free media keliye ittehad bnane ka faisla

فری میڈیا کے لئے اتحاد بنانے کا فیصلہ

پاکستان میں آزادی اظہار کو یقینی بنانے کیلئے مختلف یونینز، پریس کلبز، صحافیوں اور میڈیا ورکرز کی ایسوسی ایشنز نے 20 جنوری کو نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں ایک اجلاس منعقد کیا اور فری میڈیا کے لئے اتحاد بنانے کا فیصلہ کر لیا گیا، اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان میں آزادی اظہار رائے کی راہ میں حائل تمام رکاوٹوں کے خاتمے کیلئے مشترکہ جد و جہد کی جائے گی اور اس سلسلے میں اسلام آباد میں جلد میڈیا کنونشن منعقد کیا جائے گا جس میں حکومت ، سیاسی جماعتوں ، انسانی حقوق اور میڈیا کی دیگر تنظیموں سمیت بار ایسوسی ایشنز کو بھی مدعو کیا جائے گا۔ اجلاس میں ایسوسی ایشن آف الیکٹرانک میڈیا ایڈیٹرز اینڈ نیوز ڈائریکٹرز کے صدر اظہر عباس ، سیکرٹری جنرل طارق محمود ، کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز کے نائب صدر عامر محمود ، سیکرٹری جنرل اعجازالحق، کراچی پریس کلب کے صدر سعید سربازی ، لاہور پریس کلب کے صدر ارشد انصاری، اسلام آباد پریس کلب کے صدر انور رضا، سیکرٹری جنرل راجہ خلیل، سیکرٹری فنانس نیئر علی ، پشاور پریس کلب کے صدر ارشد عزیز ملک، سیکرٹری عرفان موسیٰ زئی، کوئٹہ پریس کلب کے صدر خالد رند ، سیکرٹری بنارس خان، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر افضل بٹ ، پی ایف یو جے کے صدر جی ایم جمالی ، پی ایف یو جے دستور کے صدر نواز رضا، سیکرٹری اے ایچ خانزادہ ، پارلیمانی رپورٹرز ایسوسی ایشن کے صدر عثمان خان کے علاوہ ایمنڈ کی ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن ریحان خان اور مبارک علی شریک ہوئے۔ اجلاس میں کہا گیا کہ گزشتہ کئی برسوں سے یہ کوششیں کی جا رہی ہیں کہ کسی نہ کسی طرح اظہار رائے کی آزادی پر قدغن لگائی جائے، سنسرشپ نافذ کی جائے اور اس طرح کے جبر کے خلاف آواز اٹھانے والوں کی زباں بندی کی جائے ۔۔ ان کوششوں میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ لہٰذا اگر اس معاملے پر ایڈیٹرز، صحافی اور میڈیا ورکرز خاموش رہے تو موجودہ صورتحال مزید ابتر ہو جائے گی ۔ آزادی اظہار کو یقینی بنانے کیلئے اجلاس میں ان نکات پر اتفاق کیا گیا ہے، 1: آزادی اظہار اور ذمہ دارانہ صحافت کو یقینی بنانا: کوئی بھی معاشرہ آزاد میڈیا کے بغیر ترقی نہیں کر سکتا۔ اظہار رائے کی آزادی مکالمے اور مثبت بحث کو جنم دیتی ہے جو ہر جمہوری معاشرے میں ضروری ہے۔ صحافتی تنظیمیں اس حق کے لیے طویل عرصے سے جد وجہد کر رہی ہیں جو کہ پاکستان کے آئین میں درج ہے۔ گزشتہ کئی برس سے آزادی اظہار اور میڈیا کی آزادی پر قدغن لگانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں اور ان میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے جسے روکنے کے لئے ایک متحد جد وجہد ناگزیر ہے۔ 2: صحافیوں کی سلامتی اور تحفظ: گزشتہ کئی سالوں کے دوران ریاستی اور غیر ریاستی عناصر کی جانب سے متعدد صحافیوں کو قتل ،اغوا یا قید کیا گیا ۔ اسی دوران بیشتر صحافی پیشہ وارانہ فرائض کی ادائیگی کے دوران دباؤ اور انتقامی حربوں کا نشانہ بنے۔ صحافیوں کا تحفظ اور سلامتی کا مسئلہ فوری توجہ کا طالب ہے جس کیلئے ʼپروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ میڈیا پروفیشنل ایکٹʼ کا فوری نفاذ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ 3. ریاستی یا غیر ریاستی عناصر کی جانب سے میڈیا ہاؤسز پر کسی بھی حملے کیخلاف مشترکہ مزاحمت: بعض کالموں اور مضامین کی اشاعت کی معطلی ، ٹیلی ویژن پروگراموں کو رکوانا، نشریات بند کرانا ، صحافیوں کی برطرفیوں کے لئے غیر ضروری دباؤ اور غیر قانونی مطالبات معمول بن چکے ہیں جو حکومت اور ریاستی اداروں کے اس غیر ضروری دباؤ کے خلاف مزاحمت کرتا ہے وہ مختلف سزاؤں بشمول سرکاری اشتہارات کی بندش اور ٹیلی ویژن چینلز کی نشریات بند کیے جانے کا سزاوار قرار پاتا ہے ۔ یہ سب قطعی ناقابل قبول ہے۔ اس طرح کے دباؤ کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک جامع حکمت عملی تشکیل دی جانا ضروری ہے۔4: سوشل اور مین اسٹریم میڈیا پر صحافیوں کی کردار کشی: گزشتہ کئی برسوں کے دوران یہ بات سامنے آئی ہے کہ حکومت، سیاسی جماعتیں اور بعض ریاستی ادارے مخالف خیال صحافیوں کو رسوا کرنے اور مسلسل مہم کے ذریعے ان کا تشخص خراب کرنے کی پالیسی پر گامزن ہیں ۔ بدقسمتی سے کردار کشی کی اس مہم میں انہیں بعض میڈیا پرسنز اور صحافیوں کی اعانت بھی حاصل ہوتی ہے۔ بعض ٹی وی چینلز اور اخبارات بھی ان ہتک آمیز الزامات کے ساتھ ساتھ صحافتی اداروں کو مورد الزام ٹھہرانے سمیت صحافیوں پر غداری یہاں تک کہ توہین مذہب کا الزام لگانے میں پیش پیش ہوتے ہیں۔۔ اس تمام عمل کی نہ صرف مذمت کرنے بلکہ اس کو روکنے کے لئے اجتماعی طور پر کام کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ میڈیا ادارے اور صحافیوں کی ادارتی پالیسیاں مختلف ہوسکتی ہیں اور ایک ہی خبر کو مختلف انداز میں رپورٹ کیا جاسکتا ہے ، ان خبروں اور آراء پر منصفانہ اور جائز تنقید بھی ہوسکتی ہے۔ لیکن اگر میڈیا ادارے ہی صحافیوں کے خلاف مہم شروع کر دیں تو ان کا یہ عمل آزادی صحافت کے لئے خطرہ بن سکتا ہے۔اجلاس میں ان تمام نکات پر اتفاق کے بعد فوری طور پر اسٹیئرنگ کمیٹی قائم کر دی گئی جس میں تمام نمائندہ تنظیموں کے صدور اور سیکرٹریز شامل ہیں۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں