for God sake HUM TV

اللہ کے واسطے ہم ٹی وی والوں۔۔؟

تحریر: عظمیٰ رزاق۔۔

ہم پی ٹی وی کے وقتوں کے لوگ نو بجے خبریں دیکھنے کے ہی عادی ہیں۔۔اس لئے نو بجے کے سلوٹ کے ڈرامے دیکھنے کا اتفاق بہت ہی کم ہوتا ہے ۔۔ اس ڈرامے کے ٹیزر میں سویراندیم کو دیکھ کر تھوڑا اشتیاق ہوا کہ شاید کوئ اچھی کہانی ہو کیونکہ سویرا کم لیکن اچھا کام کرتی ہیں۔۔لیکن اس ڈرامے کی تین چار قسطیں دل پر بہت جبر کرکے دیکھنے کے بعد نو بجے اپنے نیوز چینل پر رہنے کے فیصلے کی تجدید کی۔عورتوں کا چینل کہلایا جانے والا “ہم ٹی وی ” شاید بھول گیا ہے کہ ہم 2020 میں داخل ہوچکے ہیں لیکن نہیں انہوں نے تو بیڑہ اٹھایا ہوا ہے ایک سے بڑھ کر ایک فرسودہ اور گھسی پٹی کہانی پیش کرنے کا۔۔

 سب سے پہلے کراچی ایک انتہائ مہنگا شہر ہے جس کے معمولی مکان یا فلیٹ کے کرائے آسمان سے باتیں کررہے ہیں لیکن ہمارے ڈراموں میں فقط دو ماں بیٹی ایک کشادہ اور سجے ہوئے گھر میں رہتی ہیں جن کو پندرہ ہزار میں کرایہ بھی ادا کرنا ہے اور کچھ باقی ضروریاتِ زندگی بھی پورے کرنے ہیں۔۔تو سب سے پہلے تو ہم کو وہ اسٹیٹ ایجنٹ دکھائےجائیں جو اتنے کم کرایہ پر بہترین گھر بیچاری ماں بیٹی کو ہر ڈرامے میں دلوادیتا ہے ۔محلے والے صبح سے شام بس ایک گھر کے سامنے جو ایسے کھڑے ہوتے ہیں کہ ان کی اپنی تو کوئ زندگی ہی نہیں ۔ان کی زندگی کا مقصد حوا اور ان کی بیٹی مریم کی ایک ایک موومنٹ پر نظر رکھنا ہے ۔۔

ممانی (نادیہ حسین) چیختے ہوئے میک اپ کے ساتھ خود بھی اوور ایکٹنگ کے ریکارڈ توڑتے ہوئے چلا چلا کر دیکھنے والوں کو چینل سوئچ کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔۔غلام(عدنان شاہ ٹیپو)  ہمیشہ کی طرح ان بیچاروں کو ایک ہی کردار دے دیا جاتا ہے جس میں وہ شدید ماہر ہوگئے ہیں۔۔لیکن میک اپ ان کا بھی کچھ کم نہیں ہوتا ۔ان کا اصل کام بس حوا کے گھر کی نگرانی کرنا ہے پھر وہ اپنی غائبانہ بیوی سے بھی ڈرتے ہوئے دکھائے گئے ہیں لیکن جب وہ حوا کو آفر کرتے ہیں تو سمجھ نہیں آتا کہ ان کا وہ بیوی سے ڈر کہاں چلا جاتا ہے۔فرحان علی آغا ۔۔ یعنی سفیر ایک نوعمری کے عشق میں مبتلا ۔۔ فلیش بیک کے سین شدید بور کرتے ہیں۔۔سویرا جو ایک بیوہ اور جوان بیٹی کی ماں ہیں ان کو بھی ہر دوسرے منٹ اپنی یونیورسٹی کی محبت یاد آتی رہتی ہے ۔اب لکھنے والے سے کوئ پوچھے کہ یونیورسٹی کی پڑھی ہوئ لڑکی کیوں سلائ مشین لئے بیٹھی ہے ۔۔ اس نے اپنی ڈگری کا کیا کیا یا وہ ڈگری اس قابل بھی نہیں تھی کہ وہ کسی اسکول کی ملازمت ہی حاصل کرسکتی ۔

اب بات ہوجائے مریم (کنزہ ہاشمی)  اور وقاص(اسد صدیقی)  کی ۔۔ یونیورسٹی جاتے ہیں دونوں لیکن صرف ایک دوسرے کے مسئلے سننے کے لئے، پڑھائ ان کا قطعی روگ نہیں۔۔ یہ الگ بات ہے کہ اسد کہیں سے اسٹوڈنٹ لگتے بھی نہیں ۔۔ وقاص کے گھر میں وہی روایتی کہانی کہ بڑی بھابھی کو اپنی بہن کی شادی اس دیور سے کروانی ہے کسی بھی قیمت پر جس کی نہ ابھی تعلیم مکمل ہوئ ہے اور نہ ہی کوئ نوکری کے دور دور تک آثار ہیں۔سفیر کے گھر میں آسمان سے ڈاؤن لوڈ کی گئ ایک کزن اپنے بیٹے اور طلاق کے ساتھ تشریف لاچکی ہیں جن کو نہ طلاق کا غم ہے اور نہ نوکری کی پرواہ۔۔اسکول کی نوکری میں تو ٹیچرز کو صبح ہی صبح گھر سے نکلنا ہوتا ہے لیکن محترمہ جن کو ایکٹنگ کی الف ب بھی نہیں آتی کبھی اسکول، اسکول ٹائم میں جاتی نظر نہیں آئیں۔۔ایک تو سمجھ نہیں آتا کہ وہ کیوں اتنی اکیلی ہیں یا بجٹ اتنا کم تھا کہ اس بیچاری کی فیملی نہیں دکھائ جاسکتی تھی ۔اب ان بیچاری کا کام بس سفیر کو شادی کے لئے راضی کرنا ہے ۔مریم کے ماموں کا بیٹا ارسلان بھی بیچارہ ہر طرف سے فارغ ہے اس کا کام بھی بس گلی میں چوبیس گھنٹے کھڑے ہوکر مریم کے آنے جانے پر نظر رکھنا ہے ۔۔

بس اس سے زیادہ دیکھنے اور لکھنے کی ہمت نہیں ۔۔ اللہ کے واسطے ہم ٹی وی والوں۔۔نکلو اب ان گلی محلوں کے مسئلے سے۔۔عورت کو بہادر اور مضبوط دکھاؤ۔۔یہ کیا کہ ہر ٹکے کا انسان عورت پر جب چاہے انگلی اٹھائے جب چاہے اس پر بہتان تراشے ۔(عظمی رزاق)۔

(عظمی رزاق معروف رائٹر ہیں اور کئی چینلز پر ڈرامہ نگاری بھی کرچکی ہیں۔۔یہ تحریر ان کے ایک پیج سے لی گئی ہے جس سے عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر)۔۔

How to Write for Imran Junior website13
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں