دوستو، اقتصادی سروے 21-2020 میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ملک میں گدھے بڑھ گئے، تاہم گھوڑے، خچر اور اونٹ کی تعداد میں اضافہ نہ ہوسکا۔سروے رپورٹ کے مطابق ملک میں گدھوں کی تعداد میں 1 لاکھ کا اضافہ ہوگیا ہے۔رپورٹ کے مطابق ملک میں گدھوں کی تعداد 55 لاکھ تھی جو 1 لاکھ کے اضافے کے بعد 56 تک پہنچ گئی ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایک سال میں بھینسوں کی تعداد میں 12 لاکھ کا اضافہ ہوا، جو پہلے 4 کروڑ 12 لاکھ تھیں اب 4 کروڑ 24 لاکھ ہوچکی ہیں۔اقتصادی سروے رپورٹ کے مطابق ملک میں بھیڑوں کی تعداد میں بھی 4 لاکھ کا اضافہ ہوا ہے، جو پہلے 3 کروڑ 12 لاکھ تھے، اب 3 کروڑ 16 لاکھ ہوچکے ہیں۔سروے رپورٹ میں بتایا گیا کہ بکروں کی تعداد میں 21 لاکھ کا اضافہ ہوا ہے، یوں 7 کروڑ 82 لاکھ سے تعداد 8 کروڑ 3 لاکھ ہوگئی ہے۔اقتصادی سروے میں انکشاف کیا گیا کہ ملک میں گھوڑوں، اونٹوں اور خچروں کی تعداد میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے۔رپورٹ کے مطابق گھوڑوں کی تعداد 4 لاکھ، خچر 2 لاکھ اور ملک میں اونٹوں کی تعداد 11 لاکھ برقرار رہی۔تو چلیں پھر آج گدھوں پر کچھ اوٹ پٹانگ باتیں کرتے ہیں۔۔
باباجی نے جب یہ اقتصادی سروے رپورٹ پڑھی تو مسکرا کر زیرلب بڑبڑانے لگے کہ۔۔ لگتا ہے،لاہوریوں نے ”کھوتے“ کھانے بند کردیئے۔۔۔بات ہورہی تھی گدھوں کی۔۔گدھا ایک مشہور و معروف جانور ہے گدھے کو عربی میں ”حمار“،فارسی میں خر اور انگلش میں Donkey کہتے ہیں۔ ویسے گدھے کو جو مرضی کہہ لیں اُسے کوئی فرق نہیں پڑتا،کیونکہ رہتا تو وہ گدھا ہی ہے۔گدھے عام طور پر بے وقوف ہوتے ہیں اور خاص طور پر وہ ”گدھے“ ہی ہوتے ہیں جو گدھا بے وقوفی کے اعلیٰ درجہ پر فائز ہو اُسے اصطلاح میں ”کھوتا“ کہتے ہیں۔ ویسے گدھوں سے زیادہ یہ اصطلاح انسانوں کے لیئے استعمال کی جاتی ہے جبکہ بعض انسانوں کے لیئے تو ”خر دماغ“کی اصطلاح بھی استعمال کی جاتی ہے۔۔ایک دیہاتی کا گدھا مسجد میں گھس گیا۔۔مولوی صاحب بڑے ناراض ہوئے اور گدھے کے مالک کو ڈانٹتے ہوئے کہا۔۔اپنے گدھے کو باندھ کر رکھا کرو، تمہیں پتہ نہیں یہ مسجد ہے۔۔ گدھے کے مالک نے دونوں ہاتھ جوڑتے ہوئے معافی طلب کی اور بھولپن سے کہا۔۔مولبی صیب، بے جبان جناور ہے،غلطی سے مججدمیں آگیا، تیں قسم کھاکے بول، میرے کو کبھی مججد میں دیکھا ہے؟۔۔جنگلی گدھا شہر میں چلاآیا، اس کی ملاقات ایک شہری گدھے سے ہوئی، شہری گدھے نے علیک سلیک کے بعد دل کی بھڑاس نکالنا شروع کی۔۔میرا مالک بہت ظالم ہے گھاس بھی کم دیتا ہے۔ کام بھی زیادہ لیتا ہے۔ اور مارتا بھی ہے۔۔جنگلی گدھے کو یہ سب سن کر بہت افسوس ہوا، اس نے مشورہ دیا۔۔تو تم اس کو چھوڑ کر جنگل کیوں نہیں بھاگ جاتے۔ میرے ساتھ چلو وہاں عیش کی زندگی گزاریں۔۔شہری گدھا کہنے لگا۔۔چلتا تو تمھارے ساتھ مگر بس روشن اور سنہرے مستقبل کی امید میں رکا ہوا ہوں۔ دراصل میرے مالک کی بیٹی بہت خوبصورت ہے جسکا پڑھنے میں بالکل دل نہیں لگتا۔ شرارتیں بہت کرتی ہے۔اب اسکے باپ نے کہا ہے اگر اس بار بھی پاس نہ ہوئی، شرارتیں کرنا نہیں چھوڑی تو اسی گدھے سے تمہاری شادی کر دوں گا۔ بس اسی لئے آس لگائے بیٹھا ہوں۔
ہم نے کچھ روز قبل اپنے ایک کالم ”گدھے کی فکر“ میں ایک واقعہ لکھا تھا جسے کافی احباب سمجھ نہیں سکے، ای میل کرکے پوچھا کہ اس واقعہ کو بتانے کا مقصد کیا تھا۔۔ پہلے آپ واقعہ دوبارہ پڑھیں۔۔بند دکان کے تھڑے پر بیٹھے دو بوڑھے آپس میں باتیں کرتے ہوئے ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہے تھے کہ،ایک متجسس راہگیر نے ان سے اتنا خوش ہونے کی وجہ پوچھ لی۔۔ایک بوڑھے نے اپنی ہنسی پر قابو پاتے ہوئے بتایا کہ۔۔ہم نے ملک کے مسائل حل کرنے کے لئے ایک شاندار منصوبہ ڈھونڈ لیا ہے،اور وہ منصوبہ یہ ہے کہ ساری قوم کو جیل میں ڈال دیا جائے،اور ان سب کے ساتھ ایک گدھا بھی جیل میں ڈالا جائے۔راہگیر نے حیرت سے دونوں کو دیکھا اور پوچھا کہ،وہ سب تو ٹھیک ہے،مگر ساتھ گدھے کو کیوں قید کیا جائے۔۔؟ دونوں بوڑھوں نے فلک شگاف قہقہہ لگاتے ہوئے ایک دوسرے کو دیکھا،اور ایک بوڑھے نے دوسرے سے کہا۔۔دیکھا شرفو۔۔ آگیا یقین تجھے میری بات پر، میں نہیں کہتا تھا کہ یہ قوم اپنے بارے کبھی پریشان نہیں ہو گی، سب کو بس گدھے کی ہی فکر ہو گی۔۔۔مقصد یہی تھا کہ یہ واقعہ قطعی سیاسی نہیں تھا، جو لوگ اسے پی ٹی آئی یا نون لیگ سے جوڑرہے ہیں، ان کی مرضی۔۔ہم نے تو جو کہنا تھا کہہ ڈالا۔۔
گدھوں کے حوالے سے دلچسپ خبر یہ بھی ہے کہ اسپین میں کورونا وائرس کی وجہ سے تناؤ، ذہنی دباؤ اور پریشانی کے شکار طبی عملے کے لیے ایک خصوصی تھراپی کا اہتمام کیا گیا ہے جس میں عملے کے ارکان کو کچھ وقت گدھوں کے ساتھ گزارنا ہوتا ہے اور اسے ’ڈونکی تھراپی‘ کا نام دیا گیا ہے۔عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق عالمگیر وبا کورونا کے خلاف جنگ لڑنے والا ہراول دستہ یعنی طبی عملے کو شدید ذہنی دباؤ کا سامنا رہتا ہے جس سے نبرد آزما ہونے کے لیے ایک غیر سرکاری تنظیم ”ال بریتو فلیز“نے انوکھی تھراپی کا آغاز کیا ہے۔این جی او کی جانب سے رواں برس جون میں شروع کی گئی اس تھراپی میں طبی عملے کو روزانہ کی بنیاد پر کچھ وقت کے لیے گدھوں کے ساتھ رکھا جاتا ہے۔ وہ انہیں کھلاتے ہیں، پیارکرتے ہیں، کھیلتے ہیں اور سیر پر بھی لے کر جاتے ہیں۔ اس دوران ڈونکی ڈاکٹر کا رویہ بھی مشفق معالج جیسا ہوتا ہے۔ماہرین نفسیات کے خیال میں جسمانی تھکاوٹ اور ذہنی دباؤ کو دور کرنے کے لیے عمومی طور پر گھوڑوں کے ساتھ وقت گزارنا زیادہ مددگار ہوسکتا ہے تاہم این جی او کا دعویٰ ہے کہ گدھے زیادہ نرم خو ہونے کی وجہ سے ذہنی اور جذباتی انتشار میں زیادہ سود مند ثابت ہوسکتے ہیں۔کورونا سے قبل اسپین کے اندلوسیا دونانا نیشنل پارک میں این جی اوکے 23 گدھے الزائمر کے مریضوں اور بچوں کے نفسیاتی مسائل میں مدد گار ثابت ہوتے تھے تاہم اب یہاں کورونا وائرس کے مریضوں کا علاج کرنے والے طبی عملے کی تھراپی کی جا رہی ہے۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ایک ٹی وی ٹاک شو میں ہاتھاپائی دیکھنے کے بعد۔۔فردوس عاشق اعوان کو پاکستان کا وزیر دفاع لگا کر دفاع مضبوط کرنے کا عوامی مطالبہ زور پکڑنے لگا۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔