تحریر: شمعون عرشمان۔۔
نعت خوانی حُضورِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ثنا خوانی اور مَحَبَّت کی نشانی ہے اور حُضورِ پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ثنا خوانی اور مَحَبَّت اعلیٰ درجے کی عبادت اور ایمان کی حفاظت کا بہترین ذریعہ ہے لہٰذا جب بھی نعت پڑھی جائے یا سنی جائے تو با ادب رَہنا چاہئے اور ہمیشہ مقصود رِضائے الٰہی ہو ۔
مخلص اور مودب نعت خواں کی بہت فضیلت ہے اور معمولی سی بے احتیاطی سے بہت نقصان ہو سکتا ہے چنانچِہ حضرت سیِّدُنا محمد بن ترین ’’مدّاحِ رسول ‘‘ (یعنی نعت خواں ) کے مُتَعلِّق مشہور ہے کہ انہیں جاگتے میں حُضُورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی آمنے سامنے زیارت ہوتی تھی ۔ جب وہ صبح کے وَقت روضۂ اطہر حاضر ہوئے تو حُضُورانورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان سے اپنی قبرِ انور میں سے کلام فرمایا ۔ یہ نعت خواں اپنے اسی مقام پر فائز رہے حتّٰی کہ ایک شخص نے ان سے درخواست کی کہ شہر کے حاکم کے پاس اس کی سفارش کریں آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ حاکم کے پاس پہنچے اور سفارش کی ۔ اس حاکم نے آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکو اپنی مسند پر بٹھایا ۔ تب سے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ِکی زیارت کا سلسلہ ختم ہو گیا پھر یہ ہمیشہ حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں زیارت کی تمنّا پیش کرتے رہے مگر زیارت نہ ہوئی ۔ ایک مرتبہ ایک شِعر عرض کیا تو دُورسے زیارت ہوئی ، حضورِاکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا : ’’ ظالموں کی مَسنَد پر بیٹھنے کے ساتھ میری زیارت چاہتا ہے اس کا کوئی راستہ نہیں ۔ ‘‘ حضرت سیِّدُنا علی خواص رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ پھر ہمیں ان بُزُرگ(نعت خواں ) کے متعلق خبر نہ ملی کہ ان کو سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زیارت ہوئی یا نہیں حتّٰی کہ ان کا وصال ہو گیا ۔(میزان الشریعۃ الکبریٰ ص ۴۸)
فی زمانہ ہمارے ہاں ادب کے تقاضوں کے حوالے سے صورت حال انتہائی افسوس ناک ہے گذشتہ دنوں نوجوان ’ویڈیو نگار‘ یاسر سہروردی کی ہندوستانی بادام فروش کے مشہور ہونے والے گیت ”بادام بادام کچا بادام‘ ‘کو ایک ناصحانہ گیت ”رمضان، رمضان آیا رمضان رمضان“ کرکے بنانے پر کئی لوگوں کو اعتراض کرتے ہوئے دیکھا، تو یکایک خیال آیا کہ
ہمارے ہاں نہ جانے کیوں مشہور گانوں کی دھن اور طرز پر نعتیں اور مذہبی کلام پڑھنے کا چلن کوئی نیا تو نہیں ہے۔
٭ ”اے سبز گنبد والے، منظور دعا کرنا“
امجد فرید صابری کی آواز میں یہ مشہور ومعروف نعت آپ نے بھی بہت سنی ہوگی ”اے سبز گنبد والے، منظور دعا کرنا جب وقت نزع آئے دیدار عطا کرنا“ بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس کی طرز لتا منگیشکر کے گانے ”بچپن کی محبت کو دل سے نہ جدا کرنا جب یاد میری آئے ملنے کی دعا کرنا!“ سے مستعار لی گئی ہے۔
٭ ”کرم مانگتا ہوں عطا مانگتا ہوں“
امجد فرید صابری ہی کا مقبول عام ’التجائیہ‘ کلام ”کرم مانگتا ہوں عطا مانگتا ہوں،الٰہی میں تجھ سے دعا مانگتا ہوں!“بھی لتا اور رفیع کے ایک گانے ”آواز دے کے ہمیں تم بلا و ، محبت میں اتنا نہ ہم کو ستاﺅ!“کی طرز پر پڑھا گیا ہے۔
٭ جہاں روضہ پاک خیر الوریٰ ہے
مشہور و مقبول اور عہد ساز نعت خواں قاری وحید ظفر قاسمی کی پڑھی گئی خوب صورت نعت ”جہاں روضہ پاک خیر الوریٰ ہے، وہ جنت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے؟“ پاکستانی کلاسیکی گائیک مجیب عالم کے نغمے ”ذرا تم ہی سوچو، بچھڑ کے یہ ملنا، محبت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے!“ کی طرز پر پڑھی گئی ہے۔
٭چلتے چلتے
شہباز قمر فریدی کی ایک اور نعت بھی ہماری سماعت سے گزری، جس کے بول تھے ”میری بات بن گئی ہے، تیری بات کرتے کرتے“ جو واضح طور پر لتا ہی کے ایک معروف گانے ’یونہی کوئی مل گیا تھا، سرِ راہ چلتے چلتے“ پر ہے
٭النبی صلوا علیہ
معروف نعت خواں اویس رضا قادری کی اپنےزمانے کی سپرہٹ نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔النبی صلو علیہ۔۔اتنی ہٹ تھی کہ کراچی کے گلی کوچے میں سنی جاتی تھی۔اس مقبول نعت کی دھن۔۔کلاسک انڈین گانے۔۔۔ راواتا ،وتاویا۔۔۔ سے لی گئی تھی۔۔
میڈیا چینلز کی بھرمار کے باعث نعت خوانوں نے باقاعدہ سٹوڈیوز میں ان ڈور اور آوٹ ڈور ویڈیوز بنانے کی طرف توجہ دی۔ ان ویڈیوز میں نعت خواں حضرات مخصوص طرز کے عمامے، باقاعدہ ڈیزائنرز کے تیار کردہ کرتے پہنے نظر آتے۔ پہلے آڈیو کو ریکارڈ کر لیا جاتا، جس کے بعد یہ نعت گویا اس نعت خواں پہ “پکچرائز” کی جاتی۔ اکثر نعت خواں اپنے نام کے ساتھ قادری یا عطاری یا دیگر نسبتوں کا لاحقہ لگانا شروع ہو گئے۔ ان نعت خوانوں کی ایک طویل فہرست ہے۔اس منہج ِ نعت خوانی میں اویس رضا قادری کو بے انتہا مقبولیت ملی۔ اس کے علاوہ فرحان رضا قادری، عمران شیخ عطاری، سید فرقان قادری، سید ریحان قادری کے نام بھی قابل ذکر ہیں اور اب تو گویا عطاری و قادری ودیگر لاحقوں کے ساتھ ہر شہر میں نعت خواں موجود ہیں۔ ان نئے نعت خوانوں نے نعت کو گانے کی طرح کی “پرفارمنس” بنا دیا۔ بیک گراؤنڈ ذکر، مصنوعی طور پہ جھومنا، لوگوں کو ہاتھوں کے جھنڈے بنانے کا کہنا وغیرہ وغیرہ۔ کئی نعت خواں باقاعدہ ہارمونیم رکھ کے مشق کرتے۔ ساز محافلِ نعت میں لائے جانے لگے مگر اس سب کے باوجود فن کا یہ حال تھا کہ ان میں اکثر نعت خوانوں کا کھرج تک ٹھیک نہیں تھا۔ ناک سے نکلنے والی بے سُری آواز کو بیک گراؤنڈ ذکر اور اچھے ساؤنڈ سسٹم کی مدد سے قدرے قابل سماعت بنایا جاتا۔ اکثر نعت خواں باقاعدہ طے کر کے بڑے بڑے معاوضے لینے لگے اور مطلوبہ رقم پیشگی وصول کرتے۔
کیا عشق رسول میں اتنی محنت بھی نہیں کر سکتے کہ نعت کو اپنے انداز میں پڑھیں کہ وہ سن کر کسی فلمی گانے کا چربہ نہ لگے اور مرثیے کو گانے کی طرز میں پڑھنا تو بجائے خود کتنا بڑا المیہ ہے ۔ آج جتنی محنت اور توجہ رنگ برنگے کامدار خالص زنانہ سٹائل کے کُرتوں اور صافوں پر دی جا رہی ہے بھاری بھرکم معاوضے ساؤنڈ سسٹم سٹیج سیٹ اپ وغیرہ تو نعت خوانی بھی ایک ٹھیک ٹھاک منافع بخش کاروبار کی صورت اختیار کر گئی ہے پھر نعت کے بولوں کے وزن کے مطابق ان پر کسی بھارتی فلمی گانے کی دھن فٹ کر دی جائے تو بغیر محنت کے رنگ اور بھی چوکھا ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ادب احترام اور روحانیت کے پیش نظر حمد و نعت جیسے مقدس شعبے کو حصول ر ضا خدا و مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے تحت اپنایا جائے نہ کہ دنیاوی مقاصد کے لئے (عرض گذارشمعون عرشمان)۔۔