھے نہ صرف مارتی تھی بلکہ بات بے بات گالیاں دیتی اور برا بھلا کہتی تھی۔پولیس نے میڈیا کو بتایا کہ پردیب کمار پر موت کی جعلی منصوبہ بندی پر مقدمہ بنایا گیا تھا تاہم راضی نامے کے بعد انتباہ دیکر گھر جانے کی اجازت دیدی گئی ہے جب کہ ان کی اہلیہ کو بھی سمجھایا ہے کہ مارپیٹ سے گریز کریں۔
ان تینوں واقعات میں مماثلت صرف ’’شادی‘‘ ہے۔۔ امیر مینائی معروف شاعر گزرے ہیں، داغ دہلوی کے ہم عصر تھے۔۔ایک روز حضرت داغ سے کہنے لگے۔۔ میری شاعری میں وہ نزاکت، چاشنی اور رومانوی اثر کیوں نہیں جو تمہاری شاعری میںہے؟۔۔داغ نے کہا۔۔ حضرت کبھی مے خانے کا رخ کیا ہے؟؟۔۔امیرمینائی نے جواب دیا۔۔ لاحول ولاقوۃ،حضرت معاف کیجئے یہ کیا سوال ہوا؟؟ داغ نے پھر سوال داغا۔۔ کبھی کسی حسینہ کی محفل میں جا کر گانا سنا؟۔۔ امیر مینائی بولے۔۔ توبہ توبہ کیجئے داغ یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ؟ داغ نے آخری سوال پوچھا، کبھی رقص کی محفل میں جانا ہُوا؟۔۔امیرمینائی نے ایک بار پھر لاحول پڑھ کر انکار میں گردن دائیں سے بائیں گھمادی۔۔داغ فرمانے لگے۔۔ آپ صرف بیوی کو دیکھ کر شاعری کریں گے تو میاں پھر رومانوی اثر، نزاکت اور چاشنی بھی ویسی ہی ہو گی۔۔۔کسی کنوارے شاعر کو ہماری طرح کے کسی ’’ذہین‘‘ دوست نے مشورہ دیا کہ۔۔ شادی کرلو۔۔شاعر نے بڑی معصومیت سے پوچھا۔۔ وہ کیوں؟؟۔۔ دوست نے کہا۔۔ بیوی اچھی نکلی تو زندگی اچھی ہوجائے گی اگر بیوی بری نکلی تو شاعری اچھی ہوجائے گی۔۔ کورونا کے دوران سخت لاک ڈاؤن میں شوہر نے بیوی کو بڑی حیرت سے دیکھا اور پوچھ بیٹھا۔۔ تم ماسک کیوں نہیں پہنتی؟؟ بیوی نے برجستہ کہا۔۔ پھر آپکو پتہ کیسے چلے گا کہ میں منہ بنا کر پھر رہی ہوں۔۔
بات ہورہی تھی گدھے کی۔۔گدھا ایک مشہور و معروف جانور ہے گدھے کو عربی میں ’’حمار‘‘،فارسی میں خر اور انگلش میں Donkey کہتے ہیں۔ ویسے گدھے کو جو مرضی کہہ لیں اُسے کوئی فرق نہیں پڑتا ،کیونکہ رہتا تو وہ گدھا ہی ہے۔گدھے عام طور پر بے وقوف ہوتے ہیں اور خاص طور پر وہ ’’گدھے‘‘ ہی ہوتے ہیں جو گدھا بے وقوفی کے اعلیٰ درجہ پر فائز ہو اُسے اصطلاح میں ’’کھوتا‘‘ کہتے ہیں۔ ویسے گدھوں سے زیادہ یہ اصطلاح انسانوں کے لیئے استعمال کی جاتی ہے جبکہ بعض انسانوں کے لئے تو ’’خر دماغ‘‘کی اصطلاح بھی استعمال کی جاتی ہے۔۔ ایک دیہاتی کا گدھا مسجد میں گھس گیا۔۔مولوی صاحب بڑے ناراض ہوئے اور گدھے کے مالک کو ڈانٹتے ہوئے کہا۔۔اپنے گدھے کو باندھ کر رکھا کرو، تمہیں پتہ نہیں یہ مسجد ہے۔۔ گدھے کے مالک نے دونوں ہاتھ جوڑتے ہوئے معافی طلب کی اور بھولپن سے کہا۔۔مولبی صیب، بے جبان جناور ہے،غلطی سے مججدمیں آگیا، تیں قسم کھاکے بول، میرے کو کبھی مججد میں دیکھا ہے؟۔۔جنگلی گدھا شہر میں چلاآیا، اس کی ملاقات ایک شہری گدھے سے ہوئی، شہری گدھے نے علیک سلیک کے بعد دل کی بھڑاس نکالنا شروع کی۔۔میرا مالک بہت ظالم ہے گھاس بھی کم دیتا ہے۔ کام بھی زیادہ لیتا ہے۔ اور مارتا بھی ہے۔۔جنگلی گدھے کو یہ سب سن کر بہت افسوس ہوا، اس نے مشورہ دیا۔۔تو تم اس کو چھوڑ کر جنگل کیوں نہیں بھاگ جاتے۔ میرے ساتھ چلو وہاں عیش کی زندگی گزاریں۔ ۔شہری گدھا کہنے لگا۔۔ چلتا تو تمہارے ساتھ مگر بس روشن اور سنہرے مستقبل کی امید میں رکا ہوا ہوں۔ دراصل میرے مالک کی بیٹی بہت خوبصورت ہے جسکا پڑھنے میں بالکل دل نہیں لگتا۔ شرارتیں بہت کرتی ہے۔اب اسکے باپ نے کہا ہے اگر اس بار بھی پاس نہ ہوئی، شرارتیں کرنا نہیں چھوڑی تو اسی گدھے سے تمہاری شادی کر دوں گا۔ بس اسی لئے آس لگائے بیٹھا ہوں۔