تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو، ایک نئی تحقیق ہاتھ لگی ہے۔۔ بی بی سی نے انکشاف کیا ہے کہ ۔۔گالم گلوچ اور غصے میں جذبات کے اظہار کو طویل عرصے سے سنجیدہ تحقیق کے موضوع کے طور پر قبول نہیں کیا جا رہا تھا کیونکہ یہ سمجھا جاتا تھا کہ یہ محض جارحیت، زبان پر کمزور کنٹرول، یا یہاں تک کہ کم ذہانت کی علامت ہے۔سائنسی جریدے ’لنگوا‘ میں شائع ہونے والی اس تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ممنوعہ الفاظ کا استعمال ہمارے سوچنے، عمل کرنے اور تعلق پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔لوگ اکثر گالم گلوچ کو ’کیتھارسس‘ یعنی دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے عمل کے ساتھ جوڑتے ہیں۔ یہ زبان کے استعمال کے دوسرے طریقوں سے بلاشبہ مختلف اور زیادہ طاقتور طریقہ ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک سے زیادہ زبانیں بولنے والوں کے لیے، اپنی مادری زبان میں گالی دینے سے ذہنی تشفی زیادہ حاصل ہوتی ہے۔ یعنی بعد میں جو زبانیں سیکھی جاتی ہیں ان میں اس کا اظہار اس قدر سکون کا باعث نہیں بن سکتا۔ بچپن سے سنتے آئے تھے کہ بیٹیوں کے والدین جلد بوڑھے ہوجاتے ہیں، کیوں کہ انہیں اپنی بیٹیوں کی رخصتی کی فکر کھائے جاتی ہے لیکن اب یہ غلط ثابت ہوگیا ہے۔۔سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ بیٹوں کے والدین کے دماغ جلد بوڑھے ہونے کے امکانات ہوتے ہیں۔امریکا میں 50 برس سے اوپر 13 ہزار سے زائد افراد پر کی جانے والی تحقیق میں معلوم ہوا کہ وہ والدین جن کا کم از کم ایک بیٹا بھی تھا ان کی دماغی صلاحیتوں میں جن کے بیٹے نہیں تھے ان کے مقابلے میں تیزی سے کمی واقع ہوئی۔جبکہ وہ والدین جن کے ایک سے زیادہ بیٹے تھے ان کی دماغی صلاحیتیں ان افراد کی نسبت جن کی صرف بیٹیاں تھیں زیادہ تیزی سے کم ہوئیں۔امریکا اور چیک ریپبلک سے تعلق رکھنے والے محققین نے اس معاملے کے سبب کے متعلق تحقیق نہیں کی۔ لیکن ان کا کہنا تھا کہ ممکنہ طور اس کی وجہ بیٹیوں کا والدین کا بڑھتی عمر میں خیال رکھنا ہو سکتا ہے جو ان کو صحت مند رکھتا ہے۔دوسری جانب بیٹوں کے والدین کے صحت مند طرزِ زندگی گزارنے کے کم امکانات ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر مطالعے بتاتے ہیں کہ بیٹیوں کے والدین میں شراب نوشی، منشیات کا استعمال اور تمباکو نوشی کرنے کے امکانات کم ہوتے ہیں۔ جبکہ لڑکوں کی ماؤں کا وزن زیادہ ہونے کے امکانات ہوتے ہیں۔پراگ کی چارلس یونیورسٹی اور نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی کے محققین پر مشتمل ٹیم نے 50 برس سے زیادہ عمر والے 30 ہزار سے زائد افراد کا مع شریک حیات ڈیٹا اکٹھا کیا۔ان افراد میں 13 ہزار 222 والدین حالیہ تحقیق کے لیے اہل قرار پائے جن پر تقریباً 14 سالوں تک نظر رکھی گئی۔تحقیق میں ان والدین نے اپنے بچوں کی تعداد اور ان کی جنس کے متعلق بتایا۔ ساتھ ہی وہ والدین مستقل بنیادوں پر ذہنی صلاحیتوں، جیسے کہ یاد داشت، توجہ، سوچنے اور سمجھنے کے جائزے کے لیے ٹیسٹ بھی دیتے گئے۔ان مشقوں میں 10 الفاظ کی فہرست کو یاد رکھنا، سات کے دورانیے سے 100 سے نیچے تک گنتی گننا اور 10 مسلسل عداد کو الٹا گننا شامل تھیں۔تحقیق میں شامل کُل 10 ہزار 872 شرکاء کی اولادوں میں بیٹے تھے۔ 4 ہزار 862 والدین کا ایک بیٹا تھا، 3 ہزار 523 والدین کے 2 اور 2 ہزار 487 والدین کے تین یا اس سے زائد بیٹے تھے۔۔ بچپن میں جب وڈیو گیم نیانیا آیا تھا تو ہمارے والدین اس کے قریب بھی جانے سے روکتے تھے، لیکن بچے والدین سے چھپ چھپا کر روزانہ کھیلتے ضرور تھے۔۔ والدین کا خیال ہوتا تھا کہ وڈیو گیم کھیلنے سے بچوں کا دماغ خراب ہوجاتا ہے اور پڑھائی میں ان کی دل چپسی ختم ہوجاتی ہے لیکن اب یہ معاملہ بھی الٹا ثابت ہوگیا ہے۔۔بچوں میں ویڈیو گیم کھیلنے کے فوائد اور نقصانات پر عرصے سے بحث و تحقیق جاری ہے۔ تاہم اب نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ویڈیو گیم کھیلنے سے اکتسابی صلاحیت بڑھتی ہے اور وہ روزمرہ کام کی یادداشت (ورکنگ میموری) بھی اچھی ہوتی ہے۔اس ضمن میں امریکا میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آن ڈرگ ابیوز، اڈولسنٹ برین کاگنیٹو ڈویلپمنٹ (اے بی سی ڈی) اور دیگر اداروں نے ایک سروے کیا جس میں 2000 سے زائد بچوں کو شامل کیا گیا تھا۔اختتام پر معلوم ہوا کہ ویڈیو گیم نہ کھیلنے والے بچوں کے مقابلے میں جو بچے روز دو سے تین گھنٹے ویڈیو گیم کھیلتے ہیں ان میں روزمرہ کام کی یادداشت، اکتسابی مہارت، ہیجان یا تحریک کنٹرول کرنے اور دیگر دماغی امور بہتر دیکھے گئے۔ یہ تحقیق جرنل آف امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن (جاما) میں شائع ہوئی ہے۔۔۔تحقیق کے بعد انکشاف ہو اہے کہ ویڈیو گیم کھیلنے جیسے مشہور مشغلے سے اکتسابی فوائد حاصل ہوسکتے ہیں اور اس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔یہ تحقیق یونیورسٹی آف ورمونٹ کی نگرانی میں ہوئی جس میں اے بی سی ڈی مطالعے میں شامل نو سے دس برس کے ہزاروں بچوں کا جائزہ لیا گیا تھا۔ تمام 2000 بچوں کے دماغ کی اسکیننگ بھی کی گئی تھی۔معلوم ہوا کہ جن بچوں نے روزانہ دو سے تین گھنٹے ویڈیو گیم کھیلا ان میں اکتسابی صلاحیت تیز تھی اور جن بچوں نے گیم نہیں کھیلا ان میں یہ صلاحیت کم تھی۔ پھر ویڈیو گیم کھیلنے والے بچوں کے دماغی گوشے، فرنٹل برین میں زیادہ سرگرمی بھی دیکھی گئی۔ اس کے علاوہ بچوں میں توجہ اور بصری مہارت بھی سامنے آئی۔اگرچہ اس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے لیکن ابتدائی نتائج ویڈیو گیم کے فوائد ظاہر کرتے ہیں۔ اب ایک دلچسپ خبر بھی حاضر ہے۔۔بھارت کی ایک ضلعی عدالت نے خواتین وکلا پر دوران سماعت عدالت میں اپنے بال سنوارنے سے منع کردیا ہے۔۔بھارت کی ضلعی عدالت نے خواتین وکلاء کو حکم دیا ہے کہ وہ دوران سماعت زلفیں سنوارنے سے گریز کریں، عدالتی کارروائی میں خلل پڑتا ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ مضحکہ خیز عدالتی حکم بھارتی شہر پونے کی ڈسٹرکٹ کورٹ نے 20 اکتوبر 2022 کو جاری کیا تھا جس کی تصویر سپریم کورٹ کی سینئر وکیل اندرا جیسنز نے سوشل میڈیا پر شیئر کی۔عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ خواتین وکلاء عدالتی کارروائی کے دوران اپنے بال نہ سنواریں، ان کا زلفیں سنوارنا عدالتی امور میں رکاوٹ کا باعث بنتا ہے۔خاتون وکیل اندرا جیسنز نے اپنے ٹوئٹ میں عدالتی نوٹس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’واہ! وہ کون ہے جس کے امور میں خواتین وکلاء کے باعث خلل پیدا ہورہا ہے اور کیوں؟سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے بھی عدالتی نوٹس کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے ۔۔ اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔باباجی فرماتے ہیں کہ۔۔۔ قبر کے سارے سانپ زندگی میں ہی مل گئے۔۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔